اسلم میرے بچپن کا دوست ہے - ہم میٹرک تک ساتھ ایک ہی
اسکول میں پڑھے تھے - اس کے بعد اس نے اپنے والد صاحب کی پرچون کی دوکان پر
بیٹھنا شروع کر دیا- اور میں نے کالج میں داخلہ لے لیا - بعد میں انٹرمیڈیٹ
کا امتحان پاسس کرنے کے بعد مجھے ایک سرکاری ادارے میں ملازمت مل گئی - حال
ہی میں اسلم کے والد صاحب کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا - اور اس کے
بعد سے وہ کافی غمگین رہنے لگا - اس نے اتنا صدمہ لیا کہ وہ بیمار پڑ گیا
اور اس نے اپنی پرچوں کی دوکان کھولنا بھی بند کر دی - ہم دونوں پچپن ہی سے
نماز محللے کی مسجد میں ادا کرتے تھے - اس لئے مسجد کے امام اور موذن ہم
دونوں کو اچھی طرح سے جانتے تھے –
میں نے اسلم کی بگڑتی ہوئی حالت کا ذکر اپنی مسجد کے امام صاحب سے کیا اور
ایک دن عشاء کی نماز کے بعد ہم دونوں مسجد میں روز مرّہ کے درس سے فارغ ہو
کر امام صاحب کے پاس گۓ اور اسلم کی ساری کیفیت بیان کی کہ وہ کس طرح سے غم
سے نڈھال ہے اور اپنے والد صاحب کے انتقال کے بعد دوکان بھی نہیں کھول رہا
ہے - امام صاحب نے ساری بات سنی اور اسلم سے بولے کہ "بیٹا غم اور خوشی
دونوں زندگی کا حصہ ہیں - اور کوئی انسان ان سے بچ نہیں سکتا - آزمائش نبی
اور رسولوں کو بھی آئی تھیں اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمّد صلی الله علیہ
و آ له وسلم کو بھی سب سے زیادہ آزمایا گیا- ان کے مقابلے میں ہماری کیا
اوقات ہے ؟ ہم تو ان کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں - امام صاحب نے
مزید کہا کہ "صرف غم کرنے سے بہتر ہے کہ تم اپنے مرحوم والد صاحب کی مغفرت
کی دعا مانگا کرو - اچھے اچھے کام کرو تا کہ انکی روح کو ثواب پہنچے -
شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں غم میں مبتلا کر کے بیمار کر دے تا کہ تم
بستر سے لگ جاؤ اور کسی کام کے قابل نہ رھو - نہ نماز پڑھ سکو نہ روزہ رکھ
سکو نہ روزی کمانے کے قابل رھو - اور نہ اپنے مرحومین کے لیے ایصال ثواب کر
سکو - اگر تمہیں صحیح معنوں میں اپنے مرحوم والد سے محبت ہے تو غم میں
مبتلا ہو کر بیمار پڑنے سے بہتر ہےکہ اپنی زندگی سیرت طیبہ صلی الله علیہ و
آ له وسلم کے مطابق گزارو جس کے نتیجے میں تمہیں دونوں جہاں کی کامیابی
نصیب ھو گی - امام صاحب کی اچھی باتوں میں وہ اثر تھا کہ اسلم نے ہمت سے کم
لینا شروع کر دیا اور دوکان کھولنا شروع کر دی اور نارمل زندگی گزارنے لگا
بقول شاعر
غم سب کے مشترک تھے مگر حوصلے الگ
کوئی بکھر گیا کوئی مسکرا گیا
|