دھوکے باز ہمدرد

میں دفتر سے چھٹی کے بعد بس اسٹاپ پر کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا - کہ ایک موٹر سائیکل سوار میرے پاس آ کر رکا اور کہنے لگا " آپ کو کہاں جانا ہے ؟ میں چھوڑ دیتا ہوں-"

میں نے انکار کر دیا - کیونکہ اسے دیکھتے ہی مجھے اپنے افسر کا قصّہ یاد آ گیا تھا - ہوا یوں تھا کہ وہ چھٹی کے دن سودا لے کر آ رہے تھے اور گھر جانے کے لیے سڑک پار کر کے دوسری طرف جانا چاہتے تھے کہ اتنے میں ان کے پاس ایک موٹر سائیکل سوار رکا اور بولا "بزرگو بیٹھو میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں –" اس پر میرے افسر نے جواب دیا کہ "بیٹے مجھے آگے نہیں جانا بلکہ سڑک پار کرنی ہے-" اور ساتھ ہی اس کا شکر بھی ادا کیا اور دعا بھی دی - جب وہ روڈ پار کر کے دوسری طرف پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ موٹر سائیکل والا گھوم کر ان کے پیچھے آ گیا مگر اب وہ اپنے اصلی روپ میں تھا یعنی اسنے پستول نکالی ہوئی تھی اور بد تمیزی سے بول رہا تھا کہ

"او بڈھے جو کچھ بھی تیرے پاس ہے نکال دے ورنہ یہیں ختم کر دونگا –" اس پر میرے افسر نے کہا کہ" بیٹا تھوڑی دیر پہلے تو تم نے مجھے لفٹ کی آفر کی تھی جس پر میں نے تمہارا شکریہ ادا کیا تھا اور دعا بھی دی تھی مگر اب تمہارا یہ رویہ سمجھ سے باہر ہے –" اس پر اس دھوکے باز ہمدرد نے ان کو گالیاں دینا شروع کر دیں- قصہ مختصر وہ ان کی جیب صاف کر کے فرار ہو گیا - بقول غالب
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

ہمارے پیارے نبی حضرت محمّد صلی اللہ علیه وسلم کا ارشاد گرامی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ "حد سے زیادہ خوشحالی اور حد سے زیادہ بد حالی کفر کی طرف لے جاتی ہے -"

اگر ہم اپنے حالات کو دیکھیں تو بیروزگاری عام بے اور برکتی بھی عام بے- دعا ہے کہ ھمارے اخلاقی اور معاشی حالت بہتر ہوں اور لوگوں کو روزگار ملے تا کہ ان کو عزت کی روزی مل سکے اور ہمیں ایسے واقعات سے سابقہ نہ پڑے آمین


 

Iftikhar Ahmed
About the Author: Iftikhar Ahmed Read More Articles by Iftikhar Ahmed: 42 Articles with 90338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.