آدمی ہر دل عزیز تھا

ایک دفعہ چندہ لینے کے لیے اس بازار میں گیا۔ایک طوائف نے اپنی ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔ طارق نے بھرے بازار میں اس کے پاوں چوم لیے طارق عزیز کے بارے میں یہ جملہ راجہ انور (جو ذولفقار علی بھٹو کے مشیر تھے) نے اپنی کتاب جھوٹے روپ کے درشن میں لکھا ہے۔

عبدلعزیز پاکستانی جب جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تو اس منٹگمری (سائیوال) کے کربلا روڈ پر اسے رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا مکان الاٹ ہوا۔ بلوے کا دور تھا۔ طارق عزیز نے غربت، محرومی، نا انصافی اور انسان کے ہاتھوں انسانیت کو قتل ہوتے اپنی دیکھتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ سنتے کان بھی رکھتا تھا اور دیکھتی آنکھ بھی مگر اس کے سینے میں انسان دوست دل نے اسے بے قرار ہی رکھا۔

طارق عزیز جب سائیوال سے لاہور کے لیے چلا تو اس کی منزل فلمی دنیا تھی۔اس نے ہوٹل پر میز صاف کیے، گاڑیوں کو دہویا، لاہور کی سڑکوں پر سویا مگر اس نے ہار نہیں مانی۔اس نے خواب بڑا دیکھا ہوا تھا۔ قانون فطرت ہے کہ بار بار کی ناکامی انسان کو کامیابی کا رستہ دکھاتی ہے۔ طارق عزیز کو کامیابی کی راہ ریڈیو پاکستان لے گئی۔ ریڈیو پاکستان کی بغل میں جب صدر ایوب خان نے ۴۶۹۱ میں پی ٹی وی کا افتتاح کیاتو ٹی وی پر افتتاحی اعلان کرنے والا طارق عزیز تھا۔۵۷۹۱ میں پروڈیسر عارف رانا کے ساتھ مل کر ظارق عزیز نے نیلام گھر کی بنیاد رکھی۔ یہ کوئیز شو ابتداء ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے سے شروع ہوتا اور پاکستان زندہ باد کے الفاظ پر ختم ہوتا مگر جمعرات کے دن ایک گھنٹے کا نیلام گھر اس لحاظ سے انقلابی ثابت ہوا کہ اس نے نوجوانوں میں علم سیکھنے اور کتاب پڑہنے کی جوت ہی نہیں جگائی بلکہ اپنی اقدار و روایات سے بھی روشناس کرایا۔ طارق عزیز خود طالب علم، کتاب دوست، صداکار، شاعر، کمپیئر ، ادب شناس ہونے کے ساتھ بڑا پاکستانی بھی تھا۔ اس نے نیلام گھر کے ناظرین میں وطن کی محبت جاگزیں کی۔

بچپن کی محرومیوں نے اسے ما وزے تنگ کی بائیں بازو کی ناو میں بٹھا دیا تھا۔ جب ذولفقار علی بھٹو نے لاہور میں ماو کی دی ہوئی ٹوپی لہرائی اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تو طارق عزیز نے اکثر پاکستانیوں کی طرح بھٹو کا ساتھ دیا۔ مگر 1989 تک پیپلز پارٹی کی ناو کے لیے راوی کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ اب قوم کا نجات دہندہ نواز شریف تھا۔ طارق عزیز نے قوم کا ساتھ دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے حق میں جب میڈیا میں پروپیگنڈہ شروع ہوا اور کپتان کو پاکستان کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا تو طارق عزیز کی ہمدردیاں کپتان کے ساتھ ہو گئیں۔ یہ المیہ سب ہی پاکستانیوں کا ہے اور طارق عزیز تو بڑا پاکستانی تھا۔دراصل وہ ایک نظریاتی، اصول پرست، عوام دوست اور ذہین انسان تھا۔اس نے کہاتھا۔

مڈھ قدیم توں دنیا اندر دو قبیلے آئے نے

اک جنھاں زہر نی پیتے دوجے جنہاں زہر پیائے نے

طارق عزیز کے حاسد اسے سیکولر بتاتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کہا کرتا تھا خاک میں خاک ہونے سے پہلے اس خاک شفا (قران) کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لو۔ دنیا بھی خوش اگلا جہاں بھی خوش

۔ اس نے انسانیت، سالگرہ، قسم اس وقت کی ، کٹاری ، چراغ کہاں روشی کہاں اور ہار گیا انسان جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا مگر اس کو کامیاب انسان نیلام گھر نے بنایا۔ طارق عزیز کا بات کرنے کا، لبا س پہننے کا اور کام کرنے کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ جو کام کرتا اس پر طارق عزیز کی چھاپ لگ جاتی۔آج مختلف چینلز پر کوئز پروگرام چل رہے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی نیلام گھر تک نہیں پہنچ پایا۔ نیلام گھر پر طارق عزیز کی چھاپ لگ چکی تھی۔

وہ لکھاری بھی تھا مگر اپنی ہی طرز کا۔ اس نے کالم بھی لکھے مگر دوسروں سے مختلف، اس کے کالموں کے مجموعے کانام داستان ہے۔ اس نے ہمزاد دا دکھ کے نام سے پنجابی میں شاعری بھی کی مگر اپنے ہی انداز میں۔

طارق حسن پرست بھی تھا۔ اس کا کراچی سے شائع ہونے والا رسالہ پندرہویں صدی اس کی حسن پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔مگر کراچی ہی میں اس نے کے پی کے سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ سے شادی کر لی ۔ ایک بیٹا بھی تھا جو فوت ہو گیا۔

اس کی موت پر انور شعور نے کہا تھا:

وہ دیکھنے کی چیز دکھانے کی چیز تھا
طارق عزیز آدمی ہر دل عزیز تھا


 

Dilpazir
About the Author: Dilpazir Read More Articles by Dilpazir: 135 Articles with 169355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.