الیکٹرانک میڈیا کی دُنیا میں نصف صدی تک راج کرنے والا
ساہوکار 17جون 2020کو اپنے چاہنے والوں کو اداس چھوڑ کر چلا گیا۔ شائد ہی
کوئی اس شخصیت سے واقف نہ ہو۔ ان کی موت کا سن کر شائد ہی کسی کی آنکھ
اشکبار نہ ہوئی۔ میڈیا کی دُنیا بڑی پر کشش اور سحر انگیز ہے، بڑے بڑے نام
پیدا ہوئے، لیکن جو پذیرائی اس شخصیت کو ملی اس کا ثبوت اس کی موت کے بعد
دیکھنے کو ملا، ہر وقت پاگلوں کی طرح پاکستان کے لیے بولنے و الا، مثبت سوچ
کا سودائی، محبتیں بانٹنے والی ہستی۔ادیب، شاعر، اداکار اور سب سے بڑی کر
وطن سے پیار کرنے والے کا دنیاوی سفر اختتام پذیر ہوا۔نیلام گھر سے طارق
عزیز شوکے میزبان رہے ہمیشہ پردہ سکرین پرنئی نسل کے لیے ایک خوبصورت پیغام
دیتے رہے۔ قائد اعظم ؒ کے نقشِ قدم پر چلنے والا وصیت کرجاتا ہے کہ مرنے کے
بعد دفنائے جانے سے پہلے میری تمام تر جائیداد اور بنک بیلنس حکومت پاکستان
قومی خزانے میں جمع کروائی جائے، جس پر عمل کرتے ہوئے چار کروڑ اکتالیس
لاکھ روپے خزانے میں جمع کروا دی گئی۔ ایک پیغام میں کہتے ہیں کہ اللہ پاک
نے مجھے اولاد نہیں دی یہ خدا کی قدرت ہے جسے چاہے دے جسے نہ چاہے نہ دے،
جسے چاہے دے کر واپس لے لے۔۔طارق عزیز ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ انہوں نے ریڈیو
اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی سب سے
پہلی فلم انسانیت (1967ء) تھی اور ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم
اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔انہیں
ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے
1992ء میں حسن کارکردگی کے تمغے سے بھی نوازا گیا۔[3] طارق عزیز نے سیاست
میں بھی حصہ لیا اور 1997 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔طارق عزیز ایک
علم دوست شخصیت ہونے کے حوالے سے خود بھی قلم کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے
رہے ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ”داستان“
کے نام سے اورپنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ”ہمزاد دا دکھ“ شائع ہو چکا ہے۔
انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی ہے۔
پنجابی غزل
گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اے ایہہ فیصلے دا عذاب کیہ اے
میں سوچناں واں چونہوں دِناں لئی ایہہ خواہشاں دا حباب کیہ اے
جے حرف اوکھے میں پڑھ نئیں سکدا تے فیر جگ دی کتاب کیہ اے
ایہہ سارے دھوکے یقین دے نے نئیں تے شاخ گلاب کیہ اے
ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے
تے حکم عالی جناب کیہ اے
٭٭٭٭٭
آزاد نظم سے اقتباس [4]
دوست یہ تو کی ہے تو نے بچوں کی سی بات
جو کوئی چاہے پا سکتا ہے خوشبووں کے بھید
اس میں دل پر گہرے درد کا بھالا کھانا پڑتا ہے
ہنستے بستے گھر کو چھوڑ کے بن میں جانا پڑتا ہے
تنہائی میں عفریتوں سے خود کو بچانا پڑتا ہے
خوشبوگھر کے دروازوں پر کالے راس رچاتے ہیں
جو بھی واں سے گزرے اس کو اپنے پاس بلاتے ہیں
زہر بھری پھنکار سے اس کے جی کو خوب ڈراتے ہیں
جو کوئی چاہے پا سکتا ہے خوشبووں کے بھید
٭٭٭٭٭
تنقید و آرا:۔ پی ٹی وی کراچی کے سابق جی ایم قاسم جلالی نے طارق عزیز کی
بحیثیت پروگرام کمپئیر فنی صلاحیتوں کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔”ان
دنوں جبکہ پروگرام ریکارڈ کرنے کی بجائے براہ راست چلائے جاتے تھے،طارق
عزیز کو سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔پروگرام شروع کرنے کے بعد کسی اداکار یا
کردار نے آنا ہوتا تھا،اور اسے آنے میں تاخیر ہوجاتی تو طارق عزیز دیکھنے
والوں کو اپنی ایسی باتوں میں لگا لیتے کہ تاخیر محسوس ہی نہیں ہوتی تھی،
یوں تاخیر کا عرصہ کمال خوبی سے ازخود نکل جاتا تھا۔[5]وفات طارق عزیز نے
17 جون، 2020ء کو 84 سال کی عمر میں، لاہور میں وفات پائی۔حوالہ جات پی ٹی
وی: سنہرے ماضی کی یادیں، ا ب Tareekh e Pakistan – Tariq Aziz (صدارتی
تمغا برائے حسن کارکردگی۔ طارق عزیز) | Online History Of Pakistan ”میں
ایسا کہاں تھا پہلے“ - ایکسپریس اردو، ”قصّہ نصف صدی کا“:پی ٹی وی کا
پروگرام اور طارق عزیز۔'
|