بنگلہ دیش نے کلچر اور مذہبی امور کے لیے 0.9، ہاؤسنگ کے
لیے 1.2 پبلک آرڈر اور سیکورٹی کے لیے 5.0 ، پبلک ایڈمنسٹریشن کے لیے 19.9
، ڈیفنس کے لیے 6.1، ایگریکلچر کے لیے 5.3، انڈسٹریل اور معاشی خدمات کے
لئے 0.7، تعلیم و ٹیکنالوجی کے لیے 15.1 ، سود 11.2، ٹرانسپورٹ اور ذرائع
ابلاغ کیلئے 11.4 جبکہ لوکل گورنمنٹ اور رورل ڈیویلپمنٹ کے لئے 7.0 فیصد
بجٹ منظور کیا ۔مذکورہ بجٹ پیش کرنے کا مقصد اپنی سوئی ہوئی حکمت و دانش
اور تدبر و تفکرکو بیدار کرنا ہے۔غورطلب پہلو یہ ہے کہ دیکھیں کس طرح بنگلہ
دیش نے بجٹ کی بہترین ایلوکیشن کی ہے ۔ اور ہم نے اپنی تعلیم ، صحت وغیرہ
کیساتھ کیا سلوک کیا ؟ اﷲ کرے اتنی سی بات ہماری عقل نائم میں آجائے ۔افسوس
!پاکستانی کبھی پاکستان ہونے کا حق ادا نہیں کرتا ۔ چھوٹے سے لیکر کر بڑے
تک اور بے اختیار شخص سے لیکر بااختیار تک ہر ایک جہاں موقع ملتا ہے چونا
لگاتا ہے۔ اے کاش کہ ہم ایک بہترین پاکستان ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ قائداعظم
کے فرامین کا مان رکھ سکیں اور اقبال کے خواب کو حقیقی رنگ دینے کے لیے
یکسو ہو سکیں۔
مالی سال 2020 - 21 کیلئے 71 کھرب 37 ارب روپے کا مالی بجٹ جب پیش ہوا
تواپوزیشن نے بجٹ کو یکسر مسترد کردیا حالانکہ اگر اپوزیشن کو عوام کا اتنا
ہی خیال ہوتا تو وہ اس پر پہلے سے ورکنگ کر کے رکھتی اور بجٹ پیش ہونے سے
پہلے اپنی سفارشات لاتی اور شیڈو بجٹ پیش کر دیتی ، مگر چونکہ اپوزیشن کا
کام بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے،اسی لیے عوام کو اس کا خمیازہ
بھگتنا پڑتا ہے۔ حالیہ بجٹ سے عوام کو بہت توقعات تھیں کیوں کہ اس وقت
معیشت کرونا زدہ ہے ۔ انہیں جہاں ایک طرف کرونا نے ستایا ہوا ہے وہاں انہیں
مہنگائی اورذخیرہ اندوزی نے بھی ڈرایا ہے۔لیکن افسوس کے اس بجٹ میں بھی
غریب اور فرد کو ریلیف دینے کے بجائے کاروباری طبقوں اور تاجر کو ہی نوازنے
کا کام جاری وساری ہے۔
بقول حبیب جالبـ:
وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
عوام کا ہی ہوجاتا ہے جھٹکا
مشیر خزانہ نے بتا یا کہ 2100 ارب کرونا کے تدارک کے لیے رکھے گئے ہیں۔
بتایا جائے کہ اتنی بڑی رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے ؟ کرونا مریضوں یا کرونا سے
مرنے والوں کے لواحقین کو نہیں مل رہی؟ اسپتالوں میں پی پی ایزنام کی کوئی
چیز نہیں۔اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں کو PPE's کی فراہمی اور دن میں دو
بار سپرے ایک این جی او کر رہی ہے تو پھر حکومت کا پیسہ کہاں جارہا ہے؟
یقینا موجودہ بجٹ کا کسی طرح بھی موازنہ کرنا درست نہیں ہے ۔مگراسے چارجہات
سے سمجھنا بہت ضروری ہے ۔(1)۔ یہ بجٹ عبوری بجٹ لگتا ہے جسے جلد ی میں
بنایا گیا کہ اگر اپوزیشن نے شورشرابا کیا تو پھرفگرز میں فلاں فلاں
تبدیلیاں کر لیں گے۔(2)۔ بجٹ میں کنسٹریکشن کی صنعت کومیجر ریلیف دیا گیا
جبکہ بلڈرز نے بھی شوگر مافیا وغیرہ کی طرح بڑے بڑے مافیاز کی شکل اختیار
کر لی ہے(3)۔ یہ بجٹ بھی زرداری و نواز کی طرح کا مسلط شدہ بجٹ ہے جس میں
ڈکٹیشن لینے کی بو آرہی ہے کہ آج تک صحت او ر تعلیم کے بجٹ کو بہتر نہیں
بنا یا جاسکے۔نیا پاکستان ہاؤسنگ کا بجٹ صحت کے بجٹ سے زیادہ ہے۔(4)۔موازنہ
وہاں ہوتا ہے جہاں ایک فل فلیج اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مستحکم بجٹ
پیش کیا جائے مگر اس سال مزید 4 منی بجٹ آنے ہیں۔ موزانہ وہاں ہوتا ہے جہاں
حکومتیں جھوٹ نہ بولیں۔ منافقت نہ کریں۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کا ساتھ
نہ دیں۔وعدہ خلافی نہ کریں۔ خوداحتسابی کے نظام سے ڈریں۔موزانہ کیسے کیا
جائے؟ کہ پچھلے سال کے تمام اہداف ادھورے ہیں۔جہاں ہر شعبہ کے حالات ناگفتہ
بہ ہیں۔ موازنہ کیسے ممکن ہوگا کہ جہاں 15 بڑی صنعتوں میں سے 11 بڑی
صنعوتوں کی پیداوار منفی ہے ۔ جہاں قرضے 43 ہزار ارب کو چھو رہے ہیں جو جی
ڈی پی کا 98 فیصد ہے ۔جہاں پچھلے 22 ماہ میں 43 ہزار ارب قرضہ لیا گیاہو (
زرداری حکومت روزانہ 5 ار ب قرضہ لیتی تھی ، نواز حکومت روزانہ 8 ارب اور
اب عمران حکومت روانہ 18 ارب روپے قرضہ لے رہی ہے ۔) جہاں فی کس آمدی 1652
ڈالر سے 1153 ڈالر پر آگئی ہو۔ جہاں پہلے شرح نمو 5.8 تھی اور اب 0.38 پر
آگئی ہو۔ جہاں بجٹ خسارہ 2300 ارب سے بڑھ کر 4,300 ارب ہو گیا ہو۔ جہاں
گردشی قرضے 1200 ارب سے 2000 ارب ہوگئے ہوں۔عمران خان صاحب کا دوسرا بڑا
ایجنڈ ا اصلاحات تھا ۔سرکاری اداروں میں ایسی اصلاحات ہوئی ہیں کہ پہلے
1400 ار ب کا نقصان ہو رہا تھا اب 2800 ارب کا نقصان ہو رہا ہے، جبکہ قرضوں
کا سود 3000 ارب ہے۔اور وفاقی ترقیاتی بجٹ اور صوبوں کا بجٹ ملا کر 1324ہے،
جبکہ 22 کھر ب روپے کا قرضہ لیکر سوا22کھر ب کا قرضہ واپس کرنا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ انڈسٹری کو اندھا دھند ریلیف نہ دیا جائے۔میجر ٹیکس
والوں کو ریلیف نہ دیں۔کفایت شعاری کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنائیں جیسا
کہ آپ اپنے وفاق، کے پی اور سندھ کیبنٹ کو کٹ ڈاؤن ٹو ففٹی پرسنٹ کر یں ۔
ٹیکس کے اہداف درست کریں کیوں کہ آپ نے انڈسٹری کی ترقی کی اضافے کی شرح
0.1 بتائی ہے تو پھر آپ 27 فیصد ٹیکس کیسے لیں گے؟
قائداعظم کے فرامین کا مان رکھیں اور اقبال کے خواب کو حقیقی رنگ دینے کے
لیے یکسو ہوجائیں۔ پاکستانی ہونے کا حق ادا کریں اورہجو م کے بجائے قوم
بنیں۔ |