مثل مشہور ہے ’اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے‘ ۔ پہلے
زمانہ بیل گاڑی کی دھیمی رفتار سے چلتا تھا اس لیے دیری کا مطلب مختلف تھا
اب انٹر نیٹ کی برق رفتاری سے چلتا ہے اس لیے معنی ٰبدل گئے ہیں ۔ فی الحال
ہندی چینی سرحد پر جو تنازع چل رہا ہے اس پر خونی تصادم سے صرف ۴ دن قبل
پاکستان میں چینی سفارتکار وانگ ژینافینگم نے اسے جموں کشمیر کی دفع ۳۷۰ سے
جوڑ دیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ’’ہندوستان کے ذریعہ کشمیر کی حیثیت
کو یکطرفہ تبدیل کردینا اور علاقائی تناؤ کو بڑھا ئے جانا چین اور پاکستان
کی خودمختاری کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے اور اس نے بھارت۔ پاکستان تعلقات
اور چین - بھارت تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔‘‘۔ اس بیان کو چینی
پروپگنڈا کا نام دے کر مسترد کردینے سے قبل اس کے پس منظر پرجذباتیت سے
خالی معروضی انداز میں غور ہونا چاہیے ۔
اگست 5 کو جموں و کشمیر تنظیم نو بل2019 منظوری کے لیے اایوانِ زیریں میں
پیش کرتے ہوئےمرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ ’’جموں کشمیر میں
پاکستانی مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ اکسائی چن بھی جموں کشمیر
میں شامل ہے‘‘۔ اپنے ملک میں پتی کو پرمیشور سمجھنے والی خواتین پرمیشور کا
نام تو لے لیتی ہیں مگر پتی کا نام زبان پر نہیں لاتیں ۔ یہی معاملہ
ہندوستانی سیاستدانوں کا چین کے ساتھ ہے ۔ وزیر داخلہ نے پاکستانی مقبوضہ
کشمیر کا ذکر فرمانے کے بعد اکسائی چن کی بات کرتے ہوئے یہ کہنے سے گریز
کیا کہ وہ چین کے قبضے میں ہے حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے ۔ ایک زمانے میں
جموں کشمیر کے جس نقشے کو شائع کرنے پر لوگوں غدارِ وطن قرار دے کر جیل
بھیجا جاتا تھا اور الجزیرہ چینل پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا تھااب وہ ہر
اخبار اور ٹیلی ویژن کی زینت بنا ہوا ہے ۔ اس میں اکسائی چن کی چینی تحویل
واضح ہے ۔ اس طرح یہ بات ظاہر ہوگئی کہ ہندوستان کی ایوانِ پارلیمان میں
ایک ایسی دستوری ترمیم کی گئی جس کا اطلاق ان علاقوں پر ہوتا ہے جو پڑوسی
ممالک کے پاس ہیں ۔ اس لیے متوقع اعتراض اسی وقت سامنے آگیا تھا ۔
آئین کی ترمیم کے ایک ہفتہ بعد وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چین کاسہ
روزہہنگامی دورہ کیا تھا ۔ اس وقت دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے یہ کہا تھا کہ حکومتِ ہند نے لداخ کو مرکز کے
زیر انتظام علاقہ قرار دیا ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر امن
اور استحکام برقرار رکھنے کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ہندوستان کے اس اقدام
کو چین درست نہیں گردانتا کیونکہ اس سے بیجنگ کے زیر انتظام خطے یا اس سے
ملحقہ علاقوں کے حوالے سے تبدیلی آئے گی۔وزارت خارجہ کے اس بیان میں چین کی
تشویش صاف اور واضح ہے ۔ اس کو رفع کرنے کے لیے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے
کہا تھا کہ بھارت کی آئینی ترمیم سے کسی نئی خود مختاری کا دعویٰ جنم نہیں
لے گا نہ ہی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) میں تبدیلی آئے گی جبکہ چین اور
بھارت کے مابین کنٹرول لائن بھی تبدیل نہیں ہو گی۔ہندوستان چین کے ساتھ
سرحدی تنازعات حل کرنے کا خواہش مند ہے اور سرحدی علاقوں میں امن کے لیے
پائے جانے والے دونوں ممالک کے اتفاق رائے پر کار بند ہے۔
وزیر خارجہ نے یہ بیان دے کر سمجھ لیا کہ وہ چین کو رام کرنے میں کامیاب
ہوگئے ہیں، لیکن چینیوں نے ایوان پارلیمان میں وزیر داخلہ کا بیان بھی سن
رکھا تھا کہ جموں کشمیر (جس میں و ہ پاکستان مقبوضہ کشمیر اور اکسائی چن کو
شامل سمجھتے ہیں) ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ رہے گااور خود ان کے الفاظ میں
عزم کا اظہار بھی دیکھیں کہ ’’میں(امیت شاہ) جموں کشمیر کے لیے اپنی جان
قربان کرسکتا ہوں‘‘۔ وزیر داخلہ اپنی جملہ بازی اور اس کے برملا اعتراف کی
خاطر مشہورہیں ۔ ان کے لیے یہ ایک پارلیمانی جملہ تھا جسے کہہ کر وہ بھول
گئے لیکن ایسا لگتا ہے چینیوں نے اسے گرہ سے باندھ لیا اور چند ماہ کی
تیاری کے بعد اپنی جان لڑانے کے لیےمنصوبہ بند طریقہ پر میدان میں آگئے۔
اس لیے چینی سفارتکار وانگ کے بیان کو یونہی مسترد کردینا درست نہیں ہے ۔
یہ حسن اتفاق ہے لاک ڈاون(کورونا کا قفل ) کے کھلتے ہی وزیرداخلہ نے اپنی
انتخابی مہم کا آغاز کردیا اور سب سے پہلے بہار کی عوام سے ورچول (مجازی)
خطاب کیا ۔ اس موقع پر سرحدی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ’’
ہندوستان کی دفاعی پالیسی کو عالمی سطح پر قبولیت ملی ہے۔ اور ہندوستان
اپنی سرحدوں کی حفاظت میں امریکہ واسرائیل کے ساتھ ہے‘‘۔ مسلم دشمنی کی
عینک پہننے والے شاہ جی کو فی الحال امریکہ اور اسرائیل کے سوا کوئی دکھائی
نہیں دیتا ورنہ انہیں پتہ چلتا کہ اپنی سرحد کی حفاظت میں افغانیوں نے
امریکہ سمیت ناٹوا فواج کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ عراقیوں نے امریکیوں کو
بوریا بستر کےساتھ بھاگنے پر مجبور کردیا اور دنیا کے نقشے پر چین نام کا
بھی ایک ملک موجود ہے جو نہ صرف اپنی سرحد کی حفاظت بلکہ ہندوستان کی سرحد
میں مستقلدر اندازی کرتا رہتاہے۔ اس کی تفصیل اگرشاہ جی کے پاس نہ ہو تو
اپنی ہی پارٹی کے لداخی رکن پارلیمان نامگیال کا ٹویٹ دیکھ لیں ۔
چینی فوج کے ساتھ سرحد پر ہونے والے حالیہ تصادم میںپہلے توایک فوجی افسر
سمیت تین ہندستانی جوانوں کے فوت ہو نےکی خبر آئی۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا
گیا کہ سڑک کی تعمیر کا کام کرنے والےکچھ مزدوروں کو چینی اپنے ساتھ لے گئے
۔ آگے چل کر یہ بات سامنے آئی کہ اغواء شدہ افراد فوجی ہیں اور پھر ان کی
لاشوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا جن کی تعداد بیس تا تیس بتائی جارہی ہے۔
یہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں اس لیے ہورہی ہیں کیونکہ حکومت چپ سادھے بیٹھی
ہے۔ وہ نشست پر نشست کررہی ہے لیکن سانحہ کے 24گھنٹے بعد بھی کچھ بولنے کے
لیے تیار نہیں ہے ۔ اب یہ پتہ چلا ہے کہ ملک پر اپنی جان نچھاور کرنے والے
فوجی اسی بہارکے ہیں جن سے امیت شاہ ووٹ مانگ رہے تھے ۔ راہل گاندھی نے تو
انہیں خراج عقیدت پیش کردیا لیکن اپنی جان دینے کا عزم کرنے والے وزیر
داخلہ کی زبان سے ہمدردی کے دو بول بھی نہیں نکلے ۔ ایسے میں ایوان
پارلیمان میں امیت شاہ کی کشمیر والی تقریر کو اگر کوئی یو ٹیوب پر جاکر
دیکھے تو اسے بے ساختہ افتخار عارف کا یہ شعر یاد آجائے گا ؎
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
|