ہمارے عہد کے لوگ

 اگر ڈاکٹر مبشر حسن کو پاکستان کی سیاست کا بوڑھا برگد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان سے پہلے نواب زادہ نصراﷲ خان کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا جنہوں نے پاکستانی سیاست کے سب سے زیادو نشیب وفراز دیکھے اور کئی کہی ان کہی کہانیوں کے خود کردار بھی رہے ۔ ڈاکٹر مبشر حسن پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر تھے لیکن اس کے علاوہ وہ سیاست دان، مصنف اور ماہرمعاشیات بھی تھے۔ اس لحاظ سے انہیں کثیرالجہات شخصیت کہا جا سکتا ہے۔ 22 جنوری 1922 ء کو پانی پت(بھارت)میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر مبشر حسن 1947 ء میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے بی ایس سی سول انجینئرنگ کی اور پھر بعد میں امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے سول انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان (اس وقت مغربی پاکستان) واپس آنے کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1965 ء میں بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد ان کا سیاسی فلسفہ منظر عام پر آیا۔ انہوں نے اپنا سیاسی منشور ’’عوامی اتحاد کا اعلان کے عنوان سے شائع کیا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش)میں ڈیموکریٹک سوشلزم کی وکالت کی۔ ان کی مقبولیت کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں مغربی پاکستان بلوا لیا جہاں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر 30 نومبر 1967 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کے ساتھ جے اے رحیم، اور کئی دوسرے رہنما بھی موجود تھے۔ سائنس اور سیاست پر وسیع علم رکھنے کی وجہ سے ڈاکٹر مبشر بہت جلد ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد ساتھی بن گئے۔ اس کے علاوہ زیڈ اے بھٹو نے انہیں اپنا مشیر بھی بنا لیا۔ 1971 ء کی جنگ کے بعد مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو ڈاکٹر مبشر کو وزیرخزانہ بنا دیا گیا جنہوں نے 1972 میں وزارت سائنس کے لیے بھٹو کی مدد کی۔ 1974 ء میں ڈاکٹر مبشر حسن کے بھٹو کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے جب بھٹو نے ملک معراج خالد کو وزارت قانون سے ہٹا دیا، جن کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ 1974 ء میں ڈاکٹر مبشر حسن نے بطور وزیرخزانہ استعفی دے دیا لیکن بھٹو کے ساتھ ان کی وفاداریاں قائم رہیں۔ 1974 میں ہی بھٹو نے انہیں وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا مشیر مقرر کر دیا۔ ڈائریکٹوریٹ آف سائنس کے ڈائریکٹر ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر مبشر نے ’’کہوٹہ پراجیکٹ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ 1977 میں ڈاکٹر مبشر حسن نے پی این اے کے رہنماوں کو ایک میز پر لانے کے لیے بہت کاوشیں کیں، جو ناکام ثابت ہوئیں۔اسی سال 5جولائی کو جب جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر خود اقتدار سنبھالا تو ڈاکٹر مبشر حسن کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں اڈیالہ جیل میں بھٹو کے ساتھ رکھا گیا جہاں انہوں نے سات سال گزارے۔ 1984 ء میں جیل سے رہا ہونے کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن دوبارہ انجینئرنگ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔انہوں نے پاکستان کے معاشی مسائل پر کئی مضامین لکھے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی(شہید بھٹو)گروپ میں شمولیت اختیار کر لی اور مرتضی بھٹو کی حمایت کا اعلان کیا آپ کئی سال پیپلزپارٹی شہیدبھٹو کے مرکزی جنرل سیکرٹری بھی رہے غنویٰ بھٹو ان کی صلاحیتیوں کی بڑی معترف تھیں ڈاکٹرمبشرحسن کا کہنا تھا بھٹو کے سیاسی وارث بھٹو جونیئرہیں بالآخر پیپلزپارٹی بھٹوجونیئرکی قیادت میں الکی سیاست میں فعال کردار اداکرسکتی ہے ۔ وہ کئی برس پہلے عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ’’شاہراہِ انقلاب، رزمِ زندگی اور پاکستان کے جعلی حکمران طبقے بہت مقبول ہوئیں۔ انگریزی زبان میں بھی ان کی جن کتابوں کو پذیرائی ملی ان میں ’’برڈز آف انڈس، میراج آف پاور، نیشنل یونٹی، کیا کیا جائے، اے ڈیکلریشن آف یونٹی آف پیپل شامل ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے 1988ء میں ’’دوست نامی تنظیم بنائی جس میں خاصی تعداد میں نوجوان شامل ہوئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عام لوگوں کو پاکستان کے حقیقی مسائل سے آگاہ کیا جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور دیا جائے۔یہ تنظیم کچھ عرصہ فعال رہی لیکن پھر تحلیل ہو گئی۔ 1970 ء کے عام انتخابات میں ڈاکٹر مبشر حسن بہت متحرک تھے۔ اس وقت لاہور میں قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں ہوا کرتی تھیں جو ساری پی پی پی نے جیت لیں۔ اس زمانے میں الیکشن لڑنا بہت سستا تھا۔ آج کی طرح کروڑوں روپوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی عام آدمی بھی نظریاتی امیدواروں کو ووٹ دینا پسندکرتا تھا۔ پیپلز پارٹی کے کئی امیدواروں نے سائیکل پر اپنی انتخابی مہم چلائی اور کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے باغبانپورہ کے علاقے میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور 85000 ووٹ حاصل کیے۔ ان کا مخالف امیدوار میاں ذکاالرحمن صرف 10000 ووٹ حاصل کر سکا اور اس کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس وقت ’’بھٹو لہر تھی اور پی پی کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن 1977 ء میں پی پی پی کے سیکرٹری جنرل تھے۔ جب پی این اے کی تحریک عروج پر تھی تو انہوں نے اچانک اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ اس پر انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہا گیا کہ انہوں نے مشکل وقت میں بھٹو صاحب کا ساتھ چھوڑ دیا۔ بہرحال انہوں نے کیوں استعفی دیا اور اس وقت کیوں دیا، ابھی تک ایک معمہ ہے۔ یہ بات بھی ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے کہ سوشلزم کو انپی معیشت قراردینے والے ذوالفقارعلی بھٹو کی نظریاتی شخصیات کے ساتھ کیوں نہ بن سکی مختاررانا، جے اے رحیم، اور کئی ایسے ہی کارکنوں کی مثالیں سب کے سامنے ہیں کچھ عرصہ قبل پیپلز پارٹی کے بانی رکن اسلم گورداسپوری نے اپنی خودنوشت میں دعوی کیا کہ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی کے بنیادی رکن بھی نہیں تھے۔ چند برس قبل روزنامہ ’’دنیا میگزین کو ایک انٹرویو میں بھی انہوں نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا تھا۔ بہرحال پیپلز پارٹی کی طرف سے اس دعوے کی کبھی تردید نہیں کی گئی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا تو ڈاکٹر مبشر حسن ضیاالحق کے پاس گئے تھے اور انہیں کہا تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی نہ دیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے بقول ضیاالحق نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ بھٹو کو سزائے موت نہیں دی جائے گی لیکن بعد میں کیا ہوا یہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن طویل عرصے سے بیمار تھے۔ 14 مارچ 2020 ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور وہ 98 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 383791 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.