مہلک وبا ختم ہونے کو ہے؟؟

یوں تو جب سے دنیا وجود میں آئی ہے تب سے مختلف بیماریاں اور ان کے علاج کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رہا ہے مگر کورونا نام کی حالیہ آفت شائد اپنی نوعیت کے اعتبار سے کچھ الگ ہی ہے ۔ما ہر ین کے مطابق کورونا ائرس کی وبا نے دنیا کو اس مرحلے پر لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ کب کیا ہونا ہے ،کس سمت جانا ہے، منزل کونسی ہے اور کام ہے قیام کہاں کرنا ہے ایک جانب لاک ڈاؤن جاری رہنے سے معاشی بدحالی ،بھوک اور بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے چوں کہ اتنے طویل عرصے تک معاشرتی طور پر کٹ کر رہنا انسان کی بنیادی فطرت کے خلاف ہے جس سے وہ اکتا جاتا ہے اور آخرکار سرکشی پر آمادہ ہو جاتا ہے تاہم اس خطرے کے بادل بھی سر پر منڈلا رہے ہیں کہ بندش ختم کرنے کی صورت میں یہ وبا ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہے اور ویسے بھی طبی ماہرین امر پر متفق ہیں کہ اس وبا کی ایک او ر لہر آئے گی جو پہلے سے کئی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے سبھی جانتے ہیں کہ اس وبا کی کوئی موثر دوا یا ویکسین کی ایجاد اگر برسوں نہیں تو خود ماہرین کے بقول مہینوں ضرور دورہے ۔

ایسے میں دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے اور پھر اس فیصلے کے مثبت یا منفی نتائج کا سامنا کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوگا ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت اکثر ممالک خصوصا امریکہ میں بھی کئی ریاستوں نے محدود پیمانے پر اور ساتھ ہی معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن طبی ماہرین کی اکثریت اسے کوئی بہت درست فیصلہ تصور نہیں کرتی ، اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، معاشی فیصلہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ معاشرتی فیصلہ بھی ہو لیکن طبی نقطہ نظر سے یہ درست نہیں ہے ۔

غیر جانبدار ماہرین کے بقول مرض کے بڑھنے کے سبب لوگوں کی اکثریت خوفزدہ ہے اگرچہ روزگار کی مجبوریوں کے سبب لوگ باہر نکلنا چاہیں گے ۔طبعی ماہرین کے مطابق متعدی امراض کا اصول یہ ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے ذریعے سے پھیلتا ہے ۔امریکہ اور مغربی ممالک میں جب اس وبا نے زور پکڑا اگر اسی مرحلے پر احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جاتیں تو شائد معاملات یہ رخ اختیار نہ کرتے۔ طبعی ماہرین کے مطابق موجودہ صورتحال میں آئندہ چار ہفتے انتہائی اہم ہونگے ۔

دنیا بھر میں کسی بھی جگہ نہ تو غیر معینہ مدت تک معاشی سرگرمیوں کو بند رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی پورے طور سے کھولنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں پھر کچھ نہیں پتہ کہ یہ وبا کب ختم ہوگی۔ لوگ بھی گھروں میں بندھ ہو کر عاجز آگئے ہیں ۔دنیا کے اکثر ملکوں اور خود پاکستان میں بھی یہ خطرہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ کہیں لوگ قانون اپنے ہاتھ میں نہ لینا شروع کر دی اس لیے اب دنیا میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ اس وبا کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ہے۔ایسے میں دعا اور احتیاط ہی غالباً اس موذی مرض کے خاتمے کا واحد علاج ہے۔

یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ ایک طرف پاکستان کی حکومت اور عوام اس خوفناک وباکے خاتمے کی جہدوجہد میں مصروف ہے تو جانب بھارت کے حکمران ااپنی دیرنہ روش کے عین مطابق کشمیر کے نہتے لوگوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا بدترین سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور کشمیریوں کی نسل کشی روز مرہ کا معمول بن کر رہ گیا ہے مگر دہلی کے حکمران گروہ کی ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ پاکستانی عوام اور حکومت کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیوں کا مکروہ سلسلہ پوری شدت سے جاری ہے۔

کسے علم نہیں کہ چند ہفتے قبل ریاض نائیکو نامی کشمیری نوجوان کو دیگر نوجوانوں کے ہمراہ شہید کر دیا گیا ،حالانکہ یہ معصوم نوجوان ایک غریب درزی کا بیٹا تھا جس نے ٹیویشن کے ذریعے اپنی تعلیم حاصل کی اور ریاضی جیسے خشک اور مشک مضمون میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔مگر دہلی کے حکمران گروہ کی سفاکی دیکھیں کہ اس نے نہ صرف اس معصوم نوجوان کو شہید کیا بلکہ اس کا جسد خاکی بھی کسی نہ معلوم جگہ پر دفنا دیا گیا ،البتہ یہ بات کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ مغربی میڈیا نے بھارت کی اس سفاکیت کو سخت الفاظ میں حرف تنقید بنایا اور نیویارک ٹائمز ،سی این اور واشن پوسٹ جسے اخبارات اور جرائد نے ریاض نائیکو کی شہادت پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ۔

دو سری جانب بھارت کے اندر بھی مسلمان اقلیت کو جس طور ٹارگٹ کیا جارہا ہے اس بابت بھی عالم اسلام کے بہت سے حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے ۔امید کی جانی چاہیے کہ عالم اسلام کے رکن ممالک بھارت کی اس مکروہ مہم کے خلاف موثر حکمت عملی اپنائیں گے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Hammad Asghar Ali
About the Author: Hammad Asghar Ali Read More Articles by Hammad Asghar Ali: 16 Articles with 12734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.