سرحدی تنازع : یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا

وزیر اعظم نریندر مودی 2014کی انتخابی مہم سے اپنی شبیہ بدلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو ایک سنجیدہ اور سلجھا ہوا رہنما بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس دوران جارحیت پسندی کا کام انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو سونپ رکھا ہے اس لیے ان سے یہ امید تھی کہ وزیر اعظم کے بجائے کم از کم وہ چین کو لال لال آنکھیں دکھا کر منہ توڑ جواب دیں گے لیکن افسوس کہ اس بار انہوں نے بھی مایوس کیا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے چینی سرحد کے تنازع پر کہا : ’’لداخ کے گلوان میں مادر وطن کی حفاظت کے دوران اپنے بہادر فوجیوں کو کھونے کے درد کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مادر وطن کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے اپنے بہادر جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ان کی ناقابل فراموش بہادری اپنی سرزمین کے تئیں عزم کا اظہار ہے۔میں ان خاندانوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایسے عظیم بہادروں سے ہندوستان فوج کو قابل فخر بنایا ہے۔ ہندوستان ہمیشہ ان کی قربانیوں کا قرض دار رہے گا۔ دکھ کی اس گھڑی میں پورا ملک اورمودی حکومت پورے عزم کے ساتھ ان کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑی ہے۔ زخمی فوجیوں کی فوری طور سے صحتیاب ہونے کی دعا کرتا ہوں۔‘‘

اس بیان کو پڑھنے کے بعد پہلے تو یقین ہی نہیں آیا کہ یہ کون سے امیت شاہ ہیں اور وہ کون سے امیت شاہ تھے جو ایوان پارلیمان میں اچھل اچھل کر تقریر کیا کرتے تھے؟ ان کے بیان میں بھی چین کا ذکر غائب تھا ۔ وزیر داخلہ کے بعد وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا بیان بھی منظر عام پر آیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’وادی گلوان میں ہمارے سپاہیوں کے جانی نقصان سے بہت صدمہ اور تکلیف پہنچی ہے۔ ہمارے سپاہیوں نے فرض کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اورہندوستانی فوج کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بہادری اور شجاعت کی تاریخ رقم کی ہے۔' اس پہلے ٹویٹ پر انہیں اطمینان نہیں ہوا تو ایک اور پیغام بھیج دیا 'قوم ان کی دلیری اور قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرے گی، میں ان سپاہیوں کے اہلخانہ کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں۔ قوم اس مشکل گھڑی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ہمیں ہندوستان کے سپوتوں کی بہادری اور شجاعت پر فخر ہے۔' راج ناتھ سنگھ راجپوت ہیں اور ان کے پاس وزارت دفاع کا قلمدان ہے اس لیے کم از کم ان کو شایانِ شان انداز میں چین کو آڑے ہاتھوں لینا چاہیے تھا لیکن وہ بھی ہمدردی جتانے اور فخر کرنے سے آگے نہیں جاسکے ۔ وزیر خارجہ ایس شیوشنکر نے تو ٹویٹ کرنے کی زحمت کرنے کے بجائے راجناتھ سنگھ کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے پر اکتفاء کر کیا گویا جوانوں کی یہ قربانی ان کے نزدیک چند الفاظ کی بھی مستحق نہیں ٹھہری ۔

اس طرح کی صورتحال میں عام طور ساری جماعتیں سیاست کو بالائے طاق رکھ دیتی ہیں ۔ حزب اختلاف کی رہنما سونیا گاندھی کا ابتدائی بیان اسی نوعیت کا تھا جس میں حکومت پر کوئی تنقید نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا یقین دلایا گیا تھا لیکن یکے بعد دیگرے چار بڑے وزراء کے مایوس کن بیانات کے بعد کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو نزلہ اتارنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے ان بیانات پر پانچ بنیادی نوعیت کےسوالات داغ دیئے ۔راہل گاندھی نے اپنی ٹویٹ میں راجناتھ سنگھ سے پوچھا کہ ' اگر یہ آپ کے لیے اتنا ہی تکلیف دہ تھا تو:’آپ اپنی ٹویٹ میں چین کا نام نہ لے کر انڈیا کی فوج کی بے حرمتی کیوں کر رہے ہیں؟‘’آپ کو اظہار افسوس کرنے میں دو دن کا وقت کیوں لگا؟‘’جب فوجی ہلاک ہو رہے تھے تو آپ ریلیوں سے خطاب کیوں کر رہے تھے؟‘(یاد رہےاس وقت وزیردفاع نے جموں میں ایک ورچول ریلی سے خطاب کیا تھا)۔’خود چھپ گئے اور اپنے حمایتی میڈیا کے ذریعے فوج پر الزام عائد کیوں کروایا گیا؟‘’زرخرید میڈیا کے ذریعے انڈین حکومت کے بجائے فوج پر الزام کیوں لگوا رہے ہیں؟

ان سولات میں میڈیا کا ذکر اس لیے آیا کیونکہ آج تک کی اینکر شویتا سنگھ نے ببانگ دہل سرحدی تصادم کے لیے حکومت کے بجائے افوج کو ہی الٹا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ راہل گاندھی کے جارحانہ انداز نے بی جے پی کے ترجمان کو ان پر تنقید کا موقع عطا کردیا لیکن بی جے پی والے یہ بھول گئے کہ 1967 میں جب ہند چینی سرحد پر تنازع ہوا تھا تو چینی فوجیوں نے ہندوستانی فوج پر ان کی کچھ بھیڑوں کو زبردستی اپنے قبضے میں کرلینے کا الزام لگایا تھا۔ اس کی مخالفت میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے چینی سفارتخانے کے آگے بھیڑوں کا ایک جھنڈ اتار دیا تھا۔ اتفاق کی بات یہ ہے اٹل جی بھی اس وقت راہل کیمانند ایوان پارلیمان کے رکن تھے اور ان کی عمر راہل گاندھی سے ۸ سال کم تھی۔ ممبئی میں جب دہشت گردانہ حملہ ہوا تو وزیر اعظم نریندر مودی نے شہر میں آکر پریس کانفرنس کی تھی ۔ سنگھ پریوار کے سودیشی جاگرن منچ نے ابھی حال میں چینی سفارتخانے پر مظاہرہ کیا اور اب تو بی جے پی کے چھٹ بھیا رہنما عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ملک بھر میں چینی پرچم جلا رہے ہیں ۔ اس طرح راہل پر سیاست کرنے کا الزام ازخود ختم ہوگیا ۔

اس نئی صورتحال میں راہل گاندھی نےایک ویڈیو جاری کرکے پوچھ لیا کہ ’’ چین نے ہندوستان کے غیر مسلح فوجوں کو ہلاک کرکے بہت بڑا جرم کیا ہے۔ میں جانناچاہتا ہوں ان بہادروں کو بغیر ہتھیار خطرے کی جانب کس نے بھیجا؟ اور کیوں بھیجا؟اور چین کی اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ ہمارے جوانوں کو قتل کرسکے ؟‘‘۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایس شیوشنکر کو میدان میں لایا گیا اس لیے پانچ بڑے رہنماوں میں وہی سب سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی ہیں لیکن افسوس کہ ایک طویل عرصہ چین کے اندر سفیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے والے وزیر خارجہ نے بھی ایک جاہلانہ جواب دے دیا کہ ’شہید ہونے والے جوان نہتے نہیں تھے ۔ ان کے پاس ہتھیار تھے ۔وزیر خارجہ نے 1996 اور 2005کے معاہدے کا حوالہ دے کر کہا کہ ٹکراو کے دوران ہمارے جوان ان ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرسکتے تھے ۔

وزیر خارجہ کے اس احمقانہ بیان نے خود حکومت کے لیے کئی مسائل پیدا کردیئے۔ اس کا نہایت مدلل جواب سبکدوش جنرل ایچ ایس پنگ نے دیا ۔ انہوں نے اس معاہدے کی شق۶ کا حوالہ دے کربتایا کہ اس میں ضرورت پڑنے پر اسلحہ استعمال کرنے گنجائش موجود ہے ۔ اس کو غالباً ایس جئے شنکر نے دیکھا نہیں یا چھپا دیا۔ اس کے علاوہ یہ عام سی بات ہے کہ کسی بھی معاہدے کی پابندی دونوں فریق پر یکساں طور سے لازم ہوتی ہے اس لیے اگر فریق مخالف کی جانب سے خلاف ورزی سرزد ہوجائے تو معاہدہ ازخود ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی جان پر بن آئے تو دفاع کا حق ہر فوجی اور شہری کو حاصل ہے ۔ یہخبر آچکی ہے کہ چار فوجیوں کو گولیاں لگی ہیں یعنی چینیوں نے گولی چلائی ۔ اس تناظر میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پہلے تو حکومت کی خاموشی اس پر تنقید کی وجہ بنی اور جب اس نے بولنا شروع کیا تو وہ پھنستی چلی گئی۔ بہرحال اب تو چین نے وادیٔ گلوان پر اپنا دعویٰ اسی طرح پیش کردیا جیسے اکسائی چین پر کرتا رہا ہے۔ یہ وادی گلوان ندی کے نام سے منسوب ہے جسے لیہہ کے رہنے واالے غلام رسول گلوان نے1899میں دریافت کیا تھا اور یہ ہندوستانی علاقوں سیراب کرتی رہی ہے لیکن افسوس کہ نریندر مودی سرکار اس کی حفاظت میں ناکام ہوگئی اور اب یہ چین کے شکنجے مین چلی گئی ہے۔ باشندگان وطن اس وادی کو دوبارہ حاصل کرنے کے منتظر ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوتا ہے؟ ویسے دشمن کا نام لینے سے بھی کترانے والی سرکار کی مدت کار میں اس کا امکان کم ہی ہے اس پرتو علامہ اقبال کا شعر( معترمیم) صادق آتاہے؎
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے دیوارِ سرحد پر
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223455 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.