وہ کون تھے؟
(haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
وہ کون تھے؟ حسیب اعجاز عاشرؔ جس دھوم سے جنازہ اُٹھا،ہر دیکھنے اور سننے والے کے دل میں یہ سوال ضرور پیدا ہوا ہوگا کہ وہ کون تھے؟جن کی زندگی ماشاء اللہ جن کی موت سبحان اللہ۔تین چار دن سکرات الموت کا سامنا کرنے کے باعث جسمانی کمزور ی بڑھ گئی تھی،ایک دن بہتری آثار پیدا ہوئے مگر اگلے روز عرش کا فیصلہ فرش پر اُتر چکا تھا، نہ بیٹھنے کی ہمت رہی نہ کھانا نگلنے کی سکت۔ڈاکٹر کو بلایا گیا تو اُنکا ہاتھ نیلے ہوتے ناخن دیکھ کر ادویات میں ضروری ردوبدل کر نے کے بعد بیٹوں کو کہہ دیا تھا کہ بہتری کی امید نہیں اب صرف سپورٹ کیا جاسکتا ہے،اکسیجن سلنڈر کا بندوبست کریں۔ویسے پہلے بھی کئی بار نازک حالت کا سامنا کرچکے مگر ہربارحکم الہی سے صحت یاب ہوگئے۔۔۔اِس بار بھی سوچا گیا کہ ڈاکٹر کو کہتے رہتے ہیں۔۔۔مگر نہیں۔۔۔بات سالوں،مہینوں،ہفتوں یا دنوں کی نہیں رہی تھی،بلکہ بات گھنٹوں کی رہ گئی تھی۔وقت عصر کی نماز میں داخل ہورہا تھااُن کی بے چینی بڑھ رہی تھی،مشورہ ہوا کہ پہلے آکسجن دی جائے تاکہ ہمت آئے پھر کھانا کھلایا جائے گا۔ناک کی نتھلیوں میں آکسجن کی نوزل لگانے کی دیر تھی کہ اُنہوں نے دو گھنٹے سے بند آنکھوں کو یک دم سے مکمل کھول کرنظریں چھت کی جانب اِس انداز میں ایک طرف ٹکا لیں کہ سراہانے بیٹھے دونوں بیٹے، دونوں بہویں اور بیوی پریشان ہوگئے،چھوٹے حافظ القرآن بیٹے نے یٰسن کی تلاوت شروع کر دی اور بھائی کو کلمہ پڑھنے کا کہہ دیا،یوں سب کلمہ پڑھنے لگے۔۔کسی کا دل تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا کہ وہ رخصت ہورہے ہیں۔۔سوال کیا گیا کلمہ کیوں؟ بھائی سے جواب ملا کہ اِس سے بھی صحت ملتی ہے۔۔ کمرے میں سب رو رہے تھے مگر کلمے اور یسین کی صدائیں بھی گونج رہی تھی۔اُن کی بے چینی اور دو دن سے جاری اضطرابی ختم ہوچکی تھی مگر ورد جاری رہا اِسی دوران بڑی بیٹی بھی پہنچ چکی تھی سب سے چھوٹی بیٹی راستے میں تھی۔۔دونوں بہویں دونوں پاؤں کی تلیاں مسل رہی تھی۔بیٹی نے آتے ہی ہاتھ تھامتے ہوئے حالت بھانپتے ہوئے بڑے جگرے کے ساتھ بول دیا۔۔ یہ تو حق ہے یہ توایک دن ہونا ہی تھا۔داماد بھی سرہانے کھڑے آب دیدہ تھے۔۔کمرہ میں تلاوت،کلمہ کے ورد۔دعاؤں اور رونے سے عجیب سماں بندھ چکا تھا۔بیٹی دعائیں کر رہی تھی۔۔یااللہ ہم اپنے باپ سے راضی ہیں تو بھی راضی ہوجا،اِن کے لئے آسانیاں پیدا کر دے۔۔وہ پرسکون ہوچکے تھے مگر سانسیں آہستہ آہستہ تھم رہی تھی۔۔وقت رخصت سر پر کھڑا تھا اور اُن کی زبان پر بھی کلمہ اُتر چکا تھا۔۔۔۔یک دم سے سانسیں رک گئیں توسب کے لئے قیامت برپا ہوگئی۔۔مگر پھر سے سانس چلی تو سب کو اُمید ملی مگر۔۔آہ۔۔۔۔وہ اُن کی آخری سانس تھی۔۔۔ اُس گھر سے پہلا جنازہ اُٹھنے کو تیار تھا۔وہ بھی گھر کے سربراہ ابوکا۔۔وہ بھی آنکھوں کے سامنے اور ہاتھوں میں۔۔کیا ہی خوبصورت موت تھی۔۔دو دن کی بے چینی مگر نزاع کی حالت پرسکون۔زبان پر کلمہ جاری۔۔حالت نزاع میں پاؤں کی چھوٹی انگلی کے ناخن سے خون کے قطرے کا بہہ جانا۔۔جیسا کہا جاتا ہے کہ جنہیں اللہ تعالی نے شہادت کے درجے سے نوازنا ہو اُنہیں بغیر میدان جنگ کے بھی خون کا دھبہ لگ جاتا ہے۔وقتِ غسل جسم نجاست سے پاک۔ صبح سے شدید گرمی اور شدید سورج گرہن مگر یکدم سے موسم کا بدل جانا۔ٹھنڈی ہوائیں اور ایسی بارانِ رحمت کہ جیسے جنازہ گاہ اور قبرستان پر دھول نہ اُڑانے کا حکم صادر ہواہو۔غسل بیٹوں نے دیا۔ تعجب کی بات یہ تھی خاندان میں سب کو مطلع بھی نہ کیا گیا جبکہ معقول اعلان نہ ہونے کے باعث محلے داروں کو بھی بروقت اطلاع نہ دی جاسکی مگر جنازہ جو عید گاہ میں ادا کیا گیا فرزندانِ توحید کے جمع غفیر سے بھرا پڑا تھا۔ہر کوئی آخری دیدار کو بے تاب تھا۔اُن کے پرسکون اورپرنور چہرے پر مسکراہٹ چھلک رہی تھی۔نماز جنازہ کی امامت کی سعادت چھوٹے بیٹے کے حصہ میں آئی۔۔قبرستان میں ایک طرف درختوں کے سائے میں ایسی جگہ اللہ نے قبر کے لئے مختص کر رکھی تھی جہاں کسی کو اِن کی قبر سے پھلانگتے ہوئے کسی دوسری قبر میں نہیں جاناپڑے گا۔قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے حصار میں لینی والی خوشبو کو محسوس کیا گیا۔اکیس جون کی شب جب سب فادر ڈے پر اپنے والدکو پھول پیش کررہے تھے تو یہاں دو بیٹے اپنے والد کو لحد میں اُتار رہے تھے اور قبر پر پھولوں پتیاں نچھاور کر رہے تھے۔اتنی شاندار موت پر سوال اُبھرتا ہے کہ وہ کون تھے؟وہ حافظ قرآن نہیں تھے۔ نہ وہ عالم دین تھے مگر اُن کے وصال نے ہر دیکھنے والی آنکھ کے دل پر مہر ثبت کردیا ہے ہے کہ وہ واقعی اللہ کے ولی تھے۔ پھر یہ سوال دل و دماغ میں جنبش پیدا کرتا ہے کہ وہ اللہ کے ولی کیوں تھے؟۔۔ کیونکہ۔۔اُن کی پوری زندگی صوم و صلوۃ اور حقوق العباد کا پیکر رہی۔اُن کی زندگی،زیادتی کرنے والے کو معاف کرنے،محروم کرنے والے کو عطا کرنے اور قطع تعلق کرنے والے سے ناطہ جوڑنے پر عبارت رہی۔ عشقِ الہی کتابوں میں پڑھا جاتا ہے لیکن عاشق الہی کیسے ہوتے ہیں؟تو وہ اِن جیسے ہوتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے اہل وعیال سے ایک موقع پر کہا تھا کہ مجھے اپنے رب سے بہت پیار ہے بہت محبت ہے،اُس سے ملنے کا دل کرتا ہے۔بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ تجھے کیسے خوش کروں تو خواب میں جواب ملا کہ سجدہ کر۔دوست احباب کی پرخلوص دعاؤں کا ثمر تھا کہ1986میں روڈایکسیڈینٹ میں دماغی چوٹ لگنے کے باعث جب پاکستان کے معروف نیوروسرجن ڈاکٹر بشیر نے جواب دے دیا تو اُس رب نے صرف ایک سال میں پھر سے اِنہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔پنجگانہ نماز اورر تہجد گزاری کی ہی طاقت تھی کہ تین بار فالج ہونے کے باوجود وہ مفلوج نہیں ہوئے، ہارٹ اٹیک ہونے کے باوجودمحتاج نہیں ہوئے۔کمزوری کے باعث گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھتے رہے مگر اضطرابی میں اِس لگن کااظہار بھی کرتے رہتے کہ مسجد جانے کو ترس گیا ہوں میری جبین زمین پر سجدہ ریز ہونے کو بے تاب ہے مگر خدا کے امرنے اُنہیں گھر میں روکے رکھا،آتش جوانی میں بھی تہجد گزار رہے،آخری سانسوں تک باوضو سونے کے عادی تھے۔ ہنس مکھ،خوش اخلاق،خوش مزاج،خوش طبا،خوش خو،خوش اطوار،ملنسار،شائستہ،خلیق،بامروت جیسی خصوصیات کے مالک تھے ڈھونڈ ڈھونڈ کوحلقہ یاران وسیع کرتے۔ نہ جھوٹ بولتے نہ کبھی وعدہ خلافی کی۔زبان سے بُرا لفظ تو درکنارکبھی ایسا اونچا بھی نہیں بولے کہ کسی کی دل آزاری ہو۔ غیبت اور چغلی نہ کرتے اور نہ سننا پسند کرتے۔ہمسایوں کا خوب خیال کرتے۔تعلیمی ادارے میں اثرورسوخ ہونے کے باوجود بھی لوگوں کے متعلقہ محکمے میں کام بے غرض کرتے۔کسی کا تمسخر نہیں اُڑاتے تھے۔ نہ عیب لگاتے نہ تجسس کی عادت تھی۔ ہر عمل میں اخلاص تھا جنازے میں موجود ان کے ایک دیرینہ دوست کاکہنا تھا کہ ہم نے ضرورت مند کی مدد کرنا اِن سے سیکھا، دائیں ہاتھ سے ایسے مدد کرتے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوتی،اُترے ہوئے مستعمل کپڑے بھی دھوکر استری اور پیک کر کے بڑے سلیقے سے پیش کرتے کہ کسی کی عزت نفس بھی مجروع نہ ہو۔اُنہیں اِس بات کا ادراک تھا کہ دنیا کے پکے مکان دنیا میں ہی رہ جانے ہیں اِس لئے کبھی مکان کی تعمیر اور اِس کے آرائش و زیبائش پردلچسپی نہیں لی۔ہاں۔۔ اچھا کھانے اور سلیقہ سے پہننے اور گھر میں پودے لگانے کا ذوق ضرور رکھتے تھے۔ اُنہوں نے قول فعل میں تضاد سے پاک ہمیشہ باعمل زندگی گزاری اور اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ نصیحت فرماتے رہے کہ ”عمل سے زندگی بنتی ہے،جنت بھی جہنم بھی۔یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری“۔وہ ہمیشہ استطاعت سے بڑھ کر مہمان کی تواضع کرتے اورمل بیٹھنے پر یوں خوشی کا اظہار کرتے کہ ”غنیمت جانئے مل بیٹھنے کو،جدائی کی گھڑی ہے سر پر کھڑی“۔وہ اپنے بہترین اخلاق کی سبب خداکی قسم اُن بندوں میں شمار ہونگے جن کے متعلق آپﷺ نے فرمایا ہے کہ تم سب میں سے مجھے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے قریب تم میں سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے۔ اُن کی تربیت کا ہی حاصل ہے کہ آج اُن کا چھوٹا بیٹا حافظ قرآن ہے اور دین کی تبلیغ کیلئے اپنی زندگی صرف کررہا ہے، تین بیٹیاں قرآن کی تفسیرکی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔اُن کی زندگی اولاد کے لئے نصیحت رہی اور ان کی قابل رشک موت وصیت بن گئی ہے کہ کامیاب وہی ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کر لے۔قاری کے ذہن میں اُبھرتا یہ آخری سوال کہ وہ اللہ کے ولی کون تھے؟کا جواب ہے کہ وہ راقم الحروف(دنیا دار بڑے بیٹے) کے ابوجی تھے۔ بلکہ۔۔۔ابو جی ہیں۔۔کیونکہ وہ شہید ہیں اور شہید زندہ ہوتے ہیں۔ |