اگلے ہفتے جب ہم لوگ ہادیر ہاٹ
پہنچے تو بانس کٹا ہوا دیکھ کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا میں نے مٹھائی
منگوا کر سب مزدوروں میں تقسیم کروائی اور پیکنک کا طریقہ سمجھا کر واپس آ
گئے کہ دو تین دن بعد آ کر مال ٹرکوں میں لدوا کر چٹاگانگ گودام میں لے
جائیں گے پھر بحری جہاز میں کراچی کے لیے بُک کروا کر کام ختم ہو جائے گا
تو کراچی کی فلائٹ پکڑیں گے مگر شاید ابھی کچھ اور روکاوٹیں تھیں جن کو
عبور کرنا باقی تھا جن میں سب سے بڑی روکاوٹ محکمہ جنگلات سے ایک اجازت
نامے کی ضرورت تھی جس کے بغیر بانس جنگل سے شہر لانا ممکن نہیں تھا ،
مولانا صاحب کے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آجکل” ٹرانزٹ پاس“ محکمے والوں نے
بند کیے ہوئے ہیں لہٰذا کسی قیمت پر بھی آپ اپنا مال شہر تک نہیں لا سکتے
کیونکہ راستے میں بیریکیٹ لگے ہیں جہاں سے پاس دکھلائے بنا آپ کا ٹرک آگے
نہیں بڑھ سکتا، میں نے کہا مولانا صاحب کسی بھی قیمت پر یہ پاس حاصل کریں
اب اور زیادہ یہاں رکنا محال ہے تو انہوں نے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا،
بھائی صاحب میں آپ کے پاس آنے سے پہلے ہر طرح کی کوشش کر چکا ہوں کوئی چارہ
نہیں اب ایسے حالات ہو گئے ہیں کہ کراچی جانے والے مسافروں کی جامہ تلاشی
ہوتی ہے کہ یہاں سے کوئی قیمتی چیز یا سونا چاندی وغیرہ تو لے کے نہیں جا
رہا آپ کی اگر فوج میں کوئی جان پہچان ہے تو کوئی صورت بن سکتی ہے،باقی
مجھے تو فوج سے بہت خوف آنے لگا ہے، میں نے جب اُن سے اس خوف کی وجہ پوچھی
تو انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ میرے ایک کاروباری مخالف نے مارشل لاء آفس
میں فون کر کے کہہ دیا کہ مولانا برادر مکتی باہنی کے ساتھی ہیں، بس پھر
کیا تھا چار فوجی جیپیں میری دوکان کے سامنے آکر کھڑی ہو گئیں چاروں طرف سے
مجھے اور میرے ملازموں کو گھیرے میں لے کر ہاتھ اوپر کر کے لائن میں کھڑا
کر دیا اور بندوقیں سیدھی کر لیں، میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ ہمارا جرم کیا
ہے تو ایک آفیسر جو چہرے سے تھوڑا نرم دل اور میرے اردو بولنے پر تھوڑا
حیران بھی تھا اُس نے آگے بڑھ کر سخت لہجے میں پوچھا، ، اوئے تم مکتی باہنی
کے ساتھی ہو ؟ میں نے اُس کی بات کا جواب بڑے اطمینان سے دیا کہ جناب ہم
لوگ مسلمان ہیں اور کاروباری لوگ ہیں ہمارا مکتی باہنی والوں سے کیا لینا
دینا، آفیسر نے ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، تو یہ دو دو ٹیلیفون کس
لیے رکھے ہیں ان سے تم مکتی باہنی والوں کو خبریں دیتے ہو؟ تو میں نے کلمہ
طیبہ پڑھتے ہوئے کہا نہیں جناب یہ تو کاروباری کاموں کے لیے رکھے ہیں، میرے
منہ سے کلمے کی صحیح ادائیگی سن کر وہ لوگ مطمئین ہو کر یہ کہتے ہوئے واپس
چلے گئے کہ مولانا صاحب ہم کو کسی نے غلط انفارمیشن دی ہے آپ تو شریف آدمی
ہیں آپ بے فکر ہو کر اپنا کام کیجیے اور اگر مکتی باہنی کے بارے میں کوئی
خبر ہو تو ہمیں ضرور بتائیے گا اور اللہ حافظ کہتے ہوئے جتنی تیزی سے آئے
تھے اتنی تیزی سے واپس چلے گئے، ایک بات جس نے مجھے بہت ہی بری لگتی ہے کہ
فوجی لوگ یہاں کی عورتوں کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے بھوکے شیر بکری کو دیکھتے
ہیں ، کیا یہ لوگ جنگل میں رہتے ہیں یا انہوں نے کبھی عورت کو نہیں دیکھا ؟
میں تو اپنی پریشانی میں تھا مولانا کو اس بات کا کیا جواب دیتا بس اتنا
کہہ دیا کہ ہاں یہ لوگ تو شہر سے دور چھاﺅنی میں رہتے ہیں جہاں عورتوں کا
گزر کم ہوتا ہے ۔ |
بانس کی کٹائی مکمل ہونے پر ایک گروپ فوٹو جس میں دائیں سے بائیں: مولانا
طیب صاحب٬ خوشی محمد٬ بذل سوداگر اور اس کا بھائی٬ چھتری کے نیچے مصنف اور
ذوالفقار اور زلفی مزدوروں اور گاؤں کے بچوں کے ساتھ مٹھائی کھانے کے بعد٬
پس منظر میں پہاڑی سلسلہ جہاں سے مزدور بانس کاٹ کر لائے٬ ان پہاڑوں کے
بارے میں مولانا صاحب نے بتایا کہ ان میں ایک ایسا پہاڑی قبیلہ آباد ہے جس
کو ابھی تک انسانی تہذیب کی ہوا نہیں لگی اور نہ ہی وہ ہماری تہذیب کو
اپنانا چاہتے ہیں کبھی کبھار اس قبیلے کا کوئی آدمی نظر آجاتا ہے جو اپنی
ضرورت کی چیز کسی چیز کے بدلے لے جاتا ہے اور ان کی زبان اور ان کا رہن سہن
سب ہم لوگوں سے الگ تھلگ ہے وہ لوگ بہت کم لباس پہنتے ہیں ہم لوگ انہیں “
موگ “ کہتے ہیں وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں درندوں کے خوف سے مچانوں پر بانس کے
گھر بنا کر رہتے ہیں بلا کے تمباکو نوش ہوتے ہیں اپنی دنیا میں خوش رہتے
ہیں مذہب سے ناآشنا ہیں سرداری نظام کے تحت زندگی گزارتے ہیں آبادیوں کے
نزدیک آنے سے گبھراتے ہیں وہاں ان کا اپنا قانون چلتا ہے یہ پہاڑی سلسلہ “
میگھالوئے “ جو کہ آسام میں ہے اس سے جا ملتا ہے جو ہزاروں میلوں پر محیط
ہے اور جنگلی جانوروں سے بھرا پڑا ہے پہاڑوں کے درمیان قدرتی جھیلیں ہیں
کوئی راستہ گھاٹ نہ ہونے کی وجہ سے جو بھی اس سلسلے میں کھو جاتا ہے واپس
نہیں آتا وہیں پر ایک شخص جس کا نام احمد سوداگر تھا اس نے بتایا کہ اس کا
بیٹا اسی پہاڑی سلسلے میں کھو گیا ہے جس کا میں گزشتہ دس برس سے انتظار کر
رہا ہوں-یہ تصویر اکتوبر 1971 کی یادگاروں میں سے ہے٬ مولانا اور بذل
سوداگر اب اس دنیا میں نہیں اﷲ تعالیٰ سب مسلمان مرحومین کو اپنے جوارِ
رحمت میں جگہ عطا فرمائے- آمین |
اس بارے میں جب میں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا
کہ یار اپنے فوجی بھائی کس دن کام آئیں گے اگلے ہفتے چھٹی کے دن کا پروگرام
بنایا اور میجر رفیق کو ساتھ لے کر ہم تین آدمی ٹرکوں کے ساتھ مال لوڈ کروا
کر شہر لے آئے راستے میں چِیک پوسٹ والوں نے فوجیوں کو سامنے بیٹھا دیکھ کر
بیریکیٹ ہٹا دئیے اور ہم لوگ صحیح سلامت مال گودام میں پہنچا کر خوشی خوشی
اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے جیسے بہت بڑا معرکہ سر کر کے آئے ہوں، تھوڑی ہی
دیر کے بعد یہ خوشی رفو چکر ہو گئی جب مولانا صاحب نے ٹیلیفون کر کے بتایا
کہ ہمارے گودام پر محکمہ جنگلات والوں نے چھاپہ مار کر اُسے سیل کر دیا ہے
، ہمارے آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک جیپ میں ڈی۔ایف۔او(ڈپٹی فارسٹ آفیسر)
معہ دو انسپکٹروں کے آئے مجھ سے کاغذات مانگے جو میرے پاس نہیں تھے انہوں
نے گودام کو سیل کیا اور جاتے جاتے یہ دھمکی بھی دے گئے کہ اگر کل تک پرمٹ
نہیں دکھایا تو تم کو بھی بند کر دیں گے، اب میں کیا کروں ، میری تو کہیں
چھپنے کی بھی جگہ نہیں ہے، یہ کہتے ہوئے مولانا کی آواز اس کا ساتھ نہیں دے
رہی تھی ۔
اِس خبر نے میرا کیا حال کیا اُسے لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے بس
’کاٹو تو لہو نہیں‘ والی بات تھی تین مہینے گھر سے دور خطرات میں گھرے
ماحول میں مال تیار کروایا اور آخری وقت میں جب سب کچھ تقریباً مکمل تھا
گھر واپسی کی تیاری تھی کہ یہ آفت آ پڑی جس نے مجھے آپے سے باہر کر دیا دل
چاہتا تھا اُس آفیسر کو گولی مار دوں جس نے میری محنت اور پیسے پر اچانک
چھاپہ مار کر مجھے بیچ راستے میں کھڑا کر دیا ہے، مجھے حوصلہ دینے اور میرا
غُصہ کم کرنے کی زلفی نے بہت کوشش کی مگر اُس وقت جیسے کچھ سنائی ہی نہیں
دے رہا تھا ، رات بھر مجھے نیند نہیں آئی بے چینی میں کروٹیں بدلتے صبح
ہوئی تو پاس میں جو پنجاب پولیس کے لوگ ٹاور کی نگرانی پر مامور تھے اُن
میں ایک حوالدار حیدری صاحب جن کا تعلق کیمبلپور سے تھا زلفی مجھے اُن کے
پاس لے گیا اور میری پریشانی ان کو بتائی انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا ،اب
آپ کیا کریں گے مال تو ضبط ہو چکا، میں نے جھٹ سے کہہ دیا حیدری بھائی مجھے
آپ اپنی رائفل دے دیں بس میں اُس آفیسر کو مار کر پھانسی پر چڑھ جاﺅں گا جس
نے زندہ درگور کر دیا ہے،، میری بات سن کر حیدری کی ہنسی چھوٹ گئی بات ہی
ایسی کر دی تھی میں نے جذبات میں بہہ کر، خیر انہوں نے مجھے دلاسہ دیتے
ہوئے کہا پاگل پن سے کام نہیں چلے گا ایک پولیس والے سے بندوق مانگ رہے ہو
وہ بھی کسی کا خون کرنے کے لیے ؟ تمہارا مسئلہ تو اتنا بڑا نہیں جتنا تم
سمجھ رہے ہو مجھے تیار ہونے کا وقت دو اور کھانے پینے کی دعوت کا انتظام
کرو، پھر دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے، ہم لوگ گیارہ بجے کا ٹائم طے کر کے
واپس آگئے، میں نے جب زلفی سے پوچھا کہ دعوت کا کیا مطلب ہے تو اُس نے بڑے
رازدارانہ لہجے میں میرے کان کے قریب منہ لا کر کہا، یہ پولیس والے ہیں ان
کو کچھ کھلا پلا دو تو یہ قاتل کو بھی بری کروا دیتے ہیں کیا سمجھے ؟ میں
نے بے یقینی سے اُس کی ہاں میں ہاں ملائی اور ٹھیک ٹائم پر حیدری صاحب کے
پاس پہنچ گیا جو مایہ لگی ہوئی کھڑ کھڑ کرتی شلوار قمیض پہن کر میر انتظار
کر رہے تھے ، ہم لوگ فارسٹ آفس جو ہم سے تھوڑی ہی دور ایک چھوٹی سی پہاڑی
پر تھا سیدھے ڈی۔ایف ۔او کے کمرے کی طرف گئے دروازے پر ایک چپراسی اسٹول پر
بیٹھا تھا جو ہمیں دیکھ کر کھڑا ہو کیا، حیدری نے آﺅ دیکھا نا تاﺅ اُس کے
اسٹول کو اپنی پشاوری چپل کی ٹھوکر سے ایک طرف پھینکتے ہوئے غصے سے چلا کر
کہا( تا کہ اندر تک آواز جائے’) کدھر ہے تمہارا ڈپٹی اُس کی ایسی تیسی ‘
اور سیدھے اندر داخل ہو گئے اندر والے سب گبھرا کر کھڑے ہو گئے کہ یہ کیا
آفت آن پڑی مجھے بھی اُس وقت یوں لگا جیسے میں کسی فوجی کرنل کے ساتھ ہوں
جو اپنے ماتحت کو ڈانٹ رہا ہے،ایک کرسی کھینچ کر اُس پر بیٹھتے ہوئے دوسری
پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے حیدری ڈپٹی صاحب کو گھورنے لگے جب دیکھا
کہ اب وہ رُعب میں آ گئے ہیں تو میری طرف انگلی کر کے ڈپٹی صاحب کو مخاطب
کرتے ہوئے بولے ،اِن کو پہچانتے ہو یہ کون ہیں ؟؟؟ پھر کچھ توقف کر کے خود
ہی بھرائی ہوئی آواز میں کہا، یہ میرے بھائی ہیں جن کا تم نے مال ضبط کیا
ہے کیوں ؟ ڈپٹی صاحب کا تو خوف کے مارے بُرا حال تھا ہکلا کر بولے صاحب ان
کے پاس ٹرانزٹ پرمٹ نہیں ہے،تو کیا ہوا تم بنا دو ابھی اسی وقت اس کا مال
پرمٹ کے ساتھ ریلیز ہونا چاہیے سمجھ میں آیا یا میں سمجھاﺅں ؟ نہیں صاحب ہم
کو پتہ نہیں تھا کہ یہ آپ کے بھائی ہیں، اور اسی وقت اپنے ماتحت کو بلا کر
پرمٹ بغیر فیس کے تیار کروا کر میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہنے لگے آپ خود
آجاتے صاحب کو کیوں تکلیف دی ، انسپکٹر کو گودام کی سیل کھولنے کے لیے
ہمارے سامنے بھیج کر بولے ،اور بتائیے صاحب کی کیا خدمت کرسکتا ہوں ، حیدری
صاحب نے اُٹھتے ہوئے کہا نہیں بس اتنا ہی کافی ہے آئندہ خیال رکھنا،واپسی
پر میرے تو خوشی کے مارے پیر زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔
قارئین شاید یقین نہ کریں کہ یہ کہانی لکھتے وقت میرے احساسات ساتھ ساتھ
چلتے ہیں اور میں اُسی طرح تصور میں اُن کرداروں کو چلتے پھرتے بات کرتے
دیکھتا ہوں۔
(جاری ہے) |