یہ آج سے تین سال پہلے کی بات ہے
مجھے ایک کاروباری سلسلے میں میانمار (برما) جانا پڑا ، وہاں پہنچ کر
ٹھہرنے کے لیے کسی مسلم ہوٹل کی تلاش میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کی مدد سے تیس
نمبر اسٹریٹ میں ”پولو“ ہوٹل میں کمرہ لیا، نام بڑا عجیب سا تھا، مالک ایک
مسلم بنگالی تھا جس کے آباﺅ اجداد کسی زمانے میں مشرقی بنگال سے ہجرت کر کے
رنگون میں آبسے تھے، یہ ایک درمیانے درجے کا ہوٹل تھا جس کے آس پاس کھانے
کے لیے مسلمانوں کے کچھ ریسٹورنٹ دیکھ کر دل میں ایک گونہ اطمینان ہوا کہ
حلال کھانا تو ملے گا۔
ہوٹل کے مالک سے جو قد کاٹھ میں لمبا چوڑا عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بوڑھا
نہیں لگتا تھا جب پولو نام رکھنے کی وجہ پوچھی جو بنگالی طرز کی اردو بھی
جانتا تھا تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا، مجھے پولو کا کھیلا بہت پسند ہے نا
اسی واسطے اپنے ہوٹل کا نام پولو رکھا ہے۔کاﺅنٹر پر اُس کی بیٹی بیٹھتی تھی
جو باپ کی طرح صحت مند اور شادی شدہ ہونے کے باوجود خاوند سے کسی وجہ سے
ناراض ہو کر باپ کے پاس ایک سات آٹھ سالہ پیاری سی بچی کے ساتھ رہ رہی تھی
کاﺅنٹر پر دو لڑکیاں اور بھی تھیں جن کی وہ ہیڈ تھی، برما میں مسلم خواتین
بھی اکثر برمی لباس پہنتی ہیں جو اسکرٹ اور لنگی پر مشتمل ہوتا ہے سر پر
دوپٹہ نام کی کوئی چیز نہیں آزادانہ گھومنے پھرنے کو وہاں معیوب نہیں سمجھا
جاتا دوکانوں پر زیادہ تر عورتیں بیٹھتی ہیں فروٹ کی چھابڑی ہو یا مونگ
پھلی کا ٹھیلہ لڑکیاں صدا لگا لگا کر گلیوں میں بازاروں میں بیچتی نظر آتی
ہیں ، میں نے مسلمان لڑکیوں کو بھی دیکھا جو کچھ تو اسکارف لگا کر اور کچھ
بغیر دوپٹے کے سگر یٹ پان کی چھابڑی سڑک کے کنارے لگا کر سارا دن اپنے گھر
کو چلانے کے لیے محنت مزدوری کرتی نظر آتی ہیں۔
مہنگائی اتنی ہے کہ ایک فرد کے کمانے سے گھر نہیں چلتا ، پاکستان میں تو
مزدور تین سو روپیہ دیہاڑی لے کر بھی روتا ہے جبکہ وہاں ایک سو روپیہ لے کر
بیس روپے میں چائے کا ایک کپ پی کر لوگ خوش نظر آتے ہیں۔تقریباً پچاس سال
سے وہاں فوجی حکومت ہے جس نے قانون پر عملداری کو اتنی اہمیت دی ہے کہ رات
کے تین بجے بھی ٹیکسی والا سگنل توڑنے کی جُرات نہیں کرتا،لوگ کروڑوں روپیہ
پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کر بازاروں میں چلتے پھرتے کوئی خطرہ محسوس نہیں
کرتے، عورتیں سونے کے زیورات پہن کر اکیلی بسوں میں سفر کرنے سے نہیں
گھبراتیں، یہاں میں ایک مسلمان لڑکی رشیدہ بی بی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا
ہوں جو اکیلی اسی ہوٹل میں آکر پندرہ دن کے لیے ٹھہری ہوئی تھی، میں اُسے
شام کے وقت اکثر کاوئنٹر کے پاس صوفے پر بیٹھے دیکھتا مسلمان چاہے کسی بھی
لباس میں ہو پہچانا جاتا ہے مجھے جب ہوٹل کے مالک سے اُس لڑکی کے بارے میں
پتہ چلا کہ وہ اکیلی یہاں کچھ کام سیکھنے ارکان اسٹیٹ جو رنگون سے تقریباً
سات سو کلو میٹر دور ہے وہاں سے آئی ہے تو میں بہت حیران ہوا کہ پاکستان
میں تو ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی اکیلی نوجوان خوبصورت لڑکی
کسی ہوٹل میں رہ سکتی ہے، میرے دل میں آئی کہ اُس سے بات کر کے معلوم کروں
کہ ایسی کونسی مصیبت آن پڑی جس نے اُسے اکیلے اتنی دور آنے پر مجبور کیا ؟
ایک شام ایسے ہی وہ صوفے پر بیٹھی کوئی اخبار دیکھ رہی تھی ،میں اُس کے
سامنے جاکر بیٹھ گیا اُس نے جب نظریں اخبار سے ہٹا کر میری طرف دیکھا تو
میں نے اُسے ہیلو کہا جواب میں اُس نے اسلام علیکم کہہ کر مجھے احساس دلایا
کہ ہیلو کہنا مسلم کی شان نہیں ، میں برمی زبان تو نہیں جانتا تھا لہٰذا
انگلش میں اُس سے بات شروع کی جس کے جواب میں وہ بڑی روانی سے انگریزی میں
باتیں کرنے لگی اُس سے جب میں نے رنگون اکیلے آنے کا مقصد پوچھا تو اُس نے
بڑی سادگی سے کہا کہ میرے والد کا ارکان میں ایک ریسٹورنٹ ہے میں یہاں آئس
کریم بنانے کا کورس جو پندرہ دن کا ہے کرنے آئی ہوں یہاں سے سیکھ کر میں
اپنے فادر کے کاروبار کو مزید آگے بڑھاﺅں گی، میں نے کہا تمہیں اکیلے آتے
ہوئے ڈر نہیں لگا اِس پر وہ بے خوف لہجے میں بولی کس کا خوف ؟یہاں کوئی
لڑکی کسی مرد کے خلاف اگر پولیس میں کمپلینٹ لکھوا دے تو پھر اُس کا سات
سال تک پتہ ہی نہیں چلتا کہ کونسی کال کوٹھڑی میں بند ہے۔میں نے ذرا حیرت
بھرے لہجے میں کہا، اچھا یہ بات ہے !! میں تو سمجھا تھا کہ یہاں کے لڑکے ہی
بڑے شریف قسم کے ہیں جو بیچارے لڑکیوں کو دیکھ کر نظریں نیچی کر لیتے ہیں۔
رنگون میں ایک سے بڑھ کر ایک فل ائر کنڈیشنڈ مسجدیں ہیں جو قومیتوں کے نام
سے منسوب ہیں بنگالی مسجد ،میمن مسجد یعنی ہر قوم نے اپنی علیحدہ پہچان
رکھی ہوئی ہے، مجھے بہت سارے ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا مگر کہیں بھی
ایسی مسجد نہیں دیکھی جس پہ لکھا ہو کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے ۔ کتنے دکھ
کی بات ہے کہ ہندوﺅں کا مندر ہوتا ہے عیسائیوں کا گرجا ، مگر مسجدیں
برادریوں یا قوموں کے نام سے بنائی جاتی ہے۔
رنگون سے کچھ تین سو کلومیٹر دور ایک پرانا شہر ”ٹانگو“ ہے وہاں ایک
پاکستانی کے بیٹے سے ملاقات ہوئی جو ایک میڈیکل اسٹور چلاتا ہے نام اُس نے
اپنا محمد سلیم بتایا یہ اتفاق تھا کہ میں انسولین تلاش کرتے کرتے اس کی
دکان پر پہنچ گیا ، ماشا اللہ باریش اونچے لمبے ادھیڑ عمر کے پُر وقار آد
می کو دیکھ کر بہت اچھا لگا اور جب اُن کو اردو بولتے سنا تو میری خوشی
دوگنی ہو گئی ،مزید احوال پوچھا تو پتہ چلا کہ اُن کے والد کا تعلق خوشاب
سے ہے جو دوسری جنگ عظیم میں برما میں تھے جنگ ختم ہوئی تو انہوں نے وہیں
شادی کر کے سکونت اختیار کر لی مگر اپنی شناخت پاکستانی ہی رکھی میں نے جب
اُن سے ملا قات کا شوق ظاہر کیا تو وہ ضعیفی میں بھی سائیکل چلا کر دوکان
پر آئے، مجھ سے مل کر بہت عرصے بعد انہوں نے ملکی زبان میں بات کی جس کی
خوشی اُن کے چہرے سے ظاہر تھی، سلیم صاحب کے ماشااللہ چار بیٹے جوان تھے،
مگر کسی کو بھی انہوں نے یونیورسٹی تک نہیں جانے دیا ، کاروبار میں لگا
دیا، میں نے جب اس کی وجہ پوچھی تو طنزیہ لہجے میں فرمانے لگے، بھائی صاحب
،یہاں کی برمی لڑکیا ں پیچھے لگ جاتی ہیں اور اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہیں
دین دھرم سے بیگانہ کر دیتی ہیں اسی لیے اتنا تک پڑھائی کر لے کہ اپنا
کاروبار سنبھال سکے بس کافی ہے، ایک اور بات انہوں بتائی جو مسلمانوں کے
لیے بہت ہی تشویشناک تھی کہ بہت سارے مسلمان دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں خا
ص کر ایک گاﺅں کا ذکر کرتے ہوئے تو اُن کے چہرے پر افسردگی سی چھا گئی کہ
یہاں سے کچھ دور روہیلا نامی گاﺅں میں آج سے تقریباً چالیس سال پہلے پچاس
گھر مسلمانوں کے تھے آج ایک بھی نہیں سب نے مرتد ہو کر بدھ مت اختیار کر
لیا ہے، جیسے آج میرے بچے ایک پاکستانی کی اولاد ہو نے کے باوجود میرے سوا
کوئی بھی اردو نہیں بول سکتا کیونکہ انہیں وہ ماحول ہی نہیں ملا !! سب جگہ
برمی زبان ہی سے واسطہ پڑا لہٰذا اپنا سب کچھ بھول گئے یہی حال اُس گاﺅں کا
ہوا اکثریت مقامی لوگوں کی تھی بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو ہضم کر گئی ۔
ٹانگو شہر کے بارے میں بھائی سلیم صاحب سے یہ بھی پتہ چلا کہ یہاں کچھ سال
پہلے مسلمانوں اور بدھ مت کے راہبوں میں ایک مسجد کو لے کر بہت فساد ہوا
تھا جس میں سیکڑوں مسلمان شہید ہوئے، ہوا یوں کہ پُرانے وقتوں میں یہاں ایک
راجہ تھا جس کی فوج میں سبھی مذاہب کے لوگ تھے اُس نے یہاں ساتھ ساتھ ایک
مسجد ایک بدھوﺅں کا مندر اور ایک گرجا تعمیر کروایا اب یہاں آبادی کے لحاظ
سے بدھ مت کے لوگوں کو مندر کی توسیع کے لیے جگہ کی ضرورت پڑی ، عیسائیوں
کے پیچھے تو ایک بڑی طاقت ہے ، لہٰذا انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ آپ لوگوں
کو مسجد کے لیے کہیں دوسری جگہ دے دیتے ہیں آپ لوگ یہ مسجد والی جگہ ہم کو
دے دیں تاکہ ہم اسے گرا کر ا پنے مندر کو وسیع کر سکیں ، مسلمانوں کو یہ
بات گوارہ نہ تھی کہ مسجد کی جگہ مندر بنے لہٰذا ٹانگو شہر جنگ کا میدان بن
گیا امن پسند بدھ بھکشو ﺅں نے تلوار ٹائپ کے ہتھیار لے کر مسجد کو شہید کر
دیا ،یہاں کی حکومت نے بھی اُنہیں کا ساتھ دیا ،ادھر افغانستان میں جو
طالبان نے اُن کے دیو قامت بُت راکٹ لانچر کے گولے مار مار کے گرائے تھے
اُس کا بھی ان کو ملال تھا ، لے دے کے مسلمانوں کو چُن چُن کر شہید کیا ،
ہم لوگ تو یہاں سے دور ہٹ گئے تھے اس لیے بچ گئے ورنہ آج آپ سے ملاقات کہاں
ہوتی،آج بھی یہاں بارہ مسجدوں میں سے تین کھلی ہیں باقی سب حکومت نے سیل کر
رکھی ہیں یہ سب سن کر میرے دل پر ایک چوٹ سی لگی کہ ہم لوگ پاکستان کی قدر
نہیں کرتے جہاں ہر طرح کی مذہبی آزادی ہے ہمارا اپنا ایک دینی ماحول بچوں
کو مل رہا ہے ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے کسی ڈر کی وجہ سے نہیں روکتے
ہماری مائیں بہنیں اپنے پاکستانی لباس پہننے میں فخر محسوس کرتی ہیں
مہنگائی تو ہر جگہ ہے کہیں کم کہیں زیادہ مگر اپنا گھر اپنا ہوتا ہے ، باہر
ملکوں میں مسلمان کتنے دبے دبے سے رہتے ہیں یہ کوئی باہر جا کر دیکھے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے پاک وطن کو لالچی اور کرپٹ حکمرانوں سے محفوظ
فرمائے۔ آمین |