امریکہ میں نسل پرستانہ سوچ کے خلاف مظاہرے، کیا یہ تحریک کوئی بڑا انقلاب لانے والی ہے؟

نسل پرستانہ رویے پر مبنی سوچ اور پولیس کے ناروا برتاؤ کے خاتمے کے مطالبات منوانے کے حق میں جاری مظاہرے اختتام ہفتہ امریکہ کے کئی شہروں میں جاری رہے، جس میں مظاہرین نے سڑکوں پر مارچ کیا۔

یہ ملک گیر احتجاج 25 مئی سے جاری ہے، جب افریقی امریکی سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ وسط امریکی شہر منی ایپلس میں پولیس کے تحویل کے دوران ہلاک ہوئے، ساتھ ہی، ان میں سے چند مظاہرے جون ٹینتھ منانے والوں پر مشتمل تھے، یہ جلوس 19 جون 1865ء کے جشن کی یاد میں نکالے جاتے ہیں جب ٹیکساس کی جنوب وسطی ریاست میں آخری افریقی امریکیوں کو غلامی سے رہائی دی گئی تھی۔

یہ جلوس ملک کے مختلف شہروں اور کئی ایک قصبوں میں اختتامہ ہفتہ نکالے گئے، جن میں نیو یارک، لاس انجلیس اور میامی شامل ہیں، یہ احتجاجی مظاہرے واشنگٹن میں بھی کیے جائیں گے، جہاں وائٹ ہاؤس کے سامنے کئی ہفتوں سے روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

جمعے کی رات وائٹ ہاؤس سے 3.2 کلومیٹر کے فاصلے پر جوڈیشری اسکوائر پر احتجاج کیا گیا جس دوران مظاہرین نے کنفیڈریٹ جنرل البرٹ پائیک کا مجسمہ گرایا۔

کنفیڈریٹ یادگار جنوبی ریاستوں کی علامت ہیں، جو امریکہ سے اس وقت الگ ہونے کے حق میں تھے جب وہ افریقی امریکیوں کی غلامی برقرار رکھنے کی کوشش میں ناکام رہے، حالیہ عشروں کے دوران یہ یادگاریں ہدف رہی ہیں، خاص طور پر موجودہ احتجاجی مظاہروں کے دوران، نسلی امتیاز کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہفتے کے روز امریکہ سے باہر دیگر ملکوں میں بھی کیے گئے۔

فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد برطانیہ میں نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کو آج چوتھا ہفتہ ہو گیا ہے، اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈبنرگ میں ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد نے اٹھارہویں صدی کے سیاست دان، ہینری دنداس کے مجسمے کو ہٹانے کا مطالبہ کیا، جنھوں نے غلامی کے خاتمے کی کوششوں میں تاخیری حربے کا استعمال کیا تھا۔

فرانس میں، مظاہرین نے نسلی امتیاز اور پولیس زیادتی کے خلاف پیرس میں ریلیاں نکالیں، یہ احتجاج سیاہ فام افراد کے حق میں کیا گیا جو فرانسیسی پولیس کے ہاتھوں یا پھر مشکوک حالات میں ہلاک ہوئے۔

امریکہ کے شہر منی ایپلس میں تقریباً مہینہ بھر پہلے پولیس کی تحویل میں ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی المناک موت کے خلاف اب بھی مظاہرے جاری ہیں اور نہ صرف امریکہ، بلکہ دنیا بھر کے بہت سے ملکوں میں بھی اس سانحہ کے نتیجے میں اب پولیس اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور اس کے باہر جس بڑے پیمانے پر مظاہرے اور تشدد پھوٹ پڑے ان میں پولیس کے مبینہ مظالم کے خلاف اور نسلی برابری کے لئے زور دار آواز بلند کی گئی۔

نسلی انصاف کے علمبردار اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ گزشتہ دنوں امریکہ میں جو مظاہرے دیکھنے میں ائے ہیں، وہ نئے نہیں ہیں اور اس کی فوری اور واحد وجہ فلائید کی موت کو ہی قرار نہیں دیا جاسکتا، اس کے پیچھے جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے اور برسوں سے اس حوالے سے لاوا پکتا رہا ہے۔

رنگدار لوگوں کی ترقی کی قومی تنظیم این اے اے سی پی کے سابق صدر کورنل بروکس کا کہنا ہے کہ یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں ابھر کر سامنے آیا ہے جب پولیس کی مبینہ بے قاعدگیوں سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، پولیس تحویل میں جارج فلائیڈ کی موت سے قبل بھی کئی افراد کی ہلاکتوں کی ویڈیوز سامنے آتی رہی ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں حالیہ مظاہروں میں شامل ہلڈا جورڈن نے بہت سے مظاہرین کی گویا ترجمانی کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہمیں نسل پرستی کے خلاف جنگ جاری رکھنی ہو گی، اس کا مقابلہ اسی انداز سے کرنا ہو گا جو موجودہ کرونا وائرس کے خلاف اختیار کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے اس جانب توجہ مبدول کرائی کہ اس مرتبہ جو مظاہرے ہوئے، ان میں سوشل میڈیا کافی متحرک تھا، اور نہ صرف بلکہ فنڈ اکھٹا کرنے کے لئے بھی سرگرمی دیکھنے میں آئی اور دستخطی مہم بھی چلائی گئی۔

مبصرین کہتے ہیں کہ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کوویڈ 19 کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں بیرزگار ہوئے ہوئے ہیں اور ان کے پاس سڑکوں پر آنے کے لئے کافی وقت دستیاب ہے، جو رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات بھی پیش کر رہے ہیں۔

اس طرح کوویڈ 19 نے نسلی مساوات کی تحریک کو بھی ایک نئی جہت دیے دی ہے، سیاہ فام لوگ، جنھوں نے حالیہ ہفتوں میں مظاہرے کئے، کہتے ہیں کہ ان کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔

سونیا بھی ان مظاہروں میں شرکت کرتی رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میں ایک سیاہ فام خاتون کے طور پر پیدا ہوئی تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ اسی صورت زندگی گزارنی پڑے گی۔ لہذا یہ کوئی نئی اور حیران کن بات نہیں۔

سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے مظاہروں کو منظم کرنے اور اپنی آواز بلند کرنے میں کافی مدد دی ہے۔ اس سے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ہمارے پیغام کو پذیرائی ملی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں اعتماد ہے کہ حالیہ تحریک سے حقیقی معنوں میں مثبت تبدیلیوں کی امید کی جاسکتی ہے اور اس کا مظاہرہ پولیس کے محکمے میں اصلاحات کی کوششوں کی شکل میں دیکھنے میں آرہا ہے۔

مبصرین کے خیال میں موجودہ تحریک نہ صرف سوچ میں تبدیلی کی نوید بھی ہو سکتی ہے، بلکہ اس سے ایک نئی تاریخ بھی رقم ہونے کا امکان دکھائی دیتا ہے، امریکہ میں نسل پرستانہ سوچ کے خلاف جس طرح کے مظاہرے کیئے جارہے ہیں انہیں دیکھ کر یہ اندازہ لگ رہا ہے کہ یہ تحریک ایک نیا انقلاب رقم کرنے والی ہے جس میں امریکہ کے نسل پرست اور انتہاپسند افراد کو شدید نقصان ہوگا، خاص کر امریکی صدر جو ہمیشہ نسل پرستی کے حامی رہے ہیں انہیں آنے والے انتخابات میں اس تحریک سے بھاری پیمانے پر نقصان ہوگا اور ان کے ہارنے کے امکانات بہت زیادہ نظر آرہے ہیں۔۔۔
 

Hanif
About the Author: Hanif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.