چیف آف آرمی اسٹاف و ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کا دورہ افغانستان امن کی امیدیں !

افغان مفاہمتی عمل کے لئے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے افغانستان، پاکستان اور قطر کا ایک بار پھر دورہ کیا ۔ امریکی دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق دوحہ معاہدے اور امریکا ، افغانستان مشترکہ اعلامیہ میں کئے گئے تمام وعدوں میں خصوصاََ تشدد میں کمی اور قیدیوں کی رہائی پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا ۔امریکا اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے پر29فروری کو دستخط کے بعد بین الافغان مذاکرات کے لئے سازگار ماحول بنانے کی ذمے دار امریکا پر عائد ہوتی ہے کیونکہ کابل انتظامیہ کے ساتھ افغان طالبان نے کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا اور تاہم ترمعاہدے کے نکات ، افغان طالبان و امریکا کے درمیان طے پائے گئے تھے۔ اس معاہدے میں شراکت دار کی حیثیت سے غنی انتظامیہ کی شمولیت کی کوشش بہرحال کی گئیں لیکن افغان طالبان ، غنی انتظامیہ کو قانونی حیثیت دینے کو تیار نہیں تھے اس لئے معاملات میں موجودہ رکاؤٹیں آنے کا اہم سبب تینوں فریقین کے لئے صبر الزما مرحلہ بنا ہوا ہے۔ دوحہ مذاکرات کی روح کے مطابق بین الافغان مذاکرات کے لئے شق کے مطابق پانچ ہزار افغان طالبان و ایک ہزار افغان سیکورٹی فورسز کے قیدیوں کی رہائی ضروری تھی ، افغان طالبان کا آج بھی یہی موقف ہے کہ معاہدے کے مطابق ان کے 5ہزار قیدیوں کو رہا کرنا ، امریکا کی ذمے داری ہے۔ امریکا اور غنی انتظامیہ کے درمیان پس پردہ کیا نکات طے ہوئے ، اس پر مفروضے ہیں ، حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ غنی انتظامیہ نے امریکا سے یقین دہانی حاصل کی ہو کہ پہلے انہیں صدارتی انتخابات میں کامیاب کرائیں اور سیاسی بحران کو حل کرنے کے بعد افغان طالبان پر ’’کچھ لو کچھ دو ‘‘کی بنیاد پر دباؤ ڈال کر دوحہ معاہدے میں طے شدہ امور سے کچھ کم پر معاملات طے کرا لئے جائیں۔امریکی ٹیم نے دوحہ معاہدے میں افغان طالبان کے ساتھ اصولی اتفاق تو طے کرلیا ، لیکن قیدیوں کے تبادلے میں غنی انتظامیہ نے اپنا موقف سامنے رکھا کہ قیدیوں کی رہائی کا معاملہ افغان طالبان کو ان کے ساتھ بیٹھ کر حل کرنا ہوگا ۔

افغان طالبان اور غنی انتظامیہ کے درمیان مسلح و سرد جنگ بھی ساتھ جاری ہے ، ذرائع کے مطابق3ہزار کے قریب غنی انتظامیہ نے اور750کے قریب افغان طالبان ، قیدی رہا کرچکے ہیں ، لیکن اصل دشوار گذار مرحلہ باقی ماندہ افغان طالبان کے اُن سنیئر رہنماؤں و اہلکاروں کی رہائی سے متعلق تحفظات ہیں ، جنہیں دور کرنے کے لئے افغان طالبان نے امریکا کو تو ضمانت دی ہے لیکن اس کے حاشیہ بردار انتظامیہ کو ضمانت دینے کو تیار نہیں ۔غنی انتظامیہ کا بظاہر یہی کہنا ہے کہ خطرناک افغان طالبان قیدیوں کی رہائی سے مستقبل میں انہیں مشکلات کا سامنا بڑھ جائے گا ، تاہم دوحہ معاہدے میں افغان طالبان نے جو فہرست ، امریکی حکام کو فراہم کی تھی ، اس میں سے 5ہزار قیدیوں کے ناموں پر کئی اجلاسوں بعد اتفاق رائے پیدا ہوچکا تھا ۔ زلمے خلیل کا مشکل ترین دورے میں ایک مرتبہ پھر پاکستان سے سہولت کاری کی استدعا کی گئی کہ بین الافغان مذاکرات کے لئے تعاون کریں ۔ اس ضمن میں زلمے خلیل زاد کی پاکستانی اعلیٰ عسکری حکام سے جی ایچ کیو میں ملاقات اہم نوعیت کی تصور کی گئی اور بالاآخر پاکستانی اعلیٰ عسکری قیادت نے اہم کردار کے طور پر افغانستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت سے ملاقات کی۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے افغان صدر اشرف غنی اورافغانستان کی اعلٰی کونسل برائے قومی مفاہمت کے سربراہ ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ نے بھی پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔پاکستان کے آرمی چیف نے اپنے عزم کو دوبارہ دوہرایا کہ پاکستان، خود مختار اور جمہوری افغانستان کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گا۔خیال رہے کہ پاکستان کے کسی بھی اعلٰی وفد کا افغان صدر کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد یہ پہلا دورہ ہے۔ ملاقات کے دوران رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ افغانستان میں قیام امن خطے کے بہترین مفاد میں ہے۔ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ نے کہا کہ امن معاہدے پر عمل درآمد اور بین الافغان مذاکرات کے جلد آغاز سے ہی افغانستان میں قیام امن کے اس سنہری موقع کے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستانی وفد میں آرمی چیف کے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ کا ہمراہ ہونا ، دورے کی سنجیدگی کو نمایاں کرتا ہے۔اس دورے نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ پاکستانی اعلیٰ عسکری قیادت ، غنی انتظامیہ کو اس بابت رضا مند کرنا چاہیں گے کہ دوحہ جیسے تاریخی معاہدے کے بعد ، انہیں افغان طالبان کے مزید قیدیوں کی رہائی میں حائل رکاؤٹیں دور کرنے کے لئے امن کے لئے ایک قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی قریباََ طے پا چکا ہے تاہم بین الافغان مذاکرات کے لئے مقام کے تعین اور غنی انتظامیہ کے اراکین کی موجودگی کو یقینی بنانے پر معاملات الجھے ہوئے ہیں۔افغان طالبان نے بین الافغان مذاکرات میں غنی انتظامیہ کی سرکاری حیثیت میں شرکت پر اعتراض برقرار رکھا ہوا ہے جب کہ غیر سرکاری سطح پر شمولیت پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔

پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لئے اہم پیش رف کے طور پر پہلی مرتبہ خصوصی معاون برائے افغانستان محمد صادق کا تقرر کیا ہے۔محمد صادق افغان امور کے حوالے سے وسیع تجربہ و مہارت رکھتے ہیں ، 2008سے2014تک کابل میں پاکستانی سفیر کے حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں ، جب کہ 2016میں محمد صادق سیکورٹی ڈویژن سے بطور سیکرٹری ریٹائرڈ ہوئے۔خصوصی معاون برائے افغان امور کی تعیناتی کے مقاصد میں افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کے کردار کو احسن طریقہ سے ادا کرنے کی ذمے داری عکاس ہے کہ پاکستان ، افغانستان میں جلد ازجلد مفاہمتی عمل کی تکمیل کا خواہش مند ہے ، کیونکہ ایک جانب ایسے عناصر ، پاک ۔افغان تعلقات کو کشیدہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، جس میں بہتری کے لئے خصوصی توجہ کی ضرورت تھی دوم ،افغان امور میں اعلیٰ مہارت سے توقعات ہیں کہ تعمیری کردار سے دونوں ممالک کے درمیان بار بار کشیدہ ہونے والے تعلقات سے افغان مفاہمتی عمل کی سست روئی کو بھی دور کیا جاسکے گا اور سرحدی معاملات پر باقاعدہ رابطہ کار مقرر ہونے سے غلط فہمیوں کا ازالہ اور اداروں کے درمیان بہتر کوآرڈینشن آنے والے وقت کے لئے مثبت نتائج کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ محمد صادق ایک پشتون معروف شخصیت ہیں ، جس بنا پر زبان و قومیت کی ہم آہنگی اہمیت کی حامل ہوگی ، اس دوران اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ سابق سفیر و موجودہ معاون خصوصی محمد صادق کے تعلقات شمالی اتحاد کے ساتھ بھی اچھے سمجھے جاتے ہیں ، ایک تجربہ کار سفیر و بیورو کریٹ ہونے کے ناطے ان کی خدمات کو افغانستان کی جانب سے بھی سراہا جارہا ہے۔پاکستانی اعلیٰ عسکری حکام کا دورہ اہمیت کا حامل اس لئے بھی تھا کہ اقوام متحدہ کے مبصرین کے ساتھ مل کر کو افغانستان کے بعض افراد کی جانب سے ایک ہزار750 داعش جنگجوؤں کی موجودگی کی رپورٹ دی گئی ، جب کہ پاکستان سے فرار ہوکر افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے والے پاکستانی سمیت دیگر غیر ملکی جنگجوؤں کی تعدادچھ ہزارپانچ سو کے قریب بتائی گئی ہے۔ جنگجوؤں ، بالخصوص داعش خراسان کا ننگرہار میں منظم ہونا خطے کے ممالک کے لئے انتہائی تشویش ناک خبر ہے۔ پاکستانی عسکری حکام نے اسی حوالے سے بارڈر منجمنٹ سسٹم کو مزید موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا، کیونکہ افغانستان کی سرزمین سے دہشت گر پاکستان میں داخل ہوکر سیکورٹی فورسز کو نقصان پہنچاتے ہیں۔خیال رہے کہ افغان طالبان نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ہزاروں غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی سے انکار کرکے رپورٹ کو خود ساختہ قرار دیا ہے۔

اعلیٰ عسکری قیادت کے دورہ افغانستان ، اور امریکی حکام کے قطر میں افغان طالبان کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ، ان توقعات کو بڑھارہی ہیں کہ افغان مفاہمتی عمل کا اگلا قدم جلد اٹھایا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ افغان طالبان اپنی فہرست کے مطابق پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کے مطالبے سے قطعی دستبردار ہوتے نظر نہیں آرہے ، وہ اس صورت میں کہ دوحہ معاہدے میں امریکا اس پر دستخط کرچکا ہے۔امریکی حکام کی جانب سے دوحہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لئے طے شدہ نکات پر فریقین کی سنجیدگی ضروری ہے۔ افغان عوام، بے چینی سے بین الافغان مذاکرات کے شروعات کے منتظر ہیں ، جو بیرون ملک میں منعقد ہوگا ، گو کہ بین الافغان مذاکراتی عمل ، دوحہ مفاہمتی عمل سے بھی زیادہ دشوار و گنجلگ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ مملکت کے انصرام ا انتظام پر افغان طالبان کے موقف کے مطابق دیگر سیاسی جماعتوں کا متفق ہونا ، دشوار گذار مرحلہ ہے۔ بالخصوص خواتین کے حقوق پر تحفظات کا معاملہ اور اس پر افغان طالبان کا ماضی کا رویہ ، تما م فریقین کے لئے کڑا امتحان ثابت ہوسکتا ہے۔ بین الافغان مذاکرات کا ہر مرحلہ پیچیدہ و مشکل ترین ہے ، جہاں طاقت کے بجائے مذاکرات سے دیرینہ مسائل کو افغان عوام نے خود حل کرنا ہوگا ۔ افغان عوام کے علاوہ کسی بھی ملک کی دخل اندازی یا معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش، خطے میں امن کے لئے مشکل دور بھی بن سکتا ہے، بالخصوص پاکستان کے لئے بھارت کی پراکسی و مقبوضہ کشمیر و بلوچستان میں غیر سفارتی عوامل پڑوسی ممالک کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا کی افواج کی واپسی متوقع ہے لیکن امریکی پالیسیوں کا کئی عشروں تک افغانستان کی سرزمین پر شامل رہنا ، تمام فریقین کے لئے ایک دشوار ایجنڈا ثابت ہوسکتا ہے، بین الافغان مذاکرات کی کامیابی کے لئے ابھی کئی مراحل باقی ہیں۔بالخصوص پاکستان کے ساتھ ، چین ، ایران اور روس کو بھی توقعات ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کے دشوار گذار مرحلے کا آغاز ہو ، تاکہ دوحہ معاہدے کے مطابق امریکی و غیر ملکی افواج کا انخلا ہو ، اور افغان اسٹیک ہولڈرز مستقل جنگ بندی کی جانب پیش قدمی کریں ، تاکہ 40برسوں سے اپنی سرزمین سے ہجرت کرنے والے افغان مہاجرین کی بھی باعزت حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے ۔افغان مہاجرین کی باعزت واپسی سے پاکستان و ایران کو معیشت و سیکورٹی سے متعلق درپیش مسائل دور کرنے میں مدد ملے گی۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744013 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.