اگر چہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں
مندر کی تعمیر کے خلاف درخواست پر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو
نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیاتا ہم یہ بات توجہ طلب اور لمحہ فکریہ
ہے کہ عرب سمیت مسلم دنیا میں حکمران خود کو غیر ضروری روادار اور مسلم
بیزاری کی آگ میں ڈالتے نظر آ رہے ہیں۔ امن اور سلامتی کا دین اسلام انسان
کو انسان کی غلامی اور بندگی سے نکال کر وحدانیت کا درس اسی لئے دیتا ہے کہ
دنیا میں کوئی انسان کسی کے مال و دولت، حسن و جمال یا جنگی ٹیکنالوجی سے
مرعوب ہوئے بغیر حق و سچ ، عدل و انصاف کی خاطر ظلم و زیادتی، بدی اور
برائی کی جڑیں کاٹ ڈالے۔کسی پیغمبر، ہمارے رہبر و رہنماحضرت محمد ﷺ خاتم
النبین ، خلفائے راشدین یا کسی بھی مسلم دور میں مندر، گرجے وغیرہ تعمیر
نہیں کئے گئے کیوں کہ ان میں غیر اﷲ ، پتھر کے خداؤں ، مجسموں کوپوجا جاتا
ہے۔ عبادت تو صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے۔ غیر مسلم عبادتگاہوں کی تعمیر کے
تناظر میں اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن میں مندر کی تعمیر کے لئے زمین دی
گئی۔ مزید یہ کہ مندر کی تعمیر کے لیے تعمیراتی فنڈز بھی واگزار کئے گئے۔
سید پور ماڈل گاؤں میں پہلے سے مندر موجود ہے۔گو کہ اقلیتوں کے مکمل حقوق
ہیں، ان کا بھی خیال رکھنا ہے، مگرسی ڈی اے کوپتہ نہیں کہ ایچ نائن میں
مندر کی تعمیر اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ نہیں اور مندر کو دی گئی
زمین دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہے۔کیا حکومت سمجھتی ہے کہ
اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد کرانا ضروری نہیں۔یہ نکتہ بھی درست
ہے کہ اسلام آباد میں ضلعی عدالتیں کرائے کی دکانوں میں قائم ہیں اور
انتظامیہ مندر تعمیر کررہی ہے، اگر ہندو برادری کے لیے مندر کی تعمیر شروع
کردی گئی تو کل دیگر اقلیتیں بھی ایسا مطالبہ کریں گی۔
ایچ نائن سیکٹر میں حکومت نے مسجد کے لیے کسی فنڈ کا اعلان نہیں کیا بلکہ
مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز جاری کردیئے۔ حکومت یہ بھی نہیں بتا سکی ہے کہ
ایچ نائن کے ارد گرد کے سیکٹرز میں ہندو برادری کی کتنی آبادی موجود ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر
کے لیے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی ، یہ منظوری وزیر برائے مذہبی
امور پیر نور الحق قادری کی وزیراعظم سے ملاقات میں گرانٹ کے لیے کی گئی
درخواست کے بعد سامنے آئی تھی۔اس سے قبل 23 جون کو ایچ نائن میں دارالحکومت
کے پہلے مندر کی تعمیر شروع کرنے کے لیے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد
ہوئی تھی۔پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی نے مندر کا
سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اسلام آبادہندو پنچائت نامی کسی این جی اونے مذکورہ
مندر کا نام بھی شری کرشنا مندر رکھا ہے۔یہی نہیں بلکہ اس سے پہلے قومی
کمیشن برائے انسانی حقوق کے حکم پر 2017 میں سی ڈی اے نے اسلام آباد کے ایچ
9/2 میں 20 ہزارمربع فٹ کا پلاٹ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس ہندو پنچایت
کو دیا گیا تھا۔ سائٹ میپ، سی ڈی اے اور دیگر متعلقہ اتھارٹیز سے دستاویزات
کی منظوری سمیت دیگر رسمی کارروائیوں کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے تعمیرات
کام شروع نہیں ہوسکا تھا۔ وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے جب
وزیراعظم سے ملاقات میں گرانٹ کی درخواست کی، اس ملاقات میں مذہبی اقلیتوں
سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کا وفد شریک تھا جس میں لعل چند
ملہی، ڈاکٹر رمیش وانکوان، جے پرکاش اکرانی، شنیلا رُتھ اور جیمز تھامس
شامل تھے۔مذکورہ وفد نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کے لیے
حکومت کے تعاون کا مطالبہ کیا جس کی وزیراعظم نے زبانی منظوری دی۔پھر سمری
وزیراعظم سیکریٹریٹ کوارسال کی گئی۔سرکاری طریقہ کار کے مطابق منظوری کی
کاپی گرانٹ کی رقم مختص کرنے کے لیے وزارت خزانہ کو بھیجی جاتی ہے جبکہ
تعمیراتی کام پاک- پی ڈبلیو ڈی (پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ) کے ذریعے انجام دیئے
جاتے ہیں۔ لعل چند ملہی کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں ہندو آبادی 3 ہزار
کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں سرکاری ملازمین، نجی شعبے کے ملازمین، کاروباری
برادری کے افراد اور ڈاکٹرشامل ہیں۔ سرکاری رسمی کارروائیاں جب جاری تھیں
اس وقت ابتدائی زمینی کام بشمول زمین برابر کرنے اور چار دیواری کھڑی کرنے
کا کام شروع کیا گیا۔کہا جا رہا ہے کہ ہندو پنچائیت اسلام آباد شری کرشنا
مندر کا انتظام سنبھالے گی ۔ اس پنچائیت کے صدر مہیش چوہدری نام شخص ہیں جن
کا دعویٰ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں بشمول سندھ اور بلوچستان سے ہندو اسلام
آباد منتقل ہورہے ہیں۔جو شمشان گھاٹ، مندر اور شادی کی تقریبات کے لیے ایک
جگہ کے دعویدار ہیں۔وہ دیوالی اور ہولی کی تقریبات حکومت کے کمیونٹی ہالز
میں منعقد کرتے ہیں۔اس سے پہلے پارلیمانی کمیٹی نے اسلام آباد میں ہند
برادری کیلئے مندر اور شمشان گھاٹ بنانے کی ہدایت کی تھی۔یہ سفارش قومی
اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت
کرتے ہوئے رمیش لال نے کی۔ اس ذیلی کمیٹی کے کنوینر رمیش لال ہیں جو حکومت
پرملک میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے الزامات عائد کرتے رہتے
ہیں۔اسلام آباد میں مندر کے قیام پر سیکیورٹی خدشات بھی پیدا ہو سکتے
ہیں۔اسلام نے بتوں کو توڑنے کی ہدایت کی ہے تا کہ انسان گمراہی سے بچ جائے
اور اسے فریب نہ دیا جا سکے کہ وہ شرک کی جانب راغب ہو۔ مگر عرب ممالک کی
طرح یہاں کے حکمران بھی کفار سے جیسے خوفزدہ ہیں اور وہ نت نئے حربے آزما
رہے ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ہم اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں کہیں اسلام سے
سرکشی اور بغاوت کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ہیں۔ |