اگرآپ نے ایبٹ آباد کی پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کیا ہو تو
سوزوکی لوڈر کے عقبی ڈالے پر چھت لگی دیکھی ہوگی۔ جی ہاں وہی چھت جس میں
پانچ پانچ نشستوں کو آمنے سامنے لگا کر مجموعی طور پر دس مسافروں کے سفر کی
ستیاناس کی جاتی ہے۔ اگر آپ کی منزل آ گئی ہو تو ڈرائیور کے بیک ویوینگ کے
لیئے لگے شیشے کو ٹھکور کر شیشہ پار بیٹھے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا بتایا
جاتا ہے۔ اگر آپ اس شیشے سے دور ہوں تو قریب بیٹھے مسافر سے درخواست کریں "
مسیر! لاک کریو ۔۔ لاک "
قارئین کرام! حیرت زدہ مت ہوں، یہ تین نشستیں جن پر پانچ افراد گھسیڑے جاتے
ہیں اس درجہ شدید آمنے سامنے ہوتی ہیں کہ جب تک گوڈے بالمقابل سواری کے
گوڈوں میں نہ پھنسائے جائیں بیٹھنا ممکن نہیں۔
خیر میرا مقصد 18+ کونٹینٹ لکھنا نہیں بلکہ ایک خوبصورت ویلی کے دلچسپ سفر
اور ہوشربا آبشار کا احوال بطورِ یادداشت لکھنا ہے۔
ہم مذکورہ بالا سوزوکی میں بیٹھے دلکش پہاڑوں میں بل کھاتی بلکہ تیز و شدید
بل کھاتی سڑک پر محو سفر تھے (تیز و شدید؟ خیر سپیلینگ تو نہیں ملتے لیکن
حسبِ ضرورت ترکیب بنا دی ہے) اولاً تین خواتین نے شیشہ "لاک" کیا اور اتر
گئیں ۔ ۔ ۔ بعد ازیں ایک بوڑھے سے مجذوب چچا شیشہ ٹھکور کر اترتے بنے۔۔ ۔ ۔
ایک وقت آیا میں ، بطوطہ ، چھوٹا بھائی عبدالرافع اور ایک اور مسافر، یعنی
ہم چاروں دس بندوں کی جملہ نشستوں پر عیاشی سے براجمان تھے۔
بطوطہ صاحب نے اجنبی شخص کو تین بار گھورا اور اس کے قریب ہو کر بیٹھ گئے۔
۔ ۔۔ حسبِ معمول تعارف نکال لیا۔ پتا چلا کہ جناب بکریوں کے ریوڑ کے مالک
ہیں اور یہی قریب "داتا گاؤں" کے رہنے والے ہیں۔ ۔ ۔ گرمیوں میں ریوڑ لیکر
بٹہ کنڈی اور اس کے مضافاتی چراگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ ۔ ۔
" جی بھائی! وہاں تو میرے قریبی جاننے والے چاچا غلام نبی بھی ہوتے ہیں "
عبید بھائی نے شبیر نامی اس گڈریئے کو حیران کر دیا۔
"ہاں بالکل ہوتے ہیں، مگر آپ کیسے جانتے ہیں؟" شبیر حیرت بھرے انداز میں
گویا ہوا
"آپ یوں سمجھ لیں کہ ہم لنگوٹیا یار ہیں۔ انہوں نے مجھے اس بار وہاں قیام و
طعام کی دعوت بھی دے رکھی ہے۔۔ ۔ ۔ میں جاؤں گا ان سے ملنے" عبید بھائی نے
اپنے دوست کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔ ۔ ۔ ۔ اور شبیر بھی اس قدر گہرے
تعلق اور رشتے پر دھنگ رہ گیا۔
شبیر نے گاڑی سے باہر کے مناظر سے گہری نگاہ سے دیکھا، گہرا سانس بھرا۔ ۔ ۔
توقف فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ اور عبید بھائی کی طرف مڑے " بھائی جان ! یہ جو مجذوب
سے بوڑھے بابا جی ابھی گاڑی سے اترے تھے ناں ؟ یہی چاچا غلام نبی تھے ۔ ۔ ۔
۔ " شبیر پھر سے گاڑی سے باہر معنی خیز نظروں سے جھانکے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا اور عبدالرافع کا بےساختہ ہاسا نکل گیا۔ ۔ ۔ ۔ عبید بھائی کے چہرے کے
رنگ اُڑ چکے تھے۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ان کے چہرے کو بغور دیکھا وہ تقریباً "کلر
لیس" یا زیرو کنٹراسٹ بلکہ بلیک اینڈ وائٹ ٹائپ کوئی چیز لگ رہی تھی۔ ۔ ۔
۔پسینہ ان کے چہرے یوں امڈ آیا جیسے تنور کے بالمقابل کھڑے ہوں۔ ۔ ۔ ۔ حلق
غالباً خشک ہو چکا تھا۔ ۔ ۔ ۔
ہمیں لگ رہا تھا کوئی زندہ لاش ہمارے ساتھ بیٹھی ہے۔ ۔ ۔ عبید بھائی نے بچی
کھچی تمام تر توانائی یکجا کی اور ہمت کر کے ہاتھ بڑھا کر شیشہ " ٹھکور"
دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چونکہ ہم ترنوائی گاؤں کے راستے سے قبل سے گاڑی سے اتر گئے بلکہ بھاگ گئے
تھے ۔ ۔ اس لیئے ہمیں سڑک کے بجائے گاؤں کو جانے والی پگڈنڈی سے گاؤں تک
پہنچنا تھا۔ ۔ ۔ دیکھنے میں گاؤں کافی چھوٹا لگ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور رافع کے
بقول گاؤں کافی بڑا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے گاؤں کے حجم /
جسامت/ پھیلاؤ پر غور ہی نہیں کیا تھا کیونکہ ایک تو شبیر بھائی نے جو عبید
بھائی کو "تھپڑ" رسید کیا تھا اس کا صدمہ ۔ ۔۔ ۔ اور ثانیاً ہمیں آبشار تک
پہنچے کی تشنگی اس قدر تھی کہ رستے میں آنے والی ہر شے ہمیں بلَر دکھائی دے
رہی تھی بشمول شبیر بھائی کے ۔۔ ۔۔ ۔ ہم نے گاؤں کے شمالی کونے سے آبشار
اور اس سے ملحقہ شفاف پانی کے نالے کی طرف اترنا شروع کیا۔ ۔ ۔ یہ وہ
بیابان نُکڑ تھی جہاں گاوں کے لوگ کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں ۔ ۔ ۔قریب سو میٹر
تک تو رستہ گاؤں کی گندگی سے لبریز ہے۔ ۔ ۔ شکر ہے وہاں سے آگے ابھی تک
انسانی آبادی نہیں الحمدللہ۔۔
اچانک سے ہریالی سے لہلہاتے درختوں کے جھنڈ خوش آمدید کہنے لگے۔ ۔۔ سبزے سے
بھرپور قالین جیسا سبزہ مسلسل قدم بوسی کرنے لگا۔ ۔ ۔گاؤں سے لیکر نیچے
نالے تک تیز قدموں سے چلیں تو سات منٹ کا سفر ہے۔ ۔ یہ اترائی بڑی دلکش ہے۔
۔۔ آپکو جیسے اپنے قدموں میں بل کھاتا نالہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور آپ
سکون کے سانس لیتے ،ٹھنڈک سے بھرپور آکسیجن سے سانس لیتے اترتے چلے جاتے
ہیں ۔ ۔۔ دل چاہتا ہے کہ یہی بیٹھ جائیں اور اس منظر میں عمریں گزار دیں۔ ۔
۔ ۔
میں نے بے ساختہ عبید بھائی سے پوچھا" یار پاجی! کتنا سکون ہے ناں یہاں، آج
تو جیسے سالوں بعد اتنا سکون میسر آیا"
عبید بھائی کی ناک ایسے کھنچی ہوئی ماتھے میں گھس رہی تھی جیسے کسی ضدی بچے
کی ضد اپنے عروج پر ہو۔ ۔۔ پتا نہیں عبید بھائی کو کیا ہوا ہوا تھا۔ ۔۔ ۔
وہ ایک لفظ بھی بولے بنا تیزے سے آگے گزر گئے۔ ۔ ۔ ۔ شائد انہیں اپنے دوست
چاچا غلام نبی یاد آ رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم نالے تک پہنچتے ہی پانی میں اتر گئے۔ ۔ ۔ حالانکہ آبشار یہاں سے دو تین
سے میٹر مشرق کی طرف گھنے درختوں اور طلسماتی بل کھاتی تنگ گھاٹی میں تھی۔
۔ ۔ ۔ اور نالے کے اطراف سے اس سمت جانے کا راستہ بھی تھا۔ ۔ ۔ لیکن ہم
پانی میں اترے بغیر نہ رہ سکے۔ ۔ ۔ ۔
مناظر لونگ ایکسپوژر طلب تھے۔ ۔ ۔ اور حیف کہ ہمارے پاس ٹرائے پوڈ ہی نہیں
تھا۔ ۔ ۔ میں ہر منظر کے سامنے مطلوبہ زاوئیے سے عکاسی کیلیئے مناسب پتھر
ڈھونڈ کر اس کے پیچھے مورچہ زن ہوتا۔ ۔ ۔ اور جونہی عکس بنانے لگتا عبید
بھائی بھاگتے ہوئے آتے "اوئے۔ ۔ ۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ جلدی آؤ۔ ۔
۔آگے تو جیسے جنت ہے جنت۔"
"یار بس۔ ۔ ۔ ایک تصویر بنانے دیں، پھر چلتے ہیں ۔۔ ۔ " میں اپنی محنت ضائع
نہیں ہونے دیتا چاہ رہا تھا لیکن بطوطہ صاحب گھسیٹ گھساٹ کر آگے لے چلے۔ ۔
۔
آگے تو واقعی ہوش رہا منظر تھا۔ ۔ ۔ تنگ گھاٹی میں قریب سو فٹ بلندی سے
بہتی آبشار۔ ۔ ۔ اور آبشار کے پانی کے عقب میں پرندوں کے گھونسلے۔ ۔ ۔ اور
بیشتر گھونسلوں میں انڈے۔ ۔ ۔ بعض میں منہ کھولے ننھے بچے۔ ۔ ۔ ۔ آبشار کا
پانی مکمل دودھلے رنگ کا تھا جیسا اوپر سے پانی کا نہیں بلکہ دودھ کا چشمہ
رواں ہو۔ ۔ ۔ ۔
آبشار کے بالکل سامنےایک پندرہ فٹ کی بلند چٹان تھی ۔ ۔ ۔ چٹان اور پہاڑی
کے درمیان بالکل تنگ سا گیپ کا جس میں سے اکیلے بندے کا چڑھنا کافی دشوار
تھا۔ ۔ ۔ یہ گیپ کافی عمودی تھا اور چٹان سے مسلسل پانی کا بہاؤ اسے کافی
حد تک پھسلن زدہ کر رہا تھا۔ ۔ ۔ میں یہاں بھی ایک مناسب پتھر دیکھ کر
تصویر لینے کیلیئے تقریباً پانی میں لیٹا تاکہ چھ سیکنڈ کی تصویر لیتے وقت
کیمرے میں کوئی حرکت نہ آئے۔ ۔ ۔ یہ کافی صبرآزما کام ہوتا ہے۔ ۔ اور محنت
طلب جگاڑ ۔ ۔ ۔ کیونکہ ٹرائے پوڈ اور پتھر میں سپیلینگ سے لیکر کام تک۔ ۔ ۔
ہر شے میں کافی فرق ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔
ابھی تصویر بنانے ہی والا تھا کہ بطوطہ صاحب حیرت زدہ منہ لیئے حاضر ہوئے ۔
۔۔ " اوئے یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔ ۔ ۔ یہاں سے پیچھے تو جنت ہے جنت۔ ۔ ۔
جلدی کرو ۔۔۔۔ چلو چلو۔ ۔۔ "
میں پھر سے پانی سے اٹھا کیمرہ محفوظ کر کے اس تنگ عمودی چٹان سے گیپ کی
طرف بڑھنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ وہاں جا کر دیکھا تو واقعی ایک لاجواب اور حیرت انگیز
منظر تھا۔ ۔ ۔ ۔سبز قالین سے آراستہ قدرتی ڈیکوریشن ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر۔۔۔۔ بے
ساختہ سر سجدے میں جھک گیا۔ ۔ ۔
وہاں درجن ہا چشمے ابل رہے تھے ۔ ۔ ۔ اوپر سے بھی ٹپ ٹپ پانی کے قطرے
متواتر ٹپک رہے تھے۔ ۔ ۔ سبز قالین کی تہہ قریباً چار انچ موٹی تھی۔ ۔ ۔ ہم
سب ادھر بیٹھ گئے۔ ۔ ۔ ۔کافی دیر تک اس حسن سے سحر میں ڈوبے رہے۔ ۔ ۔ ہم
دنیا سے مکمل روابط منقطع کر بیٹھے تھے۔ ۔ ۔ ہر شے کو چھو کر محسوس کر رہے
تھے کہ کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے۔ قریب آدھ گھنٹے کے بعد مجھے خیال
آیا کہ تصاویر ۔ ۔ ۔ میں پھر سے کسی مناسب پتھر کے عقب میں لیٹا اور کیمرے
کی ترتیبات سیدھی کی۔ ۔ ۔
"اوئے اوئے۔ ۔ ۔ عاقب! یہ تو کچھ بھی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ چلو چلو۔ ۔ ۔ آگے تو
جیسے جنت ہے جنت۔ ۔ ۔ جلدی چلو کیا منظر ہے پانی کا " بطوطہ صاحب کا ہاتھ
میرے گریبان پر تھا۔ ۔۔ اور وہ مجھے گھسیٹ رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
ہم مزید آگے بڑھے۔ ۔۔ اب ہم ایک تنگ گھاٹی میں پہنچ چکے تھے جس کے دونوں
اطراف ہزاروں فٹ تک گھنا، بلکہ شدید گھنا چیڑوں کا جنگل تھا۔ ۔۔ ۔ یہ اس
درجہ عمودی اور کٹھن جنگل تھا کہ اس میں چڑھنا ناممکن تھا۔ ۔ ۔ ۔ گھنی
جہاڑیاں اور نہایت گھنا جنگل ۔ ۔ اور اس میں بہتا شور مچاتا بھنور اور
گرداب سے بھرپور پانی ۔ ۔ ۔ اپنے تئیں ایک خوف و ہراس کا منظر بھی پیش کر
رہا تھا۔ ۔ ۔ اور ساتھ ہی ساتھ دلکشی میں بھی ایسے پرکشش کہ انسان یہیں بس
جانا چاہے۔ ۔ ۔ ۔ زرا آگے گئے تو پانی کے اطراف میں پانی کے بہاؤ سے کٹی
چٹانیں گہرا سنہری رنگ عیاں کر رہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ کافی بلند تھیں۔ ۔ ۔ ۔ان
کے درمیان پانی کافی مقدار میں جمع ہو کر مکمل سویمنگ پول بنا رہا تھا۔ ۔۔
اور بیک گراؤنڈ میں بہتی گھنی شوریدہ آبشار منظر کی تکمیل میں آخری کیل
ٹھونک رہی تھی۔ ۔ ۔ اس منظر نے تو ہمیں مکمل مجنوں بنا دیا۔ ۔ ۔ ۔ ایسا
منظر کیلیفورنیا کے ایک فوٹوگرافر نے دکھایا تھا۔ ۔ ۔ ہم تو یہی سوچ رہے
تھے کہ نہ ہم نے دشمن دیش جانا ہے اور نہ کبھی سچی آنکھوں سے سچا منظر دیکھ
پائیں گے ۔۔ ۔ ۔ لیکن پروردگار نے دل کی آہ سنی اور میرے گھر سے محض پانچ
سات میل کی مسافت پر ہی ایسا منظر عیاں کر دیا۔ ۔ ۔ الحمدللہ
میں ہیک واری فیر لونگ ایکسپوژر کیلیئے لیٹنے والا تھا کہ عبید بھائی کو
چوری نگاہ سے دیکھا۔ ۔ ۔ وہ بھی میرے لیٹنے کا انتظار کر رہے تھے کہ یہ
لیٹے اور میں اٹھاؤں ۔ ۔۔ سو، میں نے عبید بھائی کو ناکام کرتے ہوئے کیمرہ
واپس بیگ میں ڈال دیا۔ ۔ |