اِسے قانون فطرت کہہ لیں یا انسان کی اپنی غلطیاں اور
کوتائیاں کہہ لیجیے کہ تقریباً ہر سوسال بعد ایک ایسی ہی خوفناک بیماری وبا
ء کی صورت اختیار کر لیتی ہے کہ جس سے لاکھوں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں ،
یہ قدرت کی جانب سے انسانوں کو ایک وارننگ ہوتی ہے کہ وہ اب بھی سنبھل جائے
مگر انسان نہیں سنبھلتا ۔ حالیہ دنوں میں پھیلنی والی وبا ء کورونا وائرس
سے قبل دُنیا میں متعدد بیماریاں وباؤں کا روپ دھار چکی ہیں ‘ لیکن ہم نے
ماضی سے سبق نہیں سیکھا ٗ جب آپ ماضی سے آنکھ بند کر لیتے ہیں تو آنے
والے وقت سے بھی نابینا ہو جاتے ہیں ۔
اب جبکہ کورونا وائرس ہم پر تکالیف، بے آرامی اور موت کے پہاڑ توڑے جا رہا
ہے تو ایسے میں گزرے وقتوں اور ماضی کی وباؤں پر غور و فکر کرنا ہرگز ایک
غلط فیصلہ نہیں ہوگا،دیگر الفاظ میں کہا جائے تو دُنیا گزشتہ صدیوں میں اس
سے بھی بدترین عالمی وباؤں کا سامنا کرچکی ہے ۔
ٍٍٍ
ان میں سے چند نے تو تہذیبوں تک کو تباہ کرنے کے ساتھ ہی شہروں ، قبیلوں
اور قوموں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ۔ جس طرح کورونا وائرس سماجی سرحدوں
سے نا آشنا ہے ٹھیک ویسے ہی قدیم وبائیں بھی جسمانی و سیاسی سرحدوں کو
آسانی سے عبور کرتی چلی گئیں ۔ پھر آج ہی کی طرح عالمگیریت نے ایسی وباؤں
کے پھیلاؤ میں مرکزی کردار ادا کیا ۔
تیسری صدی عیسوی میں رومی سلطنت میں ایک ڈراؤنا طاعون کچھ اس طرح پھیلا
جیسے مکھن میں گرم چھری چلتی ہے ۔ ایبولا جیسا طاعون آنتوں کو پگھلا دیتا
تھا اور متاثرہ شخص کی آنکھوں سے خون بہنے لگتا اور پیر گلنا سڑنا شروع
ہوجاتے تھے ۔ اس ہولناک موت کے رقص نے رومی سلطنت کی اس قدر کمر توڑ دی کہ
یہ انتشار اور انارکی کا شکار ہوگئی،آگے چل کر جب اس سلطنت نے خود کو
دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہا اور اپنا درالخلافہ قسطنطنیہ منتقل
کیا تو اسے ایک بار پھر عالمی وباء نے اٹھا کر پٹخ دیا ۔
مغرب کی طرف پھیلتی اس وبا ء کا آغاز چین سے ہوا تھا ۔ بیوبونک طاعون کے
بارے میں بہت سی جگہوں پر یہ پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ اس کے جراثیم
جوں پر سوار تھے اور پھر یہ جوں مغرب کو جانے والی بیڑوں پر سوار چوہوں پر
چڑھ گئی تھی ۔ اسکندریہ میں ان پر قسطنطنیہ کے درآمد کردہ اناج کو لاد دیا
گیا تھا ۔ پھر اس مال کو پورے یورپ میں بیچا گیا جہاں یہ جراثیم طاعون کی
عالمی وباؤں کا باعث بنا جس کے سبب سیکڑوں ہزاروں لوگوں کی موت واقع
ہوئی،گلی کوچوں میں لاشیں سڑنے گلنے لگیں کورونا کی طرح اس نے بھی امیر ،
غریب میں فرق نہیں کیا ۔
چھٹی اور ساتویں صدی میں بازنطینہ میں پھیلنے والے جسٹینین طاعون کے باعث
دسیوں لاکھ افراد سنگین حالات اور تکالیف سے گزرے،تاریخ دان سمجھتے ہیں کہ
اس دور میں مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی اموات
کے باعث طاقت کا توازن اس وقت شمالی یورپ کی طرف جھکا جب بالکن اور یونان
میں سلاوی حملوں ، اٹلی میں لومبارڈی یلغاروں اور بازنطینہ قبضوں نے اس وقت
کے عالمی نظام کو کمزور کردیا تھا ۔ خطہ عرب میں عمواس طاعون کی وجہ سے 25
ہزار مسلمان سپاہی مارے گئے تھے ۔
اگر ہم کورونا وائرس کو انسانی تاریخ کی بدترین عالمی وبا سمجھ رہے ہیں تو
ذرا سیاہ موت کو ذہن میں لائیں جس نے 14ویں صدی میں پورے یورپ میں تباہی
مچائی تھی ۔ 1347ء میں سسلی میں لنگر انداز 12 بحری بیڑوں سے شروع ہونے
والی اس وباء نے یورپ اور شمالی افریقہ میں 7 کروڑ 50 لاکھ سے 12 کروڑ
زندگیاں نگل لی تھیں ۔ یہ تعداد 47 کروڑ 50 لاکھ آبادی کا 30 سے 60 فیصد
بنتی تھی ۔ آبادی کو اپنی اصل تعداد بحال کرنے میں 200 برس لگے ۔ چنانچہ
آج جب ہم چند ہزار زندگیوں کے نقصان کی بات کر رہے ہیں تو یہ حقیقت میں
ماضی میں انسانیت کو اپنا شکار بنانے والی وباؤں کے سبب ہونے والے جانی
نقصان کے مقابلے میں ایک معمولی سا عدد دکھائی دیتا ہے ۔
19ویں صدی میں (ایک بار پھر) چین کے صوبے یننان سے طاعون پھیلنا شروع ہوا
اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ افراد کوموت کے
گھاٹ اتار دیا ۔ اس وقت 10 لاکھ اموات بھارت میں ہوئی تھیں اور وبا ء سے
بندرگاہی شہر مبئی، کلکتہ اور کراچی متاثر ہوئے تھے ۔ ان دنوں ویکسین منظرِ
عام پر آنے والی تھیں ۔ گنجان آباد پسماندہ قصبوں نے مرض کو تیزی سے
پھیلنے میں مدد دی جبکہ نکاسی آب اور بنیادی صفائی کی سہولتوں کے فقدان نے
متعدد بڑی آبادیوں کے لیے خطرات بہت زیادہ بڑھا دیے تھے، اس کے علاوہ
;39;سماجی فاصلے;39; کو گھنی آبادی والے علاقوں کے لیے قابلِ عمل تصور
نہیں کیا گیا ۔
طبّی سائنس کی اس قدر ترقی کے باوجود بھی آج ہم وقتاً فوقتاً (مرس، ایبولا
وغیرہ) عالمی وباؤں کا شکار بنتے جا رہے ہیں ۔ انفلوئنزا (وبائی زکام)
دراصل وائرس کے ذریعے پھیلنے والا مرض ہے اور کورونا وائرس کا معاملہ بھی
کچھ مختلف نہیں ۔ اگرچہ مؤخر الذکر زیادہ مہلک ہے لیکن مؤخر الاول سے سال
میں 20 لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ یہ دونوں نمونیا اور
موت کا باعث بنتے ہیں ۔ 1980ء کی دہائی میں جب ایڈز کا مرض پہلی بار
منظرِعام پرآیا;46; برسا برس گزر جانے کے بعد آج اس کا علاج ڈھونڈ لیا
گیا ہے اور ایڈز ایسے امراض کی ایک طویل فہرست کا حصہ بن چکا ہے جو ڈاکٹر
اور محققین کو مصروف رکھتی ہیں ۔
دراصل کورونا وائرس پر ہمارا ردِعمل ہی اسے دیگر عالمی وباؤں سے الگ بناتا
ہے ۔ خود ساختہ تنہائی اور سماجی فاصلہ اپنانے سے زیادہ تر لوگ اپنی
ملازمتوں ، کاروبار اور ذاتی تعلقات سے منقطع ہوکر رہ گئے ہیں ، جس کی وجہ
سے ہماری معیشت کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ بُری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ آج
بھی اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور بروقت تیاری نہ کی، اور سائنسدانوں ،
ماہرین کی طرف سے بار بار متنبہ کرنے کے باوجود چپ سادھ لی تو یقینا قدرتی
آفات زمین کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں ، کیا ہم بھی تیار ہیں ۔بل گیٹس
نے 2015 میں بھی ایک عالمی وبا ء کے متعلق پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا
دُنیا اگلی وبا کیلئے تیار نہیں ۔ بل گیٹس نے پانچ سال قبل کہا تھا کہ وبا
ء پوری دُنیا پھیل سکتی ہے کیوں کہ تمام ممالک آپس میں جڑے ہوئے ہیں ۔
مائیکرو سافٹ کے بانی نے یہ بھی کہا کہ’’ ہوسکتا ہے اگلی صدی میں بیماری
قدرتی طور پر پھوٹے یا بطور ہتھیار استعمال کی جائے ۔ مائیکرو سافٹ کے بانی
نے کہا تھا کہ دُنیا کو وبائی امراض کیلئے تیاری کرنی ہو گی جیسے جنگ میں
محفوظ رہنے کیلئے کی جاتی۔
زلزلہ ہو یا کورونا وبا ء بار بار پیش گوئی کے باوجود پیشگی کوئی انتظامات
نہیں کیے جاتے، جس کی وجہ سے لحموں نے خطا ء کی صدیوں نے سزا پائی کے مصداق
جانی مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ اب بھی ماہرین ماحولیات نے خبردار کیا ہے
کہ کورونا وائرس جیسی مزید وبائیں پھیلنے کا خطرہ ہے ۔
معروف امریکی ماہر ماحولیات اور مصنف ڈیوڈ کوائمن کا کہنا ہے کہ جب ہم
جنگلات کو بے دریغ کاٹتے ہیں تو اس سے پورا ماحولیاتی نظام متاثر ہوتا ہے ۔
ڈیوڈ کوائمن کے مطابق جنگل میں متعدد اقسام کے حشرات الارض،جانور اور پودے
ہوتے ہیں جو کہ مختلف اقسام کے وائرس کی آماجگاہ بھی ہوتے ہیں ۔ جب ہم
جانوروں اور حشرات سے ان کا مسکن چھین لیتے ہیں تو وہ نئی جگہ کی تلاش میں
نکلتے ہیں اور اپنی بقا کی کوشش کرتے ہیں اس دوران ان میں موجود وائرس
ہمارے جسم میں منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
اسی طرح جب جنگلات سے لکڑی کاٹ کر شہر میں فروخت ہوتی ہے تو اس دوران متعدد
کیڑے مکوڑوں کے ساتھ وائرس بھی انسانی آبادی میں منتقل ہوجاتے ہیں اور
کیڑے مکوڑوں کے مرنے کے بعد انہیں نئی جگہ کی تلاش ہوتی ہے اور ایسے میں
انسانی جسم ہی ان کی آماجگاہ بنتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر ماہرین ماحولیات
کا بھی کہنا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور قدرتی ماحول کی تباہی وباؤں کے
پھلنے اور ان کے خطرناک ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ
وباؤں سے مقابلہ کرنا ہے تو آب وہوا کو صاف ستھرا رکھنا نہایت ضروری ہے ۔
ہ میں بروقت اقدامات/منصوبہ بندی سے انسانی، معاشی نقصان سے بچنا ہو گا ۔
|