تعارف و پس منظر
بہترین عبادت بہترین لوگوں کی حکومت کا قیام ہے باقی تمام عبادات اس سے کم
درجہ کی ھیں کیونکہ حکومت اگر برے لوگوں کی ہو تو باقی عبادات بے معنی ہو
کر رہ جاتی ھیں یہی لا الہٰ الا اللّه کی عملی تفسیر اور منشائے فطرت ہے کہ
لغت غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی
اس لیےہر قوم قبیلہ گروہ ملک و سلطنت دین یا نظریہ صدیوں سے اپنی بقا اور
ترویج کے کیلئے ایک فعال موثر غیر جانبدار اور انصاف پسند سردار جرگہ
پنچائت انتظامیہ یا حکومت کا محتاج اور متمنی رہا ہے جو لوگوں کے درمیان
انصاف سے فیصلہ کر سکے ان کے آپس کے معاملات بہ خوبی نمٹا سکے اور بیرونی
خطرات و معاملات سے نبرد آزما ہونے کیلئے مناسب رہنمائی اور قیادت مہیا کر
سکے
معروف اشکال حکومت
1۔ بادشاہت
یہ ایک مطلق العنان اور مختار کل شخص کی حکومت ہے جو کسی کو جوابدہ نہیں
ھوتا حکومت اسی کے خاندان میں رہتی ہے عدل و انصاف بادشاہ کی مرضی و منشا
اور پسند و ناپسند پر منحصر ھوتا ہے جو کہ اچھا اور برا بھی ہو سکتا ہے مگر
اس پر عوام کا کوئی اختیار نہیں ھوتا نہ تو بادشاہ کو فراہمی انصاف کے لئے
مجبور کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے بغیر جنگ و جدل کے ہٹایا جا سکتا ہے اسلئے
یہ نظام آج کے دور کی ضروریات پورا نہ کرنے کے باعث سوایے مشرق وسطی کی چند
ریاستوں کے دنیا سے نا پید ہو چکا ہے
خلافت بر مقام ما گواہی است
حرام است آنچہ برما شاہی است
2۔ آمریت
جب کوئی شخص مسلح گروہ کی مدد سے بزور بازو حکومت پر قبضہ کر کے اپنی حکومت
قائم کرلیتا ہے تو یہ شخصی آمریت کہلاتی ہے جو کہ عمومآ فوجی بغاوتوں کی
صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہے اور عوام کو جوابدہ نہیں ہوتی ایسی حکومت کی
اچھائی اور برائی کا دارو مدار آمر کی شخصیت اور رحجانات پر منحصر ھوتا ہے
"ضیا الحق ھوا تو مسجد مشرف ھوا تو میخانہ"
وطن عزیز بھی کئی بار یہ نظارہ کر چکا مگر یہ حقیقی شخصی آمریتیں نہ تھیں
بلکہ سیاست کے رنگ میں رنگی ہوئی اداراتی آمریتیں تھیں جو اکثر محلاتی
سازشوں کے نتیجے میں رونما ہوئیں اور سیاستدانوں ہی کے تعاون سے پروان
چڑھتی رہی ھیں ملک میں سیاسی طبقاتی تقسیم کا باعث تو بنیں مگر بے لاگ
انصاف کی ضمانت فراہم کرنے میں ناکام رہیں البتہ سیاسی بازیگروں کی
قلابازیوں سے تنگ آ کر عوام اکثر اوقات بہتری کی امید میں اس بنا پر
اسٹیبلشمنٹ سے مداخلت کی درخواست کرتے رہتے ھیں
اب بوہے گل نہ باد صباء مانگتے ھیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ھیں لوگ
جوش
3۔ عوامی انقلاب
حکومت وقت کے خلاف کامیاب عوامی بغاوت یا مسلّح جد و جہد کے نتیجے میں سول
وار قتل و غارت گری اور خون ریزی کے بعد قائم ہونے والی انقلابی حکومت
کہلاتی ہے انقلاب روس فرانس اور ایران کی مثالیں دی جاتی ھیں مگر یہ ایک
انتہائی اقدام ھوتا ہے جو تباہی و بربادی، آگ اور خون کا دریا عبور کر کے
حاصل ھوتا ہے بہر حال حکومت سازی کا مسلہ پھر بھی در پیش رہتا ہے ظلم و ستم
سے نجات اور حصول عدل و انصاف کے عوامی خواب اکثر شرمندہ تعبیر ہونے سے
محروم رہ جاتے ھیں اور بسا اوقات عوام کو انقلابی آمریت کے آھنی شکنجے میں
کس دیا جاتا ہے جسے کیمونسٹ انقلاب میں لینن سٹالن اور خروشیف کی مثالوں سے
بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جب انسانوں میں سیلف ڈسپلن یا خود احتسابی ( تقویٰ)
نہ رہے اور عزت نفس کی بجاے خود ستائی اور فسطائیت کو ترجیع دی جانے لگے تو
چیک اینڈ بیلنس کا نظام بے حد ضروری ہو جاتا ہے ورنہ تاریخ انسانی کا اتنا
عظیم اور شاندار انقلاب بھی قیام عدل و انصاف و مساوات کے بنیادی مقاصد
پورے کرنے میں ناکام رہتا ہے حکیم مشرق نے اس داعی انقلاب کی تحسین ان
الفاظ میں کی تھی
وہ کلیمؑ بےتجلی وہ مسیحؑ بےصلیب
نیست پیغمبؐر و لیکن در بغل دارد کتاب
اکثر احباب تلخی حالات اور سنگینی عدل و انصاف کی بگڑتی صورت حال کو دیکھتے
ھوئے انقلاب کی بات کرتے ھیں مگر وطن عزیز کے مخصوص معروضی حالات اور عوامی
رحجانات کے باعث تا حال اس طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا لہذا خونی انقلاب کی
آپشن بھی کچھ زیادہ قابل ستائیش اور فل وقت قابل عمل نظر نہیں آتی البتہ
فکری انقلاب کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے جسے ہم کھٹکھٹانے کی کوشش کر
رہے رھیں
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمَم کی حیات کشمکش انقلاب
4۔ جمہوریت
بظاہر کثرت رائے عوام کی حکومت! مغربی عددی جمہوریت بھی اکثر ممالک میں
مفاد پرست لالچی اشرافیہ کا حکومتی ہتھکنڈہ بن کر رہ گئی ہے اور عوام کو
مساوی حقوق اور انصاف مہیا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے درحقیت اس کی روح
سیاسی گروہوں ، جماعتوں اور لیڈروں کی آمریت میں تبدیل ہو چکی ہے اب صرف
نام میں جمہوریت کا لفظ باقی ہے جس کا جمہور کی غالب آراء سے دور دور تک
کوئی واسطہ نہیں ہے
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کےپردوں میں نہیں غیراز نواے قیصری
سیاسی جماعتوں کا نامزد کردہ امیددوار دھوکہ دہی فراڈ دولت طاقت اور
کھوکھلے نعروں کی بنا پر منتخب ہونے کے بعد اگلی مدت انتخاب تک عوام کو
جوابدہ نہیں ھوتا اور اسطرع یہ نظام حکومت اشرافیہ کی بجاے بدمعاشیہ کی
حکومت کا نظام بن کر رہ گیا ہے اور وہ جمہوریت جس کا نعرہ کبھی "لوگوں کی
حکومت لوگوں کی مرضی سےلوگوں کیلئے" ھوا کرتا تھا (The Government of the
people by the people for the people) آج تبدیل ہو کر " لوگوں کی نہیں
لوگوں کو خرید کر لوگوں سے دور حکومت" بن چکی ہے (The Government Off the
people Buy the people & Far the people) تو پھر مسلے کا حل کیا ہے؟
مسلماں فقر و سلطانی بَہُم کرد
ضمیرش باقی و فانی بَہُم کرد
و لیکن اللاماں از عصر حاضر
سلطانی بہ شیطانی بَہُم کرد
5۔ اسلامی طرز حکومت
دین اسلام دین فطرت اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ
خالق کائنات اور بانی اسلامؐ تکمیل دین کے مشکل ترین مراحل کے بعد اس کے
تحفظ و ترویج کی اہم ذمہ داری کیلئے قیام حکومت کے انتظام و انصرام اور
طریقہ کار وضع کرنے سے قاصر رھے ھوں؟
اس کائنات ارضی میں علم و حکمت رشد و ہدایت آئین و قانون کا منبع و مرکز و
ماخذ تو آپؐ ہی کی ذات گرامی سے ضوفشاں ہے جس کی بدولت صحرا عرب کے چرواہے
دنیا کو تہذیب و تمدن اور آئین و قانون کی تعلیم سے منور کرتے رہے اور آج
تک شمع علم کے متلاشی اپنے چراغ علم لےکر اسی منبع نورِ کا طواف کرنے پر
مجبور ھیں
ہر کجا بینی جہان رنگ و بو آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زنور مصطفیٰؐ او را بہا است یا ہنوز اندر تلاشِِِ مصطفیٰؐ است
اندریں حالات مسلمانوں سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ آپؐ کا دیا ھوا نظام حیاتِ
امورِ رموزِ سلطنت کہاں کھو گیا؟ آج ہمیں اسی سوال کا جواب تلاش کرنا ہےجو
انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دہندہ اور طویل شب غم کی سحر کا پیش
خیمہ ہو سکتا ہے
تو پھرسوال یہ کہ وہ اسلام کا درخشاں سیاسی نظریہ قیام نظام حکومت کیا ہے ؟
ابتدا اسلام کے ربیع صدی نظام حکومت کا سیاسی مطالعہ کرنے سے یہ بات واضع
طور پر سامنے آتی ہے کہ اسلام کا نظریہ نظام حکومت عدل و انصاف اور آعلیٰ
اخلاقی اقدار (قرآن و سنت) پر مبنی وقت کے بہترین نفوس پر مشتمل حکومت کا
قیام ہے جسے جمہور صاحب الراے کی غالب اکثریت کی حمایت حاصل ہو! سادہ الفاظ
میں امت کے صائب الراے افراد کی نظر میں امت کے بہترین آدمی کی حکومت جسے
خلیفہ یا امیر کہا جاتا ہے
خلفاءالراشدین
جناب رسالت مآبؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ فرما
کر حکومت سازی کے معاملات کو مسلمانوں کے اجتماہی تدبر اور فراست پر چھوڑ
دیا کہ وہ اسے بروئے کار لاتے ہوے آپؐ کے بتایے ہوے اصولوں کی روشنی میں
جسے چاہیں اپنا امیر بنا لیں آپؐ کی فراست ابدی نے امت کو رہنما اصول عطا
کر کے کسی ایک طریقہ کار انتخاب پر پابند اور جامد کرنا مناسب نہیں سمجھا
بلکہ آنے والے وقت کے مسلمانوں کے اجتماہی تدبر اور مشاورت کیلئے متحرک
چھوڑ دیا کہ وہ اپنے وقت اور حالات کے مطابق اتفاق راہے کا طریقہ کار وضح
کر کے سربراہِ حکومت کا انتخاب کر سکیں اگر خلفائے راشدین کے طریقہ کار
انتخاب کا تاریخی اعتبار سے سیاسی تجزیہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل حقائق
سامنے آتے ھیں
1۔ جناب ابوبکر صدیقؓ
رسولؐ خدا کی وفاتِ حسرت آیات کے بعد اجتماع مہاجرین و انصار( صاحب الراے)
کی متفقہ رائے سے امت کے بہترین فرد کے طور پر آپؓ کا انتخاب عمل میں آیا
2۔ جناب فاروقِ آعظمؓ
امت کے بہترین فرد کا میرٹ پر نامزد کردہ بہترین آدمی جس پر تاریخ نے اپنی
مہر تصدیق ثبت کر دی صاحب الراے کی متفقہ آرا سے منتخب ہوہے
جناب ابوبکرؓ نے فرداً فرداً تمام سرکردہ لوگوں سے رائے لی کہ آپ کی نظر
میں آپ کےعلاوہ حکومت کے لئے بہترین آدمی کون ہے تو سب کی زباں پر ایک ہی
شخصیت کا نام تھا عمرؓ ابن الخطاب
3۔ جناب عثمانِ غنیؓ
تاریخ کے بہترین آدمی کی امت کے بہترین افراد ( عشرہ مبشرہ) پر مشتمل تشکیل
کردہ کمیٹی کی کثرت رائے سے آپ کا انتخاب عمل میں آیا
4۔ جناب علی المرتضٰیؓ
شہادت عثمانؓ کے بعد جناب ابوبکرؓ کی طرز پرامّت کے صائب الراے اور عامة
المسلیمین کی متفقہ رائے سے بلا شرکتِ غیرے امت کے بہترین فرد کے طور پر
آپؑ کا انتخاب عمل میں آیا
5۔ جناب حسن مجتبٰیؐ
شہادت علیؓ کے بعد جناب ابو بکرؓ و علیؓ کی طرز پر امت حجاز کی متفقہ رائے
سے امت کے بہترین فرد کے طور پر آپؑ کا انتخاب ھوا مگر آپ جلد ہی مفاد امن
امت کی خاطر دستبردار ہو گئے یوں خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور امت آمریت
کے حوالے ہو گئی
خلفائے راشدین کے طریقہ کار انتخاب کے مطالعہ سے دو اہم سیاسی اصول وضع
ھوتے ھیں
1۔ قوم کے صائب الرائے افراد کے متفقہ فیصلہ سے قوم کے بہترین آدمی کا
انتخاب
2۔ مندرجہ بالا پانچوں شخصیات میں سے کسی ایک نے بھی خود کو نمائندہ یا
امیدوار کے طور پر پیش نہیں کیا اور نہ ہی اپنے انتخاب کے لئے کسی قسم کی
مہم جوئی یا لابنگ کرنے کے مرتکب ھوئے کیونکہ رسولؐ اللہ کا یہ فرمان ان
کے پیش نظر تھا "با خدا ہم نےآج تک کسی ایسے شخص کو کوئی حکومتی عہدہ نہیں
دیا جس نے خود اس عہدہ کے لینے کی خواہش کا اظہار کیا ھو" (حدیث ابو موسی
اشعریؓ 4716 صحیع مسلم) اس سے تین باتیں کھل کر سامنے آ گئی ھیں
1۔ حکومت کرنا قوم کے بہترین افراد کا حق ہے
2۔ انتخاب صائب الرائے افراد کی متفقہ راے یا غالب اکثریتی رائے سے ہو گا
3۔کوئی شخص خودکو امیدوار نامزد نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنے حق میں کسی
قسم کی مہم چلا کر پرچار کر سکتا ہے کیونکہ رسولِؐ خدا نے فرمایا: " امارت
کبھی طلب نہ کرنا اگر تم کو طلب کرنے سے ملی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ
گے اور اگر تمہیں مانگے بغیر ملی تواس میں تمہاری مدد ہو گی"(حدیث
عبدالرحمٰنؓ بن سمرہ 4714 صحیح مسّلم)
علما حق اور مسلم حکمران!
بعد میں آنے والے خاندانی حکمرانوں کو امّت کے سرکردہ صائب الراے افراد اور
علماء حق کی تائید و حمایت حاصل نہ ہو سکی اور یوں کربلا کا دلخراش واقعہ
رو نما ھوا جس نے ان حکومتوں کے عدم جواز اور غاصبانہ ہونے پر مہر تصدیق
ثبت کر کے رہتی دنیا تک حق کا بول بالا کر دیا جو قیامت تک آنے والے حق
پرستوں کے دلوں کو گرماتا رہے گا آپؑ کی ذات گرامی نے اپنے خون کی آبیاری
سے حق و صداقت کا وہ پرچم بلند کیا جو تا ابد لہراتا رہے گا
تا قیامت قطح استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد
رمزِ قرآن از حسینؑ آموختیم ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم
نقش الاللہ بر صحرا نویست سطرِ عنوانِ نجاتِ ما نویست
اے صبا اےپیک دور افتادگان اشکِ ما بر خاکِِ پاکِِ او رسان
ازاں بعد آئمہ مجتہدین و آئمہ اہل بیت کی شاندار مزاحمت اور قربانیوں سے
تاریخ کے صفحات سرخ ھیں امام مالکؓ جعفر صادقؑ ابوحنیفہؓ شافعیؓ احمد بن
حنبملؓ موسیٰ کاظمؑ موسیٰ رضاؑ کی قربانیاں بے مثال ھیں مگر رفتہ رفتہ یہ
مزاحمت دم توڑتی گئی اور حکمران علماء کو دربارِ شاہی تک لانے میں کامیاب
ہو گئے اور پھر وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے!
اور اقبال کو کہنا پڑا "صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ھیں تمام" یہی وجہ ہے کہ
ملوکیت کے سایے میں پروان چڑھنے والے مسّلم مفکرین فی زمانہ قیام نظام
سلطنت الہیہٰ کے طریقہ کار کی ضرورتوں کی طرف تحقیق و رہنمائی نہ کر سکے
الغزالی کینٹکی الماوردی شاہ ولی اللہ دہلوی سید جمال الدین افغانی علامہ
اقبال ابو الاآعلیٰ مودودی ڈاکٹر علی شریعتی اور ڈاکٹر اسرار احمد تک تمام
عظیم مفکرین ایک مسلم حکمران کی انسان کامل، مرد کامل ، مرد مومن اور مرد
صالع کی حیثیت سے خوبیاں تو گنواتے ھیں مگر فی زمانہ اس تک رسائی کے طریقہ
کار یا طریقہ انتخاب پر گفتگو کرتے نظر نہیں آتے کہ اس بہترین آدمی کا
انتخاب آج کی دنیا میں کیسے عمل میں لایا جائے جو آج کی سیاسی ضرورتوں کو
پورا کرتے ہوے اس کا حل پیش کر سکے
اہم سوال؟
بہترین آدمی کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہو ؟
موجودہ مغربی جمہوری نظام اس کا جواب دینے سے قاصر ہے کیونکہ یہ نظام صرف
کاسٹ کردہ ووٹوں میں نسبتاً برتری حاصل کرنے والے امیدوار کی جیت کا اعلان
کرتا ھے جو کہ عموماً اکثریت کی حمایت سے محروم ھوتا ہے
یہ جمہوری نظام اس بات کو بھی دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا کہ آیا یہ
لوگوں کی آزادانہ راے تھی یا دھونس دھاندلی زبردستی دباؤ مفاد یا رشوت کے
زیر اثر تھی ؟
بہر حال ہر نظریہ کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے اور یہ مغرب جمہوری نظریہ بھی
اپنی عمر گزار کر ناکارہ ہو چکا اب یہ فرسودہ نظام فقط مافیا کی آماجگاہ بن
کر رہ گیا ھے اور یوں مطلوبہ نتائج دینے کا اہل اور متحمل نہیں رہا علامہ
اقبال نے اسی لئے فرمایا تھا
گریز از طرز جمہوری غلامے پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید
یعنی حکومتی معاملات سے نابلد اکثریت ایک ماہر امورخارجہ یا امور خزانہ کی
رائے کے مد مقابل کوئی معنوی حثیت نہیں رکھتی مطلب یہ کہ افراد کی راے کی
اہمیت کو کیسے ملحوظ خاطر رکھا جائے ؟ دوسری جگہ فرماتے ھیں
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ھیں تولا نہیں کرتے
اب سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ لوگوں کی رائے کی اہمیت یا وزن کی پیمائش کیسے
کی جائے ؟
کیا موجودہ جمہوری نظام عقل و فکر پر مبنی کسی اہم رائے کی اہمیت کو جانچنے
پرکھنے یا اس کے وزن کا لحاظ رکھنے کا اہل ہے ؟
بلکل نہیں یہ نظام ایک انتہائی سمجھدار اور آعلیٰ تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی
سیاسیات یا ماہر معاشیات اور ایک حکومتی معملات سے نابلد، ناخواندہ شخص کے
ووٹ کو برابر گردانتا ہے اور ان میں فرق کرنے کی تمیز نہیں رکھتا
اسی طرح یہ مغربی جمہوری نظام ہر شخص کو نمائندگی کا برابر حق نہیں دیتا
بلکہ پارٹی لیڈر کی مرضی اور مفاد پر منحصر ہے کہ نامزدگی کا ھما کس کے سر
پر بیٹھے گا جس کا اس کی اہلیت و قابلیت سے کوئی سروکار نہیں ھوتا جوکہ
بذات خود انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے
خشت اول چوں نیہد مہمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
مروجہ جمہوری نظام امیدوار کی قابلیت لیاقت اور کردار کی بجاے اس کی دولت
اور طاقت کے گرد گھومتا ہے
عوام الناس کی آزادانہ رائے دہی کو یقینی نہیں بناتا
امیدوار کو پارٹی لیڈر نامزد کرتا ہے اور وہ اس کے حکم سے سرتابی نہیں کر
سکتا اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوۓ کے مصداق عمل انتخاب سے قبل ہی
آزادیِ اظہارِ راہے کا حق سلب کر لیا جاتا ہے
طاقت عوام کی بجاے پارٹی لیڈرز کے گرد گھومتی ہے
امیدوار کامیابی کے بعد پارٹی لیڈر کو جوابدہ ھوتا ہے عوام کو نہیں
متخب ہونے کے بعد پانچ سال تک اسکی کارکردگی پر عوام کا کوئی اختیار یا
کنٹرول نہیں ھوتا
امیدوار ایک دفعہ الیکشن میں کامیابی کے بعد کسی قسم کے عوامی چیک اینڈ
بیلنس سے آزاد ھوتا ہے
کامیاب امیدوار کو حکومتی وسائل اپنے ذاتی مفاد میں استمال کرنے اور
اجتماعی عوامی مفاد کے استحصال سے روکنے کا کوئی انتظام موجود نہیں
نتیجہ یہ کہ یہ مغربی جمہوری نظام نہ صرف ایک بہترین آدمی کے انتخاب میں
ناکام ھوا ہے بلکہ الٹا اس کے راستے میں روکاوٹ بن چکا ہے اور اکثر و بیشتر
ایک برے یا بدترین آدمی اور مافیا کے نمائندوں کے انتخاب میں مددگار و
معاون ثابت ھوا ہے جو کہ آزادی کے نام پر آزادی جمہور کو پابند سلاسل کئے
ہوے عوام الناس کو افسر شاہی اور معاشرے کے بد ترین افراد کی غلامی میں
جکڑے ہوۓ ہے
دیو استبدادِ جمہوری قبا میں پاے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اور
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ھوا ہے خود شناس و خود نگر
زندگی بخش نظام
اب آئیے ایک ایسے نجات دہندہ اور حیات پرور نظام حکومت کیطرف جو مندرجہ
بالا جملہ خرافات سے پاک ہو
جس میں بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ حق راے دہی کا انتظام ہو
جس میں انتخاب قابلیت اور کردار کی بنیاد پر ہو
جس میں ہر شخص کیلئے نمائندگی کے برابر مواقع میسر ہوں
جس میں عوام کی غالب آزادانہ راۓ کو خریدنے کے لئے طاقت اور پیسے کا
استعمال نہ ہو سکے
جس میں عوامی نمائندہ کسی نام نہاد سیاسی لیڈر یا مافیا کے نمایندے کے
ہاتھوں یرغمال نہ ہو
جس میں کامیاب امیدوار پر مستقل عوامی چیک اینڈ بیلنس کا انتظام موجود ہو
عوامی نمائندے کی ناقص کار كارکردگی پر فوری طور پرعوامی احتسابی طاقت سے
منصب سے ہٹانے کا انتظام موجود ہو
جب یہ بات طے ہو جائے کہ حکومت کرنا صرف بہترین آدمی کاحق ہے اور کوئی شخص
خود کو امیدوار نامزد نہیں کر سکتا تو طریقہ کار انتخاب کے مراحل قدرے آسان
ہو جاتے ھیں اور اب بات صرف اتفاق رائے کی رہ جاتی ہے
الحذر آئینِ پیغمبؐر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن مرد آزما مردآفریں
نظام رضاے باہمی (CONSENSOCRACY)
قوت اخوت عوام
قوم کے بہترین آدمی کا انتخاب کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے بھی ھیں تولا بھی کرتے ھیں
عہد صحابہؓ کرام میں صائب الراے افراد یا اراکینِ شوریٰ معروف و معلوم اور
ایک ہی جگہ یا مرکز پر موجود تھے لیکن بلاد اسلامیہ میں توسیع اور وقت
گزرنے کے ساتھ یہ کام ذرا مشکل اور پیچیدہ ھوتا گیا
آج ہم نے کوئی نئی بات طے کئے بغیر فقط ان بہترین افراد (صائب الراے) کو
دریافت کرنے کا طریقہ کار وضح کرنا ہے جوابتلائے زمانہ کی گرد کے نیچے دب
کر روپوش ہو گئے ھیں
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈھ کر اسلاف کا قلب و جگر
عوامی رضاے باہمی کے نظام میں قدم رکھتے ہی سب سے پہلا کام یہ کرنا ہو گا
کہ عوام کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے لیڈرانِ کرام اور انکے نامزد کردہ
امیدواروں کو سو سلام پیش کر کے ان کی غلامی سے آزادی کا اعلان ہو گا اور
یہ عوامی آزادی کے طلوع انقلاب کی پہلی روشن صبح کا نقطہ آغاز ھو گا
"جب ارض خدا کےکعبے سےسب بت اٹھوائے جائیں گے"
یوں عوامی نمائندگی اور نامزدگی کا حق اور طاقت عوام کے پاس چلی جائے گی
اسطرح عوامی نمائندگی کا فیصلہ 5% اشرافیہ نہیں 95% عوام کریں گے اور عوام
الناس خود کو عوامی نمائندگی کےان روشن اصولوں پر کاربند کریں گے جو بہترین
آدمی کے انتخاب کے لئے ضروری ھیں
1۔ پہلا اصول
کوئی شخص نہ تو خود کو امید وار نامزد کرے گا اور نہ ہی بلواسطہ یا بلا
واسطہ کسی قسم کی تحریک یا لابنگ کرسکے گا اور اسکی خلاف ورزی کرنے والا
تاحیات نا اہل قرار پائے گا
2۔ دوسرا اصول
قوم دس دس کے پانچ باہم مربوط حلقوں یا دائروں کی صورت میں خود کو منظم کرے
گی اور ہر شخص بغیر کسی لالچ اور دباؤ کے بلا خوف و خطر اپنی آئندہ نسلوں
کے حقوق اور بقا کی خاطر اپنی دانست میں آزادانہ اور ایماندارانہ رائے کا
اظہار کرے گا
طریقہ کار انتخاب
پانچ حلقوں کی زنجیر کا نظام (Five Rings Chain Method)
0 ۔ خاندانی نمائندہ ( Family Representative)
اپنے گھر یا احباب میں سے ہر دس افراد مل کر اتفاق راے سےاپنا ایک نمائندہ
منتخب کریں گے اور اسے°R یا خاندانی نمائندہ کا نام دے لیں
1۔ پرائمری نمائندہ (Primary Representative)
دس خاندانی نمائندے °R آپس میں بیٹھ کر اپنا ایک بہترین نمائندہ منتخب کریں
گے وہR1 یا ایک سو افراد کا نمائندہ کہلا ئے گا
2 ۔ ثانوی نمائندہ (Secondary Representatative)
دس R1 پرائمری نمائندے آپس میں اتفاق رائے سے اپنا بہترین آدمی R2 منتخب
کریں گے یہ ایک ہزار افراد کا نمائندہ ہو گا
3 ۔ تیسرا نمائندہ (Tertiary Representative)
دس R2 ثانوی نمائندے اتفاق رائے سے اپنا بہترین آدمی R3 متخب کریں گے جو دس
ہزار افراد کا نمائندہ ہو گا
آبادی کے تناسب سے منتخب ان دس دس ہزار کے نمائندوں پر مشتمل تحصیل کونسل
تشکیل پائے گی جو کہ تحصیل شوریٰ یا الیٹورل کالج کہلائے گی یہ ایک مستقل
ادارہ ہو گا جو اتفاق راۓ سے اپنا الیکشن کمِشن اور مصالحاتی
کمیٹی(Conflict resolution committee)
مقرر کرکے آئندہ کے معاملات کو کنٹرول اور سپروائز کرے گا اور کسی منتخب
نمائندہ کے خلاف شکایت سن کر تادیبی کروائی کرنے کا مجاز ہو گا
4 ۔ تحصیل کونسل (Electoral College)
تحصیل کونسل کے دس R3 تیسرے نمائندے تحصیل الیکشن کمشنر کی نگرانی میں
اتفاق رائے سے نمائندہ قومی اسمبلی (R4NA) منتخب کریں گے اور پانچ R3
نمائندے مل کر نمائندہ صوبائی اسمبلی (R4PA) منتخب کریں گے
قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے نامزد امیدواروں سے ان کو نامزد کرنے والی
کونسل پیشگی استعفٰی اور دھوکا فراڈ اور وفاداری تبدیل کرنے سے متعلق ہر
قسم کی تحریری گارنٹی کا حلف نامہ حلقہ کے عوام کی طرف سے لے گی
5 ۔ حکومت سازی
مجلس قانون ساز یا شوریٰ صائب الراے افراد کے اسطرح وجود میں آ جانے کے بعد
ممبران قومی و صوبائی اسمبلی دو سے تین بار دس کے حلقوں میں اپنے نمائندے
منتخب کر کے اس بہترین آدمی کے انتخاب کی تکمیل کریں گے جو لیڈر آف دی
ہاوس، صدر، وزیرآعظم ، امیر یا خلیفہ جو بھی تجویز کردہ نام ہو گا کہلا سکے
گا اور اسے منتخب کرنے والی شوریٰ اور اسمبلی بیک وقت اس کی معاون اور
اپوزیشن کہلاے گی اور قرآن حکیم کے اس فرمان کی عملی تصویر پیش کرسکے گی
و تعاونو علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان
مثلاً اگر ممبران قومی اسمبلی کی تعداد پانچ سو ہو تو ہر دس نمائندوں کا
گروپ اپنا ایک لیڈر چنے تو پچاس لوگ منتخب ہوں گے اور ان پچاس میں سے ہر دس
آدمی اتفاق راہے سے اپنے بہترین آدمی کا چناؤ کریں تو پانچ آدمی متخب ہوں
گے اور وہ آپس میں اتفاق راہے سے اس ایک بہترین آدمی کا انتخآب کریں گے تو
یقیناً وہ قوم کا بہترین آدمی ہی ہو گا جس کے انتخاب میں عددی اکثریتی رائے
کے ساتھ ساتھ باہمی مشاورت اور اتفاق راہے جیسے خوبصورت پیمانوں سے آرا کے
وزن اور اہمیت کا بھی پورا پورا احتمال رکھا گیا ہوگا
پہلی کوشش یہی ہو کہ ہر مرحلہ پر انتخاب اتفاق راے سے ہی انجام پائے لیکن
اگر کسی مقام پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں دشواری پیش آیے تو 6/4 کی برتری
سے انتخاب عمل میں لایا جا سکتا ہے جو کہ حضرت عثمانؓ کے انتخاب کی مثال سے
واضح ہے
یاد رہے کہ انتخاب کے موقع پر تعاون نہ کرنے اور ناپسندیدہ معملات میں ملوث
نمائندوں کو احتساب کی غرض سے ان کی منتخب کندہ دس رکنی کونسل کے حوالے کیا
جا سکتا ہے جو ان کی رکنیت منسوخ کر کے ان کی جگہ دوسرا نمائندہ منتخب کرنے
کی مجاز ہو گی
جامد نہیں متحرک نظام
ہر دس آدمیوں کے نمائندہ کو ہمہ وقت اپنے منتخب کرنے والے دس افراد کا
اعتماد بحال رکھنا ھو گا جس دم وہ دس میں سے چھ لوگوں کا اعتماد کھو دے گا
وہ اپنے منصب سے محروم ہو جائے گا اور اس کی جگہ دوسرا منتخب نما ئندہ لے
لے گا یہ دس آدمی ہمہ وقت اور ہمہ جہت اپنے نمائندے کے امور پر نظر رکھیں
گے اور ہر منتخب نمائندہ اپنے الیکٹورل کالج کو اپنے ہر منصبی فعل
کیلیےجوابدہ ہوگا یہ خود احتسابی کا ایک ایسا خود کار اور متحرک عمل ہو گا
جو مسلسل جاری رھے گا اور یہی محرک اس نظام کو کسی بھی دوسرے نظام سے ممتاز
مقام عطا کرتا ہے
صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وه قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
غیر جانبدار نظام
آپ نے دیکھا اس نظام میں راقم الحروف یا کسی دوسرے تیسرے فرد کے کسی قسم کے
ذاتی مفاد یا کسی اہم شخصیت کے خصوصی استحقاق کی کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی
یہ نظام کسی فرد کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتا ہے مگر اس سے ہر خاص و عام
کا اجتماہی مفاد ضرور وابستہ ہے جو میں بھی ہوں اور آپ بھی ھیں اور یہی کسی
فلاحی اور غیر جانبدار نظام کی خوبی کی دلیل ہے
اس نظام کی خوبصورتی کا یہ عالم ہے کہ اس میں کوئی لیڈر نہیں سب برابر ھیں
اور سب کے سب پوٹینشل لیڈر ھیں کہ ہر کسی کو اپنے پوشیدہ جوہر قیّادت
آزمانے کے برابر مواقع میسر ہوں گے جس کے لئے دھونس دھاندلی اور زور بازو
کی بجاے سند قبول عام کی ضرورت ہو گی جو کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان اور
ماتھے کا جھومر ہے
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
کردار ساز نظام
جب یہ کردار ساز نظام انتخاب ہر خاص و عام کو ایک ہی نظر سے دیکھے گا سواے
اچھے اور بہترین آدمی کے تو لامحالہ معاشرے میں اچھائیوں کی ترویج و ترقی
اور برائیوں کا قلع قمع شروع ہوجاے گا جس کے مثبت اثرات سرکاری عہدداروں
قانون سازوں عدالتوں اور نظام حیات کے دوسرے شعبوں کے افراد پر مرتب ہوں گے
اس سے معاشرے میں اچھائیوں کو اپنانے کی ترغیب پیدا ہو گی نوجوانوں کی
کردار سازی ہو سکے گی اور آعلیٰ انسانی معاشرتی اخلاقی قدروں کو عملی فروغ
حاصل ہو گا جو واعظ و تبلیغ سے ممکن نہیں
کیونکہ! جوش کردار سے کھل جاتے ھیں تقدیر کے راز
شخصیت پرستی کا خاتمہ
ذہنی غلامی شرک کی بد ترین مثال ہے جو قوموں کی فکری بالیدگی اور نشونما
روک دیتی ہے نظام رضاے باہمی لوگوں کو لوگوں کی غلامی سے نکال کر فکری
آزادی کی منزل سے ہمکنار کرتا ہے جو کہ بت پرستی (شخصیت) سے خدا پرستی (
اصول) کی جانب سفر کا آغاز ہے جب قیادت اقدار اور کردار سے مشروط ہو گی اور
طاقت کا محور شخصیت کی بجاے اجتمائی مشاورت اور اصول پرستی قرار پاے گا تو
شخصیت پرستی کا بت پاش پاش ہو جائے گا لوگوں کو شخصیت پرستی کی لعنت سے
نجات ملے گی تو خالص توحید پرستی کا دروازہ کھلے گا
قانون کی حکمرانی
در حقیقت قانون کی بالا دستی اور انصاف کی حکمرانی ہی انسانوں کو انسانوں
کی غلامی سے نجات دلا کر اتحاد برابری اور آزادی کی بنیاد پر انھیں شرف
وحدت انسانی اور اطاعت توحید ربانی سے عملی طور پر روشناس اور ہمکنار کرتی
ہے نظام رضاے باہمی کے تحت جب حکومتی قیادت اصول اور مشاورت کے تابع ہو گی
تو قانون کی حکمرانی منطقی نتیجہ کے طور پر قائم ہو سکے گی جو کہ آج نا
ممکن سی بات نظر آتی ہے یہ نظام عوام الناس کے لئے اصول مقصد حیات متعین
کرے گا تو زندگی با مقصد نظر آنے لگے گی قانون کی بالادستی سے معاشرے میں
ظلم و جبر کا خاتمہ ہو گا تو لازمً اخوات محبت رواداری اور خدمت کے جذبات
کو پنپنے کا موقع ملے گا
ہرکہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ را خود دید او محروم شد
آج کے کرنے کا کام
اب جبکہ الیکشن کا وقت نہیں تو آج کے کرنے کا کام یہ ہے کہ نوجوانوں کو
اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں عوامی بیداری کی تحریک پیدا کر کے حلقہ کے
غیرجانبدار انصاف پسند عوام کو پانچ چھلوں کی زنجیر کے نظام میں پرو دینا
ہے اسطرح ہر تحصیل کی سطح پر تحصیل کونسلز کا ایک ایسا مربوط نظام قائم ہو
جائے گا جو قومی اور صوبائی نمائندوں کےساتھ مظبوط رابطے میں ہو گا اور آنے
والے کل کے عام انتخابات میں رہڑھ کی ہڈی کا کام کرے گا آپ اس نظام کے تحت
آج ہی اپنی مجوزہ حکومت کی شیڈو کابینہ تشکیل دے کر مستقبل کے چلنجز کیلئے
خود کو تیار کر سکتے ھیں اور حیران کن بات یہ کہ یہ کام کوئی جلسہ جلوس
منعقد کیے اور پیسہ خرچ کیے بغیر محض خلوص نیت کی کرنسی سے پانچ سے سات دن
میں مکمل ہو سکتا ہے اس سے نئے نظام کو سمجھنے اور اختیار کرنے میں مدد ملے
گی اور حکومتی امداد کے بغیر بہت سے عوامی معاشرتی مسائل اپنی مدد آپ کے
تحت حل کیے جا سکیں گے جس سے نظام رضاے باہمی کی افادیت پر عوام کا اعتماد
بڑھے گا جو ان کا اپنا ہی تخلیق کردہ اور قوت اخوت عوام کا مظہر ہوگا
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
صرف ایک الیکشن میں قوم کو رضا کارانہ طور پر تیاری کر کے اپنے عوامی محاذ
کے امیدواروں کو نامزد اور سپورٹ کر کے الیکشن کے موروجۂ طریقہ کار سے
گزرنا ہو گا پہلا الیکشن جتنے کے بعد اس نظام حکومت کو قانونی شکل دے دی
جائے گی کیونکہ اسوقت نظام رضاے باہمی کے علاوہ کوئی اوپر یا نیچے سے مسلط
کردہ نظام حکومت عام آدمی کے حقوق کے تحفظ قانون کی بالا دستی و خود
احتسابی کے ساتھ بھر پور عوامی شمولیت کی ضمانت فراہم نہیں کرتا اگر قوم نے
اس نظام کو اس کی روح کے مطابق اپنا کر اپنے ملک میں نافذ العمل کر دیا تو
ہم یہ بات یقین سے کہہ سکیں گے کہ بہترین لوگوں کی حکومت کا یہ مصفانہ و
عادلانہ نظام دنیا کے دوسرے ممالک کے مظلوم انسانوں کے لئے بھی نجات دہندہ
ثابت ہو گا اور امن عالم کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکے گا ان شاء اللہ
عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبؐر کہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممکنہ اعترازات کے جواب
1۔ حالات سے مایوس کچھ خواہ مخواہ انقلابی دوستوں کا خیال ہے کہ اس ہمہ جہت
بگڑے ھوے نظام کا سواے خونی انقلاب کے کوئی حل نہیں
جواب
جو قوم خود کو منظم کر کے اور آپس میں اتفاق راے پیدا کر کے اپنے حلقہ
انتخاب سے اپنے نامزد کردہ امیدوار کے ساتھ کھڑی ہونے کے قابل نہ ہو وہ
انقلاب کہاں سے لاے گی جو کہ انقلاب سے کہیں زیادہ آسان اور بذات خود اک
انقلاب ہے جو ایک قطرہ خون بہائے اور ایک گولی چلاے بغیر حصول منزل کا پتہ
دیتا ہے
ھے منکشف ِبر چشمِِِ وا اے کشتگان خنجر تسلیم را
قوم کی نا امیدی اور خوف کا یہ عالم کہ فلاں نہ ھوا تو کیا ہو گا فلاں کے
بعد کیا ہو گا عمرانی تجربہ کی ناکامی کے بعد قوم کے اعصاب پر نواز زرداری
کے عفریت کا خوف طاری ہے کہ کیا ہو گا یہ خوف کی پالیسی ترک کر دیجئے ایسا
کچھ نہیں ہو گا اتنے خوف زدہ ہو تو اپنے رب سے کیسے ملو گے ؟ اپنے ذہن کو
نادیدہ خوف سے آزاد کر کے خود کو کائنات کی وسعتوں سمو دیجئے اور پھر
دیکھیئے؟ اسقدر خوفزدہ ہو کر آپ اسرار و رموز ہستی کو نہیں سمجھ سکتے
لا و الا احتساب کائنات لا و الا فتح باب کائنات
لا و الا برگ و ساز امّتاں نفی بےاثبات مرگ امتاں
یہ کائنات خیر و شر کی آمیزش کے ساتھ تعمیر و تخریب کی قوت سے عبارت ہے ہر
تخریب، تعمیر کے نئے امکانات کو جنم دیتی ہے اور جہاں تعمیر نو بوسیدہ نظام
کی تخریب کی متقاضی ہے وہیں پر مثبت تبدیلی کیلیے تخریب کار کے بعد تعمیر
نو کے متبادل نظام کا ہونا از بسکہ ضروری ہے اسلئے بے فکر رہیں نہ تو یہ
دینا کے آخری انسان اور حکمران ھیں اور نہ ہم دنیا کی آخری قوم یہ امید و
بیم کا سفر جاری و ساری رہتا ہے اور اسے کسی کے آنے یا چلے جانے سے کچھ فرق
نہیں پڑتا ہر دم رواں پیہم دواں ہے زندگی اسلئے مایوسی کو اپنے دل سے نکال
دیجئے اور امید کی شمع ہمیشہ روشن رکھئے کہ شرارہِ ہستی اسی کے دم قدم سے
قائم و مستحکم ہے
مرگ را سامان ز قطح آرزوست
زندگانی موحکم از لا تقنطواست
اور
گماں مبر کہ رسید کار مغان
ہزار بادہ نا خوردہ در رگ تاک است
2۔ عوام بہت کرپٹ ھیں ادنی مفاد پر ووٹ فروخت کر دیتے ھیں پڑھے لکھے با
کردار غیر معروف آدمی کو کون ووٹ دے گا پیسے والے ووٹ خرید لیں گے
جواب
موروجۂ الیکشن کے لحاظ سے یہ بات کسی حد تک درست اور قابل فہم ہو سکتی ہے
جبکہ عوام کو اس نظام سے کوئی خیر کی توقع ہی نہیں تو وہ بھی الیکشن کے
دنوں میں زیادہ سے زیادہ جز وقتی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ھیں
بدلہ رفتہ رفتہ میں نے بھی مزاج اپنا
لیا ہر آبلہ پا سے زبردستی خراج اپنا
مگر جب عوام کو اپنی منزل سامنے نظر اے گی کہ انھیں اس تعفن زدہ نظام سے
چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے تو وہ ایسا ہر گز نہیں کریں گے اور ووٹ کی حرمت کو
پامال کر کے اپنے مستقبل کا سودا نہیں ہونے دیں گے
3۔ طاقت اور پیسے والے لوگ دھونس دھاندلی اور دباؤ سے الیکشن ہائی جیک کر
لیں گے
جواب
جب تک عوام کی کوئی تنظیم نہیں ہے تو یہ بات درست ہے اور اس نظام میں کسی
نئے عام آدمی کی بحیثیت آزاد یا پابند امیدوار کوئی جگہ نہیں مگر جب عوام
بیدار اور منظم ہو کر اپنا نمائندہ خود لے کر آئیں گے ان کی اپنی آرا اور
کمٹمنٹ اس میں شامل ہو گی اور انھیں اپنی آزادی کی منزل سامنے کھڑی دکھائی
دے گی تو وہ نہ صرف کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لا ئیں گے بلکہ اپنے
امیدوار کی جانی اور مالی امداد کر کے اس کی حفاظت بھی کریں گے اور اسے
کامیاب کروائیں گے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتےھیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
4۔ عوام تو صرف ووٹ ڈالتے ھیں ہار جیت کا فیصلہ تو ووٹوں کی گنتی کرنے والے
کرتے ھیں جس کی وجہ سے ریٹرنگ آفیسر یا آر اوز کا الیکشن کہا جاتا ہے چونکہ
الیکشن کا بیشتر عملہ عموماً کرپٹ ھوتا ہے اور مافیا کا نمکخوار بھی اس لئے
وہ انہی کی مرضی کا رزلٹ دے گا
جواب
پارٹی سیاست کے الیکشن میں کسی منظور نظر کو بر تری دلانے کے لئے محدود
پیمانے پر بے ایمانی اور زبردستی ہوتی رہی ہے مگر وہ بات پارٹی ورکرز تک
محدود رہتی ہے اور عام عوام اس سے غیر متعلق ہوتے ھیں یہاں صورت حال بلکل
مختلف ہے یہ کسی کرائے کے امیدوار یا کروڑوں میں خریدے ہوئے ٹکٹ ہولڈر کا
الیکشن نہیں ہو گا بلکہ عوام کا اپنا الیکشن ہو گا وہ میرے یا آپ کے لئے
الیکشن نہیں لڑ رہے ہوں گے بلکہ اپنے لئے لڑیں گے اور جب ایک لاکھ سپورٹرز
کی عوامی طاقت کسی امیدوار کے ساتھ کھڑی ہو گی تو کسی ریٹرننگ افیسر کو
جرات نہیں ہو سکے گی کسی دوسرے کی ناجائز حمایت سے اسے اپنی سلامتی زیادہ
عزیز ہو گی
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہانِ چار سو و رنگ و بو
5۔ کچھ پسماندہ قسم کے دانشوروں کا خیال ہے کہ الیکشن عوام کے ووٹوں سے کب
ہوتے ھیں ووٹ تو فرشتے ڈال جاتے ھیں
جواب
یہ سیاست دانوں کا ایک ایسا زبردست اور گمراہ کن پروپیگنڈا ہے جسے وہ اپنی
نا اہلیوں نا کامیوں اور بے ایمانیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے
ھیں اور خود مجبور محض بن کر سارا ملبہ فوج پر ڈالنے کی کوشش کرتے ھیں حیرت
کی بات ھے کہ فوج کے حلیف اور حریف دونوں جانب کا وطیرہ یہی ھے لیکن مزے کی
بات یہ کہ کرپشن کرتے ہوے انھیں اسطرح کی کوئی دشواری پیش نہیں آتی اور نہ
کوئی ان کے پاؤں کی زنجیر بنتا ہے
عقل اعیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہےنہ ملا نہ حکیم
جب کبھی سیاسی پارٹیاں اپنے ذاتی مفاد اور ہوس ملک گیری میں ملکی مفاد کا
ملک دشمنوں سے سودا کرنے پر تلی ہوں تو ان کو لگام دینے کے لئے فرشتوں کو
حرکت میں آنا پڑتا ہے مگرعمومآ ایسا نہیں ھوتا اور جب سامنے اس عوام کے
نامزد کردہ امیدوار کھڑے ہوں جن کے دل قومی افق پر فرشتوں کے ساتھ دھڑکتے
ہوں تو یقیناً اس انقلابِ قلب و نظر پر قدسی بھی جھوم اٹھیں گےاور محو رقص
ہوں گے
گزر جا سیل تند رو بن کر کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آ جائے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
6۔ سٹیٹس کو کے علمبرداروں اور ان کے زر خرید دانشوروں کے خیال میں عوام
جاہل اور نہ سمجھ ھیں اور وڈیرہ مافیا کی غلامی میں جکڑے ہوہے ھیں یہ آزادی
کی بات ان کی سمجھ میں کہاں آئے گی اور وہ جس جگہ کھڑے ھیں وہاں سے ٹس سے
مس نہیں ہوں گے
جواب
جب تک میڈیا ان کے کنٹرول میں تھا تو انکا جادو چل جاتا تھا مگر اب دنیا
بدل چکی ہے عوام ان تمام لٹیروں دھوکہ بازوں اور بدمعاشوں سے اچھی طرح واقف
اور متنفر ہو چکے ھیں ان کو اس غلامی کے آہنی خول سے نکلنے کا کوئی راستہ
سجھائی نہیں دے رہا تھا وہ اس لئے خاموش اور مجبور محض تھے
اب جبکہ عوام کو اس تعفن زدہ نظام جس سے وہ انتہاہی بیزار اور متنفر ھیں
اور اس سے نجات کی دعائیں مانگتے ھیں، سے آزادی کی سنہری کرن اور امید نظر
آئے گی تو وہ بصد شوق یہ نعرہ مستانہ بلند کرتے ھوئے اس سے اپنی فائنل
بغاوت اور بریت کا علان کر دیں گے
قسم ہے اشہپِ توحید کی محشر خرامی کی
اک جھٹکے میں توڑوں گا میں زنجیریں غلامی کی
7۔ کیا یہ واقعی ممکن ہے ؟ اگر ہے تو کیونکر اور کیسے؟
جواب
کیوں ممکن نہیں ؟ کیا ہم جیتے جاگتے انسان نہیں؟ کیا ہمارے کندھوں پر رکھا
بوجھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے؟ کیا ہم رہڑھ کی ہڈی نہیں رکھتے؟
کیا ہم عقل و فکر سے بے نیاز ایک بائیس کروڑ کا ریوڑ ھیں؟ کیا ہم کسی کے زر
خرید غلام ھیں یا غلامی ہمیں واراثت میں ملی ہے ؟ کیا ہماری آئندہ نسلوں نے
شریفوں زرداریوں خانوں چوہدھریوں اور مللاؤں کی بے ڈھنگی اولادوں کی غلامی
کی بیعت کر رکھی ہے ؟ کیا ہمیں غورو فکر نہ کرنے کا عارضہ لاحق ہے ؟ کیا
ہمیں خود فریبی اور خود تکلیفی میں لطف آتا ہے؟ کیا ہم آج ہی ایسے ہوے ھیں
یا ہمیشہ سے ایسے ہی تھے؟ اگر ان سوالوں کے جواب نفی میں ھیں تو آپ میری
بات غور سے سنئیے! بہ صورت دیگر
تیروسناں وخنجر و شمشیرم آرزوست
با من مٙٙیّا کہ مسلکِ شبیؑرم آرزوست
کیا آپ اسی قوم کے وارث نہیں ھیں جس نے 1857ء کی جنگ آزادی میں تہ تیغ کئے
جانے کے بعد کسمپرسی کی حالت میں صرف نوے سال کے اندر انگریزوں ہندؤں
کانگرسی مللاؤں اور ان کے ہمنوا نمکخوار وڈیروں نوابوں جاگیرداروں کی
مخالفت کے باوجود ایک فقیدالمثال تحریک کے نتیجے میں ایک آزاد مملکت قائم
کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا؟ آہ وہ قوم نجیب و تنگ دست و تر دماغ
آج پھر اسی جذبہ کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے
کیا یہ وہی قوم نہیں ہے جس نے سانحہ مشرقی پاکستان کی خاکستر سے اٹھ کر
اپنوں کی ناعاقبت اندیشی و بے وفائی متعصب بھارت روس اور امریکہ جیسی سپر
پاورز کی شدید مخالفت کے باوجود عالَم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت بن کر دنیا
کے اوسان خطا کر دئیے؟ تو پھر آج کیا ہے ؟ اس قوم کو صرف راستہ چاہئے راستہ
دکھانے والا کوئی بےغرض رہنما چاہئے
ہر قوم راست راہے دینِ و قبلہ گاہے
من قبلہ راست کردم بر سمتِ کج کلاہے
کیسے ممکن ہو گا ؟
بہت آسان پہلے آپ کسی اور کے لئے ووٹ ڈالتے تھے اب اپنے لئے ڈالیں گے اور
ان سے بھی اپنی حمایت کی درخواست کریں گے جن کی آج تک حمایت کرتے رہے ھیں
عوام نے سواے اس کے اور کچھ نہیں کرنا کہ صرف اپنی آنا کے شہسوار پر قابو
پا کر عظیم مقصد کی خاطر مکمل خلوص اور دیانتداری سے اپنا ووٹ اپنی دانست
میں اپنے بہترین آدمی کے حوالے کرنا ہے اور بس اس کے بعد یہ نظام خود اس کی
خبر رکھے گا کہ وہ صراط مستقیم پر رہے اور اگر ہم خود اپنے آپ سے اتنے بھی
مخلص نہیں ہو سکتے تو پھر کسی دوسرے سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ہمارے
ساتھ ایمانداری سے پیش آئے
مدعی لاکھ برا چاہئے تو کیا ھوتا ہے
وہی ھوتا ہے جو منظور خدا ھوتا ہے
زندہ دل بیدار قوم
عوام پاکستان نے ہر دور میں تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اجتمائی شعور
کا ثبوت دیا ہے اور اجتماہی قومی مفاد میں درست فیصلے کئے ھیں یہ الگ بات
کہ بعض دفعہ بلکہ اکثر اوقات لیڈرز نے ان سے دھوکے کئے ھیں چاہئے وہ مادر
ملت فاطمہ جناح کی آمریت کے خلاف تحریک ہو ذولفقار علی بھٹو کا مجیب کے
مقابلے میں روٹی کپڑا اور مکان کا دلفریب نعرہ ہو چاہے بھٹو کی دھاندلی کے
خلاف قومی اتحاد کی ہردلعزیز تحریک ہو یا نواز بینظر پارٹنرشپ کی ایک دوسرے
کے خلاف کرپشن کی تحریکیں ہوں یا مشرف کی ق لیگ کے خلاف عوامی بغاوت ہو
اگرچہ اس کا نتیجہ زرداری کی صورت میں برآمد ھوا جو کہ عوام کا مطمع نظر نہ
تھا مگر وہ عوام سے اوپر کی بات ہے البتہ عوام نے بہتری کی امید میں ہمیشہ
تبدیلی کا ساتھ دیا بے شک ہر مرتبہ ھوا یہی کہ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ
دکان اپنی بڑھا گئے
نو مید نہ ہو ان سے اے رہبرِِِ فرزانہ
کم کوس تو ھیں لیکن بےذوق نہیں راہی
مگر عوام نے اپنا تبدیلی کا سفر جاری رکھا اور بلاآخر عمرانی تبدیلی سے لطف
اندوز ہو رہی ہے جس سے بہت زیادہ بہتری کی امیدیں وابستہ ہوئیں مگر حسرت
ناکام کی دہلیز پر دم توڑ رہی ھیں
مستقبل کا لاحہ عمل
تحریک بیداری عوام - نظام رضاۓ باہمی کا قیام
اسی جزبہ جانفزا کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے جو منتشر عوام میں زندگی
کی روح پھونک کر اسے ایک قوم میں تبدیل میں تبدیل کر دیتا ہے
شرابِِِ کہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا میری خاک جگنو بنا کر اڑا
عوام کی قسمت بدلنے کا چراغ کسی سیاسی پارٹی اور لیڈر کے پاس نہیں وہ تو
خود عوام کے ٹمٹماتے ہوہے چراغوں کی لوِِ مستعار سے اپنے چراغ روشن کیے
ہوئے ھیں جو آتا ہے وہ اپنی قسمت بدل کر چلا جاتا ہے اور عوام ہر بار کھڑے
دیکھتے رہ جاتے ھیں کہ دن پھرے ھیں فقط وزیروں کے دن بدلے نہیں فقیروں کے
جبکہ حقیت اور بھی تلخ ہے
اک فقیر بھلا فقیر کو کیا دے گا
جو اس کے پاس ہے آخر وہی لےگا
لہٰذا عوام کو اپنی قسمت کے ناخداؤں کو خیر باد کہہ کر اپنی قسمت بدلنے کا
اختیار خود اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا اور جو ہاتھ ان کی قسمت بدلنے کے
راستے میں روکاوٹ بنے گا یقیناً اس ہاتھ کو اپنی قسمت سے ہاتھ دھونا پڑیں
گے قسمت عوام کی فیصلہ عوام کا آئیے اپنی تقدیر خود بدلئے اور اپنی زندگی
کے فیصلے خود کیجئیے
تو اپنی سر گزشت اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہےخامہ حق نےجبیں تیری
اٹھوکہ حشر پھر کبھی بپا نہ ہو گا آئیےتحریک بیداری عوام کا حصہ بن کر اپنا
مستقبل سنوارنے میں اپنا کردار ادا کیجئے میرے لئے نہیں اپنے لئے اپنے
پیاروں کیلئے اور ہم سب کے لئے
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اوربیرون دریا کچھ نہیں
ہماری آرزو- تحریک بیداری عوام
ہماری منزل - عوامی اتفاق رائے
ہماری قوت - قوت اخوت عوام
ہمارا نظام ۔ نظام رضاے باہمی
ہمارا قانون ۔ قرآن اور سنت
عوام کی مرضی سے عوام کے بہترین لوگوں کی حکومت کا قیام
عدل انصاف مساوات اسلام یہی رہا ہے ازل سے قلندوں کا پیام
خدا ایک قرآن ایک نظام ایک نفاذ ہو گا وطن میں جوہونگے عوام ایک
جب اپنا قافلہ عزم ویقین سے نکلے گا
جہاں سےچاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا
وما توفیقیٰ الا بااللہ |