کشمیری بچہ۔۔۔ دنیا سے انصاف کا متلاشی

ایک طرف مقبوضہ وادی کے شہری علاقوں میں کرفیو کی پابندیاں ہیں تو دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور آزاد عالمی میڈیا کو وادی میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ دوسرے ممالک کے پارلیمنٹیرین کو تو کجا‘ اپنے ملک کی اپوزیشن کے عوامی نمائندوں کے داخلے پر بھی پابندی ہے۔ وادی میں بھارتی فورسز کے نہتے لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بہت سا حصہ دنیا کے سامنے نہیں آسکتا جو کچھ سامنے آتا ہے‘ وہ بھی انسانی ضمیر کو جھنجوڑنے کیلئے کافی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز ظلم وجبر کے تمام حربے اور ہتھکنڈے آزما رہی ہیں‘ بھارتی فورسز کی درندگی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں قابض فوج نے سو پور میں ساٹھ سالہ شخص کو تین سال کے نواسے کے سامنے شہید کر دیا۔ بچہ عیاد جہانگیر سہما ہوا نانا کی نعش پر بیٹھ کر روتا اور مدد کو پکارتا رہا۔عیاد کو بھارتی اہلکار گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور بسکٹ دلانے کا کہا، معصوم ہچکیاں لیکر نانا کو یاد کرتا رہا۔مقتول بشیر احمد خان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد سامان لینے کا کہہ کر گھر سے نکلے تھے تو قابض فورسز نے والد کو کار سے اتارکر گولیاں مار دیں۔ جس وقت پولیس نے بچے کو اپنی تحویل میں لیا اس وقت وہ انتہائی خوفزدہ نظر آرہاتھا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی ہے۔ تین سالہ معصوم فرشتے کے سامنے اس کے نانا کو گولیوں سے بھون ڈالنے کے واقعہ نے دل دہلا دئیے ہیں۔سوپور میں بشیر احمد کو جس طرح شہید کیا گیا‘ اسکی ویڈیو تو سامنے نہیں آسکی جس سے پتہ چلتا کہ انہیں کس طرح بہیمانہ طریقے سے شہید کیا گیا تاہم انکی شہادت کے بعد جس طرح ان کا نواسہ نعش کے قریب بیٹھا ہے‘ اس نے انسانیت کی رمق تک رکھنے والے ہر دل کو دہلاکے رکھ دیا۔ جاں بحق شہری کے اہل خانہ نے کا کہنا تھا کہ بشیر احمد حریت پسندوں کی نہیں بلکہ سیکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک ٹھیکے دار تھے اور وہ اپنے 3 سالہ نواسے عیاد جہانگیر کو اپنے ساتھ لے کر سوپور میں تعمیراتی سائٹ پر جارہے تھے کہ سیکیورٹی فورسز نے انہیں شہید کردیا۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں بشیر احمد کے بیٹے نے یہ کہا کہ ان کے والد صبح گھر سے نکلے تھے کیونکہ ان کا سوپور میں کام چل رہا تھا کہ فائرنگ شروع ہوئی اور سی آر پی ایف نے انہیں گاڑی سے اتار کر مار ڈالا۔ تاہم اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر نواسے کی نانا کی لاش پر بیٹھی تصاویر وائرل ہوگئیں اور ٹوئٹر پر یہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ ٹوئٹر پر کشمیر بلیڈز اور کشمیری لائیو میٹر کے ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بن گئے جس میں لوگوں نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پیش آنے والے واقعات کا ذکر کیا۔ دیکھنا ہوگا یہ تصویر عالمی ضمیر کو بھی جھنجوڑتی ہے یا عالمی برادری اس پر بھی بے حسی کا مظاہرہ کریگی۔ بھارت کی اس ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ وہ کسی دباؤ اور عالمی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا۔انسانی حقوق کے علمبردار سارا منظر نامہ خود پر طاری کرکے سوچیں تو ان پر واضح ہو سکے گا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ بھارت کو متعلقہ عالمی ادارے اور بااثر ممالک مزید ظلم و ستم جاری رکھنے کا موقع نہ دیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے زبانی جمع خرچ نہیں‘ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارتی حکومت نے ایک نیا کام شروع کیا ہے اب بچوں کو غائب کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ گیارہ سال سے کم عمر بچے مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا چالیس فیصد ہیں۔ بچوں کی بڑھتی ہوئی گرفتاریوں کے پیش نظر بھارتی سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن بھی دائر ہوئی ہے درخواست گذار نے موقف اختیار کیا ہے بعض گرفتار ہونے والے بچوں کی عمریں دس سال سے بھی کم ہیں۔ زیر حراست بچوں کی اموات کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ درخواست گذار نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر عدالت سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے گرفتار بچوں کی رہائی اور درست تعداد بتانے کی درخواست کی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلم مخالف لہر چل رہی ہے جس میں وقت کے ساتھ شدت آرہی ہے۔ افریقہ سے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے زیادتیوں کا سلسلہ آج برما تک پہنچ گیا ہے۔ کشمیر، شام، عراق، لیبیا، چیچنیا، بوسنیا اور میانمار مسلمان دجال کے گھیرے میں ہے آج مسلمانوں کی حیثیت زمین پر رینگنے والے کیڑوں مکوڑوں سے بھی بدتر بنا دی گئی ہے کہ جس کا جب بھی دل چاہتا ہے وہ اٹھتا ہے اور مسلم قوم کواپنے پیروں تلے روندنا شروع کر دیتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی فاتحہ بیت المقدس، طارق بن زیادہ اور ہندوستان کو آج پھر ایک محمد بن قاسم کی ضرورت ہے۔ بھارت سمیت کشمیر کی زمین پر حوا کی بیٹیاں لٹ رہی ہیں ان کی عصمتوں کو پامال کیا جارہا ہے نہ صرف برمی فوجیوں بلکہ گوتم بدھ کے پیروکاروں نے بھی مسلمان عورت کی عزت کو لوٹنا معمول بنا لیا ہے۔ کشمیر میں عزت مآب خواتین کو بھارتی فوجی درندے انہیں گھروں سے اغوا کر کے لے جاتے ہیں اور فوجی کیمپوں میں، جنگلوں میں اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔فلسطینی عورتوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں صہیونی درندے ان کی عزت سے کھیلتے ہیں اور فلسطینی مردوں کو بلا جواز جیلوں میں ڈال دیتے ہیں فلسطینیوں کو ان کے وطن سے باہر دھکیلنے کے لئے نت نئے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے اور انکی کہیں شنوائی نہیں۔اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتیں بشمول اقوام متحدہ کے مشکوک کردار نے ثابت کردیا ہے کہ ظلم چاہے فلسطین میں ہو، کشمیر میں ہو یا برما میں انہوں نے اپنی آنکھوں پر امریکی پٹی باندھ رکھی ہے ۔ جو دنیا میں مسلمانوں پر روا رکھنے جانے والے وحشیانہ سلوک کے خلاف صہیونی و فسطائی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہیں جبکہ یہاں تو یہ عالم ہے کہ ایک جانب مسلمان لٹ رہا ہے، جلایا جا رہا ہے، بے گھر، بے وطن کیا جارہا ہے، مسلمان خواتین ننگے سر اپنی عصمتیں بچانے کے لئے کسی محمد بن قاسم کے انتظار میں ہے تو دوسری جانب بے حسی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ مسلمان ملک گونگے بہرے اور اندھے ہو چکے ہیں انہیں اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی تکالیف سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر تمام مسلمان ممالک متحد ہو کر اقدامات کریں تو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ رک سکتا ہے وگرنہ خون مسلم یونہی بہتا رہے گا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہاگر روانڈا کے قتل عام پر بین الاقوامی عدالت کو سودہ پر براہ راست بمباری کا حکم دیکر روانڈا کی فوج جرنیلوں کو سزائیں جاسکتی ہیں تو برما، اسرائیل اور بھارتی فوجیوں کے خلاف مقدمات کیوں درج نہیں ہو سکتے، انہیں کیوں نہیں سزائیں دی جا سکتیں۔انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کو آزادی دلانے کے لئے راتوں رات ریفرنڈم کروایا جاسکتا ہے تو بھارت سے کشمیریوں کو نجات دلانے کے لئے سلامتی کونسل میں سکوت کیوں چھایا ہوا ہے؟صرف اس لئے کہ مشرقی تیمور کے علیحدگی پسند مسلمان نہیں تھے اور وہ ایک اسلامی ریاست سے الگ ہونا چاہتے تھے۔ درحقیقت اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں نے مسلمانوں اور دیگر اقوام عالم کے حوالے سے دوہرا معیار قائم کررکھا ہے۔
 

Muhammad Shahid Mehmood
About the Author: Muhammad Shahid Mehmood Read More Articles by Muhammad Shahid Mehmood: 114 Articles with 80163 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.