چین کی غیر معمولی ترقی کا راز

ہندوستان اور چین کو تقریباً ایک ساتھآزادی ملی ۔1947 میں ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور 1949میں اس کا آئین بن کر تیار ہوگیا یعنی لارڈ ماونٹ بیٹن کے ہندوستان سے نکل جانے کا وقت آگیا اسی سال چین میں اشتراکی انقلاب برپا ہوا ۔ اس طرح گویا دونوں ممالک نے ۱۹۵۰ میں تعمیر جدید کا آغاز کیا۔ عالمی سیاست میں اس وقت پنڈت جواہر لال نہرو چین کے ماوزے تنگ سے بہت زیادہ مقبول تھے ۔ دوسو سال کی غلامی کے باوجود ہندوستان ایشیا کی سب سے بڑی معیشت تھا۔ ایک ڈالر کی قیمت ایک رویہ کے برابر تھی۔ 1990 کی دہائی کے آخر تک چین کی جی ڈی پی ہندوستان سے کم تھی اور ہندوستان کے سیاسی نظام کو پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ اس وقت تک زندگی کے مختلف شعبوں میں ہندوستان کو اپنے ہم سایہ چین پر فوقیت حاصل تھی مگر آج صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔

چین آج دنیا کا سپر پاور بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر اس کی معیشت امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر یعنی 13.6 ٹریلین ڈالر یعنی 1033 لاکھ کروڈ روپئے ہے۔ ہندوستان 2.7 ٹریلین ڈالر یعنی 200 لاکھ کروڈ ڈالر روپئے کے ساتھ ایشیا میں تیسرے نمبر ہے ۔ چین اور ہندوستان کے درمیان جاپان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلوان میں یونے والے اتنے سنگین سانحہ کے باوجود کوئی مائی کا لال سرکارسے گھر میں گھس کر بدلہ لینے کا مطالبہ نہیں کر رہا ہے۔ ہر کوئی بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دینے پر اکتفا ء کرلیتا ہے۔چین اورہندوستان کے درمیان اتنا بڑا فرق کیسے ہوگیا ؟ اس سوال پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے؟سیاسی سطح پر دیکھیں تو 1978 میں جب ماوزے تنگ کا انتقال ہوا تو اس وقت چین اپنی غربت سے لڑرہا تھا لیکن ہندوستان میں ایمرجنسی لگنے کے بعد اٹھ چکی تھی ۔

ماوزے تنگ کے بعد چین نے اپنے ملک میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ بیرونی سرمایہ داروں کو اپنے ملک میں سرمایہ جاری کی دعوت دی ۔ بر آمدات کو فروغ دینا شروع کیا ۔ کاشتکاروں کو سرکاری چنگل سے آزاد کیا ۔ اس کے برعکس سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے غریبی ہٹاو کا کھوکھلا نعرہ لگاکر نجی بنکوں سرکار کے تحت لے لیا ۔ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی انہیں کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے ’اچھے دن آنے والے ہیں کا خواب دکھا کر عوام کو بہلا پھسلا رہے ہیں ۔ اندرا گاندھی کی مانند انہوں نے بھی نوٹ بندی کا تجربہ کیا ۔ اندراجی بنگلا دیش کے ذریعہ اپنی مقبولیت بڑھائی اور نریندر مودی نے سرجیکل اسٹرائیک کرکے انتخاب جیتا ۔ خالصتان تحریک کا فائدہ اندرا نے اٹھایا تو مودی نے کشمیر کی دفع ۳۷۰ کے استعمال کیا ۔ درمیان میں جنتا دل والے منڈل لائے تو اس کے مقابلے بی جے پی کمنڈل اٹھا کر میدان میں آگئی ا اور رام مندر کے نام پرایسا ہنگامہ کیا کہ ملک کی ترقی کا خواب چکنا چور ہوگیا۔

ہندوستان کے اندر ابتدائی ایام میں جو ترقی ہوئی تھی چند سالوں تک اس کا فائدہ ہوتا رہا ۔ اس کے بعد عوام اپنی محنت و مشقت سے آگے بڑھتے رہے اور ملک جیسے تیسے ترقی کرتا رہا ۔ عدم استحکام کے ماحول میں ساری سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے اور بچائے رکھنے میں لگی رہیںلیکن حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہتر مواقع کے باوجود چین سے ہندوستان پچھڑتا چلا گیا ۔ماوزے تنگ کی وفات کے بعد چین کے اندر ملک کی ترقیاور عوام کی فلاح و بہبود کا جو متوازن جو منصوبہ بنا اس کی ایک مثال بنیادی ڈھانچے (انفراسٹکچر) پر ہونے والا خرچ ہے۔ عالمی سطح صحتمند ترقی کا پیمانہ یہ ہے کہ اس مد میں مجموعی جی ڈی پی کا ۵تقریباً6.5 فیصد خرچ کیا جائے ۔ ہندوستان نے اس کام کے لیے3 فیصد رقم خرچ کی جبکہ چین نے اس میں 9 فیصد سرمایہ لگایا۔ فی الحال ہندوستان میں اس جانب توجہ دی جارہی ہے مگر ۲۰۱۹ کے اعدادو شمار کے مطابق ہنوز یہ اوسط سے ۲۷ فیصد کم ہے۔

چین کو اس دور اندیشی کے کئی فائدے ملے ۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ تھا کہ سڑکوں اور پلوں کے کام میں لاکھوں لوگوں کو روزگار مل گیا۔ عوام کے پاس قوت خرید آئی تو انہوں نے خرچ کرنا شروع کیا اور چین کا داخلی بازار خوشحال ہونے لگا۔ اس کا تیسرا فائدہ اس وقت ہوا جب بیرونی ممالک سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع ہوئی ۔ ان لوگوں نے ہندوستان پر چین کو ترجیح دی کیونکہ وہاں کا مواصلاتی نظام بہتر تھا اور باہر سے آنے والوں کو سفر وحضر کی معیاری سہولیات مہیا تھیں ۔ہندوستان کے اندر شروع میں بڑی صنعتوں پر زور دیا گیا اور بعد میں یہ ملک آئی ٹی کی جانب چلا گیا ۔ اس سے روزگار کے بہت زیادہ موقع مہیا نہیں ہوسکے ۔

چین میں کپڑا، چھوٹی صنعتوں اور الکٹرانک کے سامان بنانے کا کام شروع ہوا تو لوگوں مزید روزگار ملنے لگا ۔ اس طرح پہلے چین جس آبادی کو اپنے لیے بوجھ سمجھتا تھا وہ اب اس کے لیے قیمتی اثاثہ بن گئی ۔ چین کا سستا مزدور دنیا بھر کے سرمایہ داروں کی توجہات کا مرکز بن گیا۔ حکومت اس کو فروغ دینے کے لیے خصوصی صنعتی زون بنادیئے تو وہاں دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنے کارخانے کھول لیے۔ چین میں چونکہ مزدوروں کا استحصال سہل تر تھا اس لیے یوروپ اور امریکہ کے سرمایہ داروں نے ہندوستان پر اس کو ترجیح دی ۔ وقت کے ساتھ یہ ہوا دوسروں کے نام سے سامان بنانے والے چین نے ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اپنا نام قائم کرلیا ۔ آج ہندوستان میں دھڑلے سے نہ صرف چین کا مال بکتا ہے بلکہ یہیں بنتا بھی ہے اور سرھد پر ہونے والے ہنگاموں کے باوجود ہندوستان کے لوگ اس کوخوب خریدتے ہیں۔

چین کے اندر انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ پانی قدرت کا عظیم ترین تحفہ اور انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ چین کا رقبہ ہندوستان سے تین گنا زیادہ اور پانی چار گنا کم ہے اس کے باوجود وہاں پر پانی قلت پر قابو پالیا گیا ہے۔ چین میں زمین سے پانی نکالنے پر سخت پابندی ہے اس سے پانی سطح نیچے نہیں اترتی۔ کسانوں کو کم سے کم پانی کا استعمال کرکے اچھی فصل اگانے تربیت دی گئی ہے ۔اس لیے چین کا کاشتکارکم زمین کے باوجود ہندوستانی کسان سےزیادہ خوشحال ہے۔ صنعتوں سے آلودہ پانی کو دریا میں بہانے پر سخت جرمانہ لگایا جاتا ہے تاکہ تازہ پانی کو کثافت سے محفوظ رکھا جائے ۔ اس کے برعکسہماری گنگا دن بہ دن میلی ہوجاتی ہے۔ ملک میں بدانتظامی کا یہ عالم ہے کہ جس بہار کے اندر سب سے زیادہ سیلاب آتا ہے، وہیں سے پچھلے سال پانی کی قلت کی خبر بھی آگئی۔ اسی طرح چنئی جیسے ترقی یافتہ شہر میں برسوں سےیہ مسئلہ ہے۔

پانی کے بعد آج کل بجلی کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ توانائی کی پیداوار میں چین نےبتدریج کوئلہ اور تیل کے بجائے شمسی توانائی پر اپنا انحصار بڑھانے کی کوشش کی تاکہ بیرونی زرِ مبادلہ بچایا جاسکے ۔ اپنی ضرورت پوری کرتے کرتے آج وہ شمسی توانائی کے آلات بنانے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ ہندوستان کے لیے یہ بہت اہم شعبہ ہے کیونکہ اس سے تیل کی در آمد پر ہونے والا خرچ کم کیا جاسکتا ہے ۔ آج جب کہ ہم اس جانب توجہ دی ہے تو اس شعبے میں ہمارا 78 فیصد انحصار چین پر ہوگیا ۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان کے روایتی کوئلے اور تیل یا گیس سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں میں بھی چینی آلات لگے ہوئے ہیں ۔ گاڑیوں میں ایندھن اور اس سے ہونے والی فضائی آلودگی عصر حاضر کا ایک سنگین ماحولیاتی مسئلہ ہے ۔ اس سے نمٹنے کے لیے بیٹری والی گاڑی کا تجربہ کیا گیا ۔ ایک جائزے کے مطابق چین میں فی الحال دنیا کی سب سے زیادہ بجلی یعنی بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں ہیں۔
ادویات کی صنعت کو دیکھیں تو خام دواوں میں استعمال ہونے والے70 فیصد اہم اجزاء (active ingredients) چین سے درآمد ہوتے ہیں ۔ 2018-19 میں ہندوستان نے جو 26ہزار 700کروڈ کا کچا مال خریدا تھا اس میں سے 18ہزار کروڈ کا مال چین سے آیا تھا۔ طبی آلات کے معاملے ہماری پیداوار صرف 20 فیصد ہے جو 80فیصد باہر سے آتا ہے اس میں اچھی خاصی حصے داری چین کی ہے۔الکٹرانک سامان ہندوستان سے چین صرف 6-8 فیصد برآمد کرتا ہے جبکہ چین سے درآمد 50-60فیصد ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ موبائل فون ، کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن چین میں بنتے ہیں۔ 2018 میں چین نے 90% موبائل فون یعنی 18ہزار کروڈکی تعداد، 90% کمپیوٹر یعنی 30کروڈ اور 70% ٹیلی ویژن یعنی جملہ 20 کروڈ سیٹ بنائے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے چین اس میدان میں کہاں کھڑا ہے۔ ہندوستانی اس کے سب سے بڑے گاہک ہیں ۔ ہندوستان کے اندر سب سے زیادہ 30%شیاومی بکتا ہے اس کے بعد 17%ویوو۔ان دونوں چینیوں کے بعد کوریا کی سام سنگ کا نمبر آتا ہے جو16%پر ہے اور 14%ریل می نیز 12%پر اوپو یہ دونوں بھی چینی ہے۔

جدید ذرائع ابلاغ میں اعلیٰ ٹکنولوجی کی برآمد میں چین کا تناسب ہندوستان کے مقابلے دو گنا ہے۔ اس کی ٹھوس وجوہات ہیں ۔ چین کے اندر کمپیوٹر کے استعمال کی شرح فی ہزار ہندوستان سے چار گنا زیادہ ہے۔ عوام میں موبائل فون کے استعمال کا تناسب دیکھیں تو وہ چین میں ہندوستان کے مقابلے ۱۰ گنا زیادہ ہے۔ مستقل فون کی تعداد بھی تین گنا زیادہ ہے۔ آبادی کے اوسط سے ٹیلی ویژن استعمال کرنے والے ہندوستان سے چار گنا زیادہ ہیں ۔ چین میں باہر والوں کے ذریعہ نئی ایجادات کے پیٹنٹ ہندوستان کے مقابلے 6.2 گنا زیادہ رجسٹر ہوئے ہیں ۔ چینیوں نے خود اپنے ملک میں ہندوستان کے مقابلے 7.2 گنا زیادہ پیٹنٹ رجسٹر کئے اس سے وہاں ہونے والی سائنسی ایجادات کا ہندوستان کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گوگل پلے اسٹور پر 100 ٹاپ ایپس میں 50% چینی ہیں ۔چین میں تو پہلے سے نہ گوگل ہے اور نہ یو ٹیوب ہے جبکہ ہندوستان اتنے بڑے سانحہ کے بعد 59چینی ایپس پر پابندی لگانے پر مجبور ہوا ہے۔

ان تلخ حقائق سے بے خبر ہندوستان اب بھی اپنے آپ کو ٹکنالوجی کی دنیا کا شہنشاہ سمجھتا ہے کیونکہ ہمارے ملک 1500سے زیادہ آئی ٹی کمپنیاں ہیں جو عالمی پیمانے پرچھوٹے بڑے اداروں کو اپنی خدمات پیش کرتی ہیں لیکن بنے بنائے پروگرام کے مطابق کام کرنے اور نئے پرواگرام بنانے میں بہت بڑا فرق ہے ۔ دوسروں کا برانڈ بنانا اور اپنے برانڈ کو بیچنا مختلف کھیل ہے۔ امریکہ کی سیلیکون ویلی میں ہندوستانیوں کا دبدبہ رہا ہے لیکن اب وہاں بھی چینی ، روسی اور آئرش ماہرین سے مسابقت درپیش ہے۔ وہ ہندوستانیوں سے کم نرخ پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ انگریزی کا مسئلہ ان لوگوں نے بڑی تک حل کرلیا ہے اور ہندوستانیوں کے مقابلے پر آرہے ہیں ۔

ہندوستان اور چین کے درمیان ۱۹۶۲ میں ایک جنگ ہوچکی ہے اور اس میں اکسائی چن کا ۳۷ ہزار مربع کلومیٹر علاقہ اس نے ہم سے چھین لیا ۔ اس کے بعد بھی چین کسی زعم میں گرفتار نہیں ہوا بلکہ فوج کی جدید کاری پر مسلسل کام کرتا رہا۔ اس کے فوجیوں کی تعداد ہندوستان سے دوگنا ہے اور اسلحہ بھی کئی گناہے۔ ہندوستان آج بھی دوسری جنگ عظیم کے تجربات پر ناز کرتا ہے اور اسی طریقہ کو رائج کیے ہوئے ہے ۔ اپنی برتری کا مظاہرہ چین نے دو سال قبل ڈوکلام میں کیا اور اب گلوان میں کر چکا ہے ۔ میدان جنگ کے علاوہ انسانی ترقی کی شرح کے معاملے میں ہندوستان نے ہمیشہ ہی چینیوں کو حقیر سمجھنے کی غلطی کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ذریعہ کیے گئے جائزے کے مطابق چین ہندوستان سے ۲۹ء۱ گنا بہتر ہے کیونکہ وہاں صحت عامہ پر جی ڈی پی کی رقم کے خرچ کا تناسب ۳ گنا زیادہ ہے۔ ایک تو مجموعی جی ڈی پی کئی گنا زیادہ اس پر شرح بھی زیادہ تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہاں کی حکومت کو اپنے باشندوں کی صحت کا کتنا خیال کرتی ہے اور یہاں عام آدمی کی صحت کو کس طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔

چین میں معاشی مساوات کی صورتحال بھی ہندوستان سے بہتر بتائی جاتی ہے۔ وہ نہ صرف اپنے بلکہ ہندوستان کے پڑوسی ممالک سے بھی تعلقات درست کررہا ہے ۔ نیپال کے بعد اب سری لنکا بھی اس کی گود میں جاچکا ہے۔ چین نے جو یہ غیر معمولی ترقی کی ہے اس سے سبق سیکھ کر آگے کی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے ناٹک بازی چھوڑ کر حقیقت پسند بننا پڑے گا ورنہ دونوں ممالک کے درمیان کی یہ کھائی بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ ہمارے ملک میں عوام کی توجہات کو اصلی مسائل سے ہٹا کر جذباتی استحصال بہت ہوچکا ۔ میک ان انڈیا اور اسٹارٹ اپ انڈیا کے تماشے بھی بہت ہوئے لیکن ٹھوس کام نہیں ہوا ۔ ہندوستان میں خود انحصاری صرف تقاریر سے نہیں آئے گی ۔ ورچول انتخابی جلسوں میں چینی ایل ای ڈی جلاکر لالو کی لاٹین بجھانے کی کوشش سے بہار میں کمل تو کھل جائے گا مگر ہندوستان کا مستقبل روشن نہیں ہوگا ۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450958 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.