اتر پردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بن جانے کے
بعد ذرائع ابلاغ میں صرف ان کی تصاویر اور خبریں چھپتی تھیں۔ درمیان میں
کبھی کبھار پرینکا گاندھی ، اکھلیش یادو یا مایاوتی کا کوئی بیان منظر عام
پر آجاتا ورنہ دہلی میں مودی اور یوپی میں یوگی کے سوا کچھ سنائی ہی نہیں
دیتا تھا۔ وکاس دوبے نے پہلی بار یوگی کو خبروں کی دنیا میں بری طرح پچھاڑ
دیا ہے ۔ وہ کچھ اس طرح چھایا ہوا ہے یوگی کا بیان بھی اس کی طفیل پڑھا
جارہا ہے اور یوگی کا عمل بھی وکاس کے حوالے سے دیکھا جارہا ہے مثلاً اس کو
گرفتار کرکے رہیں گے یا وکاس کا گھر ڈھا دیا گیا وغیرہ ۔ وکاس دوبے تو دور
اس کے والد اور والدہ تک کا انٹرویو اخبارارت و الکٹرانک میڈیا کی زینت بن
رہے ہیں ۔اس کے والد تو خیر اپنے نور چشمی کو مجرم مانتے ہی نہیں۔ ان کے
مطابق وکاس نے اپنے بکرو سمیت آس پاس کے ۸۵ گاوں میں زبردست وکاس کیا ہے
اور وہ اسی کی بدولت جگمگا رہے ہیں۔
وکاس کی ماں سرلا یادو کا ایک بیان اخبارات میں خوبچل رہا ہے جس میں انہوں
نے کہہ دیا کہ انہیں اپنے بیٹے کے انکاونٹر پر کوئی افسوس نہیں ہوگا ۔سرلا
دیوی کا یہ بیان 1957 کی فلم مدر انڈیا کی یاد دلاتا ہے۔ مدر انڈیا اتر
پردیش کے دیہات کی کہانی ہے۔ اس میں فلم کا ہیرو برجو بھی وکاس کی مانند
ڈاکو بن کر اپنی ماں رادھا کی بندوق سے ہلاک ہوجاتا ہے۔ ماں کی گود میں
بیٹے کے دم توڑنے منظر اس فلم کے ناظرین بھلا نہیں سکتے۔ یہ اپنے وقت کی سب
سے مقبول فلم تھی ۔ اس آسکر ایوارڈ کے لیے غیر ملکی زبان کی فلموں میں
نامزد کیا گیا تھا ۔ راجکمار ہیرانی جیسا فلمساز وکاس انڈیا نام کی فلم کا
اعلان کردے تو بعید نہیں کہ وہ آسکر جیتنے میں کامیاب ہوجائے۔ فلم فیئر نے
مدر انڈیا کے ہدایتکار محبوب خان اورہیروئن مدھوبالا کو بہترین اداکاری کے
اعزاز سے نوازہ لیکن اسے سیاسی دنیا میں بھی بہت قبول عام حاصل ہوا۔ دہلی
کے پریمیر میں صدر مملکت اور وزیر اعظم کی شرکت کا اعزاز شاید ہی کسی فلم
کے حصے میں آیا۔سرلا دیوی کا یہ بیان کہ اگر وہ خود کو پولس کے سپرد کردے
تب بھی اس کا انکاونٹر کردیا جانا چاہیےہو بہو رادھا کی نقل ہے۔
مدر انڈیا کے برجو کی موت کے لیے رادھا کا منگل سوتر گروی رکھنے والا سود
خور لالہ سکھی لال ذمہ دار ہوتا ہے لیکن سرلا دیوی اپنے بیٹے کے بگاڑ کے
پیچھے سیاستدانوں کا ہاتھ بتاتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے ’وکاس کو نیتاوں نے
غلط راہ پر ڈال دیا‘ ۔عام طور پر سبھی ماوں کو اپنے بیٹے میں کوئی عیب
نظرنہیں آتا اور اگر ناقابلِ تردید ہو جائے تو وہ کسی باہری فرد کو اس کے
لیے ذمہ دار ٹھہرا دیتی ہے۔ برا ماحول ، غلط صحبت یا پھر کوئی نہ ملے تو
بیچاری بہو کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ سرلا دیوی کا ہے
لیکن وہ اپنے دعویٰ کی دلیل بھی پیش کرتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے اس
سے (سیاسی رہنماوں نے ) جرائم کروائے پھر جان کے پیچھے پڑگئے۔ وہ بتاتی ہیں
کہ وکاس پانچ سال بی جے پی میں ، پندرہ سال بی ایس پی میں اور پانچ سال
سماجوادی پارٹی میں رہا ہے ۔ یہ دلچسپ معاملہ ہے کہ اس براہمن باہو بلی کو
کسی سیاسی جماعت نے اچھوت نہیں سمجھا ۔ سرلا دیوی نہ جانے کیوں کانگریس کو
بھول گئیں حالانکہ بالکل ابتدائی ایام میں جب وکاس نے ہاتھ پیر کھولنے شروع
کیے تھے تو اس کے سر پر کانگریسی رکن اسمبلی نیک چند پانڈے کا ہاتھ بھی تھا۔
اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وکاس کی پرواز کو پانڈے جی کے آشیرواد
سےپر لگے ۔ وہ اگر اپنے نام کی طرح نیک ہوتے تو آج وکاس کا حال اتنا بد نہ
ہوتا۔
سرلا دیوی سوال کرتی ہیں اگر وہ اتنا ہی خراب تھا تو سیاسی جماعتوں اور اس
وقت کے وزرائے اعلیٰ نے اسے اپنی پارٹی میں شامل کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب
یہ ہے کہ اگر وہ سیاسی رہنما خود شریف ہوتے تو کسی بدمعاش کو اپنے ساتھ نہ
لیتے یا اگر کوئی جرائم پیشہ ان کے شرن (پناہ ) آجاتا تو نیک انسان بن
جاتا لیکن وہ تو خود بدمعاشوں کے سرغنہ تھے ۔ہندوستانی جیلوں کے بارے میں
یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی معمولی غنڈہ چند ماہ کے لیے جیل کے اندر
چلاجائے تو وہاں سے چھٹا ہوا بدمعاش بن کر برآمد ہوتا ہے لیکن سیاسی جماعت
میں شامل ہونے والے کو جیل جانے سے بچا کر وکاس کی مانند خونخوار وحشی بنا
دیا جاتا ہے۔ سرلا دیوی کے الفاظ میں ’’ یہ نیتا دور رہتے تو وکاس شانتی سے
اپنی زندگی جی رہا ہوتا ‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سیاسی رہنماوں نے اس ملک کے
وکاس کو وناش میں اور شانتی کو اشانتی میں تبدیل کردیا ہے ۔ اکیلے وکاس کی
تباہی کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی بربادی کے لیےان سیاسی رہنما وں کے
اقتدار کی حرص وہوس سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔
ہندوستانی سیاست میں جس وقت منڈل اور کمنڈل آیا اسی زمانے میں وکاس دوبے
کی مسیں بھیگ رہی تھیں اور وہ گبرو جوان ہوگیا تھا۔ اس نے جب آس پاس کے
علاقہ میں لوٹ مار شروع کی تو نیک چند پانڈے نے اپنا ذات بھائی سمجھ کر
سہارا دیا۔ پولس پکڑ کر تھانہ لے جاتی تو پانڈے جی کا فون چھڑا دیتا لیکن
وکاس ہری کشن شریواستو کو اپنا سیاسی گرو مانتا ہے ۔ چیلے سے پہلے اس کے
گرو کے بارے معلومات حاصل کرلی جائے تو ہندوستانی سیاست کی قلعی کھل جاتی
ہے اوراس حمام میں ساری جماعتیں برہنہ نظر آتی ہیں ۔ایمرجنسی کے بعد
1977میں انتخابات ہوئے تو ہری کشن نے جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر چوبے پور سے
الیکش جیتا۔ 1980 میں انہوں نے پھر سے جنتا پارٹی (ایس) جو بعد میں
سماجوادی بن گئی کے ٹکٹ پر کامیابی درج کرائی مگر 1984میں کانگریس کے نیک
چند پانڈے نے انہیں ہرا دیا۔ 1989 میں ہری کشن نے جنتا دل کے ٹکٹ پر پھر سے
کامیابی حاصل کرلی۔ یہ وکاس کی زندگی کا اہم موڑ تھا۔
وکاس دوبے نے1990 میں ۱۸ بیگھا زمین پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے ہی گاوں کے
جھنا بابا کا قتل کردیا ۔ اس کے خلاف رپورٹ درج ہوئی اور پھر واپس لے لی
گئی ۔ ظاہر ہے یہ کام رکن اسمبلی شریواستوکی مدد سے ہوا ہوگا ۔ اس کے بعد
ان دونوں کے بیچ چولی دامن کا ساتھ ہوگیا ۔ شریواستو کے ساتھ دوبے سائے کی
مانند چلنے لگا ’’یعنی تو جہاں جہاں چلے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا ‘‘ والا
نغمہ بجنے لگا۔ شریواستو کے ساتھ وہ بی جے پی سے لے کر بی ایس پی تک ہر جگہ
گیا۔ 1991میں ہری کشن شریواستو کو بی جے پی کے سومناتھ شکلا نے شکست دے دی
لیکن 1993 میں ہری کشن شریواستو بی جے پی کا کمل تھام کر پھر سے جیت گئے ۔
1996 میں بی جے پی نے ان کے بجائے سنتوش شکلا کو ٹکٹ دیا تو ہری کشن پینترا
بدل کر بی ایس پی کے ہاتھی پر چڑھ گئے اورکمل کو کچل دیا ۔ مایاوتی ۶ ماہ
کے لیے وزیر اعلیٰ بنیں تو اسمبلی کے صدر نشین یعنی اسپیکر شریواستو کو بنا
دیا ۔شریواستو جیسے موقع پرست کو بی جے پی میں شامل ہوتے ہی ٹکٹ مل جانا
اور بی ایس پی میں جاتے ہی اس کا اسپیکر بن جاتا ہندوستانی سیاست کی ابن
الوقتی کا غماز ہے ۔
1996کے انتخاب میں جہاں شریواستو کے سامنے بی جے پی کے سنتوش شکلا تھے وہیں
دوبے کے سامنے اس کا پرانا ساتھی للن باجپئی تھا۔ فتح کے جلوس میں وکاس نے
للن کے بھائی کو بہت مارا اور یہیں سے دونوں کی سیاسی مخالفت ذاتی دشمنی
میں بدل گئی۔ مایا وتی کی حکومت گرا کر جب بی جے پی اقتدار میں آئی تو اس
نے اپنے شکست خوردہ امیدوار سنتوش شکلا کو وزیر مملکت بنادیا ۔ 12 اکتوبر
2001 کو وکاس دوبے نے للن باجپائی کے گھر پر حملہ کردیا۔ للن نے مدد کے لیے
شکلا سے گہار لگائی تو وہ پولس کی مدد لینے کے لیے شیوالی تھانے پہنچے ۔
وہاں ان کا سامنا وکاس دوبے سے ہوگیا۔ دونوں کے دمیان ہونے والی کہا سنی
ہوئی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وکاس دوبے نے دن دہاڑے پولس تھانے میں صوبائی
وزیر مملکت کو سب کے سامنے گولیوں سے بھون دیا۔ وہاں پر پانچ سب انسپکٹر
اور 25حوالدار موجود تھے لیکن کسی کی مجال نہیں ہوئی کہ اسے گرفتار کرتا۔
اس وقت لکھنو اور دہلی دونوں مقامات پر بی جے پی کی حکومت تھی۔ موجودہ
وزیردفاع راجناتھ سنگھ وزیر اعلیٰ ، لال کرشن اڈوانی مرکزی وزیرداخلہ اور
اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے اس کے باوجود کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے
کہ وہ سب اپنیہی پارٹی کے وزیرسنتوش شکلا کے قاتل کو گرفتار نہیں کرواسکے ۔
2002میں جب مایاوتی پھر سے وزیر اعلیٰ بنیں تو اس نے ازخود اپنے آپ کو
پولس کے حوالے کیا اور کہا جاتا ہے اس وقت بی ایس پی کے کئی رہنما اس کے
ساتھ تھے حالانکہ اسے پارٹی سے نکالا جاچکا تھا مگر وہ دھڑلے سے کہتا پھرتا
تھا کہ وزیر اعلیٰ اس سے ناراض نہیں ہیں ۔ آگے چل کر ملائم سنگھ کے زمانے
میں نچلی عدالت نے وکاس دوبے کو بری کردیا کیونکہ کسی پولس والےنے وکاس کے
خلاف گواہی دینے کی ہمت نہیں دکھائی یہاں تک کہ سنتوش کا ذاتی محافظ بھی
اپنے بیان سے مکر گیا ۔ دوبے کی رہائی کے خلاف اعلیٰ عدالت میں مقدمہ لے
جانے حوصلہ نہ تو اس کے بھائی منوج شکلا میں تھا اور نہ ملائم سنگھ کے
انتظامیہ نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی زحمت کی ۔ ایسے میں اگر وکاس کا
حوصلہ بلند نہیں ہوتا تو کیا ہوتا؟
اتر پردیش میں مختلف سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی اور جاتی رہیں لیکن
وکاس دوبے کے وکاس (ترقی) پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ پچھلے الیکشن کئ بعد
یوگی ادیتیہ ناتھ نے کمان سنبھالی تو اعلان کردیا کہ اب صوبے کو جرائم سے
پاک کردیا جائے گا ۔ مجرم یا تو جیل میں جائیں گے یا اوپر جائیں گے ورنہ کم
ازکم صوبے سے باہر بھاگ جائیں گے ۔ دس پولس والوں کو ہلاک اور پانچ کو زخمی
کرنے کے بعد یوگی کی آخری پیشکش کو قبول کرکے وکاس دوبے غالباً صوبہ چھوڑ
کر بھاگ گیا ہے۔
ویسے 2017میں یوگی کی ایس ٹی ایف نے اسے گرفتار تو کرلیا تھا مگر صرف اسلحہ
رکھنے کا معمولی الزام لگایا ۔ 2018 کے اندر جیل میں بیٹھے بیٹھے اس نے
اپنے چچا زاد بھائی انوارگ دوبے پر جان لیوا حملہ کروا دیا ۔ اس کی نامزد
شکایت انواگ کی اہلیہ سروج دوبے نے کی اس کے باوجود اعظم خان کو جیل بھیجنے
کے لیے آکاش پاتال ایک کردینے والے یوگی اور کفیل خان پر ضمانت ملتے ہی یو
اے پی اے لگانے والا انتظامیہ وکاس دوبے پر اس قدر مہربان تھا کہ اسے رواں
سال فروری میں ضمانت مل گئی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے باہر آکر۵ ماہ
بعد یوگی کی ناک کاٹ دی ۔ مشیت کا عجب فیصلہ ہے کہ چین نے مودی کی لال
آنکھوں کو نم کردیا اور وکاس نے یوگی کی قینچی جیسی زبان کو زنگ آلود
کردیا ہے۔
یوگی ادیتیہ ناتھ نے جو دعویٰ کیا تھا اس کی پول تو قومی جرائم کے ادارےکی
رپورٹ کھول دی ہے۔ این سی آر بی نے 2018کے بعد کے اعدادو شمار شائع نہیں
کیےاس لیے اسی کی بنیاد پر جائزہ ممکن ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق 2018 میں
مجموعی اعتبار سے اکیلے اتر پردیش میں سب سے زیادہ پانچ لاکھ پچاسی ہزار
جرائم درج ہوئے۔ ان میں سنگین نوعیت کے مثلا! قتل و عصمت دری جیسے جرائم 4
لاکھ 28 ہزار تھے یہاں بھی اتر پردیش 65 ہزار کے ساتھ پہلے نمبر پرتھا ۔
صرف قتل کو دیکھیں تو کل 29 ہزار میں سے ۴ ہزار یعنی سب سے زیادہ یوپی میں
۔ ایک لاکھ اغواء کی وارداتوں میں 21 ہزار یوپی میں۔ دلتوں کے خلاف 42ہزار
معاملے درج ہوئے اس میں سب تقریباً 12ہزار کے ساتھ یوپی سب سے آگے ۔خواتین
اور بچوں پر ہونے والے مظالم میں بھی اترپردیش نے ہی طلائی تمغہ جیتا۔
اترپردیش معاشی معاملے میں تو خاصہ پسماندہ ہے لیکن معاشی جرائم وہاں سے
زیادہ ہوئے تھے۔یہاں تک کہ سائیبر کرائم میں یوگی جی کے اترپردیش نے بازی
مارلی۔
جرائم کی دنیا میں اترپردیش کے رستم ہند کہلانے کی وجہ یہ ہے وہاں صرف 6
فیصدملزمین کو سزا ہوئی تھی۔ 4 لاکھ 27ہزار میں سے تقریباً 10ہزار ثبوت کی
کمی کے سبب رہا ہوگئے اور 37ہزار سے زیادہ کو عدالت نے بری کردیا ۔اس میں
بھی کسی نہ کسی حد تک انتظامیہ کی کاہلی ملی بھگت کار فرما ہوتی ہے۔ پولس
والوں کے قتل کا اعداد دیکھیں تو ۷۰کے ساتھ یوپی سب سے اوپر ہے ۔ ایسا کیوں
ہوتا ہے؟ اس کو ایک مثال سے سمجھیں ۔ یوگی راج کے چلتے بلند شہر میںانسپکٹر
سبودھ کمار کو ہندو انتہا پسندوں کی بھیڑ کھلے عام قتل کردیا ۔ قاتلوں کی
ضمانت کاجشن منایاگیااورڈھول تاشوں استقبال کیا گیا ۔ اس سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے یوگی اور اس کے بھکتوں نے ریاست میں پولس کا کیا حال بنا رکھا ہے
۔ ایسے میں وکاس دوبے اگر پولس افسردیویندرمشرا کو گولی مارنے کے بعد
کلہاڑی سے پیر اور سر کٹوا دے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ؟ ہاں اس
جرم کے بعد بھی اس کا گرفتار نہ ہونا ضرور حیرت انگیز ہے۔
یوگی ادیتیہ ناتھ میں غیرت ہوتی تو پولس پر اس حملے کے بعد استعفیٰ دے دیتے
کیونکہ وزارت داخلہ کا قلمدان بھی ان کے اپنے پاس ہے لیکن بی جے پی کے
رہنماناگزیر مجبوری کے بغیر نہ تو استعفیٰ دیتے ہیں اور نہ ہتائے جاتے ہیں
۔ یہ ان کی پرانی روایت اور بدقسمتی سے یہ لوگ اس کو فخر سے بیان بھی کرتے
ہیں ۔ وکاس دوبے کی ضمانت کے لیے بی جے پی سرکار کا تعاون اب کوئی راز نہیں
رہا ۔ اترپردیش کے وزیر قانون برجیش پاٹھک کے ساتھ وکاس کی تصویر چیخ چیخ
کرکہہ رہی ہے کہ اس کے آگے قانون ہاتھ باندھے کھڑا ہے ۔ 2017 کے ایک ویڈیو
میں وکاس دوبے یہ کہہ چکا ہے کہ اس کو بچانے کے لیے بی جے پی کے رکن اسمبلی
بھگوتی ساگر اور ابھیجیت سانگا نے پیروی کی تھی ۔ اسی طرح مقامی رہنما
راجیش کمل اور گڈن کٹیار بھی شامل تھے ۔ اب یہ دونوں رہنما اپنے تعلق کا
انکار کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت کیوں نہیں کیا؟
سب سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کے نہیں تو کس کے تعاون سے اسے
یہ قتل عام انجام دینے کے لیے چھوڑا گیا۔ اتنا بڑا فساد کرنے کے باوجود وہ
کیسے غائب ہوگیا ؟ اس کی رہائی اور روپوش ہونے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟
پولس اس کو گرفتار کرنے کے لیے لکھنو کے علاوہ دہلی میں بھی چھاپے مارر ہی
ہے تو کیا وکاس دوبے کے ہمدردو بہی خواہ دہلی میں بھی براجمان ہیں ۔ ویسے
کون اس حقیقت کا انکار کرسکتا ہے کہ ان دونوں مقامات پر فی الحال کمل کھلا
ہوا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر سرلا دیوی کی بات پر یقین کرنے کے سوا کوئی
چارہ نہیں ہے کہ سیاستدانوں نے اس کے بیٹے کو بگاڑا ہے۔ اس بیان میں یہ
اضافہ درکار ہے کہ اب وہی اس کو چھپا اور بچا رہے ہیں ۔ مدر انڈیا میں شکیل
بدایونی نے ایک بہت مشہور نغمہ لکھا تھا ’نہ میں بھگوان ہوں نہمیں شیطان
ہوں ، دنیا جو چاہے سمجھے میں تو انسان ہوں ‘ فی الحال وہ اس طرح ہوگیا
ہے’نہ میں وشواس ہوں اور نہ وناش ہوں ، دنیا جو چاہے سمجھے میں تو وکاس
ہوں‘ ۔ ویسے مودی اور یوگی کے یگ میں وکاس کی تعریف بھی بدل گئی ہے۔
|