وطنِ عزیز کو وجود میں آئے 73سال بیت گئے ۔اس کے ہم عمر
ممالک اس طویل عرصہ میں ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد ترقی کے منازل طے
کرتے ہوئے بامِ عروج پر پہنچ گئے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نہ صرف یہ کہ
وہیں کھڑے ہیں بلکہ پیچھے کے طرف دھکیلے گئے ہیں ، پہلے بیس سال خصوصا فیلڈ
مارشل محمد ایوب خان کا دورِ حکومت ترقی کا دور رہا ۔ صنعت،تجارت اور زراعت
میں ایوب خان کے دور میں بے مثال ترقی ہوئی ۔پاکستان ترقی کے لحاظ سے ایشیا
میں جاپان کے بعد دوسرے نمبر پر تھا ۔ان کے دورِ حکومت میں 19958 سے 1969تک
امریکی ڈالر تین روپے سے پانچ روپے کے برابر رہا ۔ سونے کی قیمت 160روپے سے
200روپے فی تولہ رہی ،ملک میں ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں لگیں
۔ورسک ڈیم، منگلا ڈیم اور تربیلہ جیسے بڑے ڈیمز بنے۔ لاہور تا خانیوال
الیکٹرک ٹرین شروع کی گئی(بعد میں نام نہاد جمہوریت پسندوں نے بجلی کے تار
اور کھبے بھی بیچ ڈالے ) سکھر میں ریلوے کا نیا پل بنایا گیا ۔ اسلام آباد
جیسا خوبصورت شہر،محفوظ دارالحکومت تعمیر کیا گیا ۔صدر ایوب نے اپنے دورِ
اقتدار میں دس بجٹ پیش کئے اور نئی نسل یہ سن کر حیران ہو گی کہ یہ تمام
بجٹ خسارے کے بجائے بچت کے بجٹ تھے ۔
اس وقت کے وزیر خارجہ ذولفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی ۔
ایوب خان نے کنارہ کشی اختیار کر لی۔اس کے بعد ہم نے جمہوریت کے مزے لینا
شروع کر دئیے ۔ قائد اعظم کا دیا ہوا ملک دو ٹکڑے ہوگیا مشرقی پاکستان سے
بنگلہ دیش بنا اور یوں پاکستان پر کالی رات چھانے لگی جو تادمِ تحریر جاری
و ساری ہے۔ بے شک کچھ اچھے کام بھی ہوئے ہیں مگر اجمالی طور پر پاکستان بیک
فٹ پر ہی کھیلتا رہا اور آج حالت یہ ہے کہ ہر محبِ وطن پاکستانی اس سوچ میں
ڈوبا ہوا ہے کہ ۔پاکستان کب سدھرے گا ؟ اس کے لیڈر اور عوام کب سدھریں گے ؟کیونکہ
پاکستان کے غریب عوام نے ہر آنے والے حکمران سے بڑی امیدیں وابستہ کیں مگر
نتیجہ سب کا صفر ہی رہا ،عوام بیچارے اب بھی غربت کے سمندر میں ہچکولے کھا
رہے ہیں۔
راقم الحروف اس پیارے وطن کے سدھارنے اور غریب عوام ک حالت بہتر بنانے کے
لئے ایک ایسی تجویز پیش کرنا چاہتا ہے ،جس سے چوروں لٹیروں کو ہر گز اتفاق
نہیں ہو گا بلکہ میری اس تجویز کووہ جرم سمجھیں گے، لیکن محبِ وطن اور پڑھا
لکھا طبقہ اسے وقت کی ضرورت سمجھ کر ناگزیر سمجھے گا۔ مسلمانوں بلکہ پوری
بنی نوع انسانیت کے لئے بہترین ضابطہ حیات اور راہِ ہدایت قرآنِ مجد فرقانِ
حمید ہے اور میری یہ تجویز بھی اسی رشدِ ہدایت سے اخذ کردہ ہے۔ اگر ہم قران
مجید کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں واضح طور پر یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ
اﷲ تعا لیٰ نے اس دنیا کو ہمارے لئے ایک امتحان گاہ بنایا ہے ۔یہاں نیکی کا
ماحول بھی ہے اور بدی کا ماحول بھی ہے۔جو لوگ نیکی کی راہ پر چلیں ان کے
لئے جزا اور جو بدی کی راہ پر چلیں ،ان کے لئے سزا کا تصور عین اسلامی اور
معاشرے کے لئے خیر و برتر کا باعث ہو گا۔ قران مجید میں جہاں جنت کا ذکر ہے
وہاں جہنم کا ذکر بھی موجود ہے ۔ اس فانی دنیا میں بھی امن قائم رکھنے اور
معاشرے کو فساد سے بچانے کے لئے حدود کی سزا بھی مقرر ہے ۔ فساد کے معنی
بہت وسیع ہیں ،جس میں وہ تمام برائیاں شامل ہیں جو آج کل وطنِ عزیز میں سرِ
عام ہیں ۔ مثلا
سرکاری خزانہ کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا، رشوت لینا یا دینا،
زنا ، سود خوری، اپنے فرائض منصبی میں کو تاہی ،کم تولنا، جھوٹ بولنا یہ سب
ایسے جرائم ہیں جن کے بارے میں قران مجید نہ صرف سختی سے تنبیہ کرتا ہے
بلکہ سزا بھی تجویز کرتا ہے ۔ سورت المائدہ آیت نمبر ۳۳ میں علی لعلان سزا
دینے کی تائید کی گئی ہے ۔مفسد فی الارض ( جیسے کہ پاکستان میں لوگ کر رہے
ہیں ) کو چار قسم کی سزا وئں کا ذکر ہے ۔
(۱) قتل (۲) ہاتھ اور پاوئں کا ٹنا (۳) صولی پر چڑھانا (پھانسی دینا (۴)
جلا وطن کرنا ۔
اگر وطنِ عزیز میں موجودہ آئین کو (جو انسان کا بنا ہوا ہے ) مکمل طور پر
منسوخ کیا جائے اور اس کی جگہ اﷲ کا دیا ہوا آئین نا فذ کیا جائے تو مجھے
سو فی صد یقین ہے کہ پاکستان کا ہر طبقہ،خوا ہ امیر ہو یا غریب ،سزا کے خوف
سے سدھر جائے گا ۔کیونکہ انسان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ بغیر سزا کے وہ سدھر
نہیں سکتا ۔ہم دیکھتے ہیں کہ جن ممالک میں سزا و جزا کا عمل موجود ہے وہاں
کا معاشرہ پر سکون ہے کیونکہ وہاں کا رہنے والا انسان سزا کے خوف سے جرم
کرنے سے دور بھاگتا ہے مگر وطنِ عزیز میں چونکہ سزا کا خوف ہے ہی نہیں ،خصوصا
مالدار طبقہ کو تو بالکل ہی کوئی خوف نہیں ،اس لئے یہاں لوٹ مار اور ہر قسم
کے اعمالِ بد روز دیکھنے میں آتے ہیں ۔ اب اس ملک کو سدھارنے کا ایک ہی
طریقہ رہ گیا ہے اور وہ ہے سخت ترین سزاوں کا نفاذ، جو موجودہ قائم عدالتی
نظام میں ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس کے لئے پورے نظام کو تلپٹ کر کے نئے نظام کا
قیام لازمی ہے ورنہ ایک عمران خان کیا ،سو عمران خان بھی آجائیں ،پاکستان
کا سدھرنا ناممکن ہے۔ |