اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اور مذہب پر سیاست۔

ہم نے دیکھا کہ جب بھی کوئی کسی غیر مسلم کی تائید میں انکے حق میں با ت کی جائے تو بات کرنے والے پر لا دین ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جا تا ہے۔ گذشتہ کئی روز سے پاکستان کے اخبارات، ٹیوی چینلز اور سوشل میڈیا پر اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مندر کا تعمیراتی کام رکنے کی بنیادی وجہ مذہبی امتیاز ہے تاہم حکومتی بیانات میں اس تاثر کی تردید کی گئی ہے۔اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر سی ڈی اے کا مؤقف ہے کہ ’تعمیراتی کام بلڈنگ پلان موصول نہ ہونے کی وجہ سے معطل کیا گیاہے جبکہ دوسری طرف ہمارے اسلام کے داعی یہ دعویٰ کرتے دکھایے دیتے ہیں کہ ہمارے سر کٹ جائینگے مگر ہم مندر کی تعمیر نہیں ہونے دینگے۔ کیوں؟کیا اسلام ہمیں کسی کی عبادت گاہ کی تعمیر کو روکنا جائز ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ بات زہن نشین کر لینی چاہئے کہ پاکستان ایک اسلامی سٹیٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک قومی ریاست ھے اور قومی ہو یا اسلامی ریاست ہو جو لوگ اس ملک کے برابر کے شہری ہیں اور ٹیکس دیتے ہیں انہیں اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے اور ان میں عبادت کرنے کا پورا پورا حق ویسے ہی ہے جیسے وہاں کے دوسرے شہریوں کو ہے۔ ریاست میں رھنے والے تمام مذاہب کے شہریوں کا یہ حق ہے کہ انہیں ویسے ہی تحفظ دیا جانا چاہئے جیسے اوروں کو ہے۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ اقلیتوں کے برابر کے حقوق ہیں اور ہم انہیں پریکٹیکلی پورا نہیں کر رہے تو ہمیں اپنے پرچم سے سفید رنگ کو نکال دینا چاہئے سفید رنگ کا مطلب ہی اقلیتوں کو تو تحفظ فراہم کرنا اور انہیں برابر کے حقوق دینا ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھیں تو ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 25 کروڑ کے لگ بھگ ہے تو کیا ایک ہندو ریاست ہونے کے ناطے انہیں بھی مسلمانوں کو انکی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہی دینی چاہئے۔ اور ایک غدر پیدا کرکے وہ بھی مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیں اور انکی عبادتگاہیں بند کر دی جائیں اور مساجد بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔ کیا مغربی ممالک اور امریکہ میں جو مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہیں وہاں بھی تحریک چلے اور مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا جائے اور انہیں عبادتگاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اگر ایسا ھو گیا تو ایک خوفناک بین المزاہب جنگ چھڑنے کا امکان پیدا ہو جائیگا اسطرح مزہب کے نام پر ہونے والی اس جنگ میں کشت و خون ہوگا اور لاکھوں لوگ مارے جایئنگے۔ اگر اسلام آباد میں ہندو رہتے ہیں تو یہ انکا حق ھے کہ وہ اپنی عبادت گاہ بنائیں اور عبادت کریں۔جیسے اور لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ویسے ہی پاکستان میں رہنے والے اور مزاہب کے لوگ بھی ٹیکس دے رہے ہیں اور یہ انکا حق ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ بنائیں۔ اگر ہم اپنا اسلامی راج قائم کرنا چاہتے ہیں اور خالصتاً وہاں پر مسلمانوں کے سوا کوئی اور نہ ہو کی بنیاد پر ایک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور ہم غیر مذاہب کو حقوق نہیں دینا چاہتے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ غیر مسلموں کو یھں سے اس بنیاد پر نکال دو۔ حاسلانکہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی ریاست میں کسی کی حقوق زنی نہیں ہونی چاہئیے کہ ریاست ایک ماں کے جیسی ہے اسمیں رھنے والوں کے حقوق بلا تخصیص مزہب، ذات پات اور رنگ و نسل و زباں یکساں ہوا کرتے ہیں۔

ہندو ارکان اسمبلی نے2017 میں عبادت گاہ کی تعمیر کیلئے ہیومن رائٹس کمیشن میں درخواست دی تھی۔ وزارت انسانی حقوق کی درخواست پر وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) نے 2020 میں مندر کیلئے جگہ الاٹ کی۔

فی الحال ہندو برادری مندرکاسنگ بنیاد اور تعمیر اپنے وسائل سے کر رہے ہیں تاہم انہوں نے حکومت سے فنڈز کی اپیل بھی کی ہے کیونکہ وہ پاکستانی شہری ہونے کے ناظے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ہندو برادری کی عبادت گاہ کیلئے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن ٹو میں جگہ مختص کی گئی ہے جو انکا پاکستانی ہونے کے ناطے حق ہے۔اقلیتی ارکان پارلیمنٹ نے وزارت مذہبی امور کو بھی مندر کی تعمیر کیلئے فنڈ زکی درخواست کی تھی تاہم وزارت مذہبی امور کا کہنا ہے کہ وہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی تعمیر کیلئے فنڈز جاری نہیں کرتی ہے۔ عدالت میں مندر کی مخالفت میں درخواست گزار وکیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ مندر کی تعمیر کے لیے پیسے دینا فضول خرچی ہے۔ کیا بھونڈی دلیل دی ہے قابل شرم ہے۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو مسلم حکمرانوں نے ایودھیا، چترکوٹ، ماتھورا وغیرہ میں بہت سارے مندر اور مذہبی عمارتیں تعمیر کروائیں۔ مغل بادشاہ اکبر، جہانگیر نے مندروں کو بہت ساری جگہیں مہیا کیں۔ اکبر بادشاہ نے رامائن، مہابھارت اور بائبل کو فارسی میں ترجمہ کروایا۔ اودھ کے نوابوں نے ایودھیا مندر کے لیے گرانٹس مہیا کیں۔ نواب صفدر جنگ نے ایودھیا میں بہت سے مندر تعمیر کروائے۔

میری تشویش یہ ہے کہ کیا اس بار بھی مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا؟ کیا عمران خان صاحب کے خلاف بھی مذہب سے اسی طرح مدد لی جائے گی جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے؟ اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ مذہب کے ساتھ وفاداری ہو گی نہ ملک کے ساتھ بلکہ ہم اسے مذہبی کارڈ کا نام دینگے۔ عمران خان کی مخالفت سیاسی بنیادوں پر ہونی چاہیے نہ کہ مذبب کی بنیاد پر۔ مذہب کے سیاسی استعمال نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں ہی کو نہیں ریاست کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ حذب اختلاف بھی اس موقع پر اس کو غنیمت جان کر مذہب کے نام پر خکومت کو مندر کی تعمیر کے نام پر بدنام کرنا چاہتی ہے۔ اور اسے مذہبی کارڈ کے طور پر استعمال کر کے اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تا کہ حکومت کو بدنام کیا جا سکے۔ ہر سیاسی جماعت آگے بڑھ کر خود کو اسلام کا محافظ ثابت کر رہی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی سے سندھ اسمبلی تک، مذہبی شعار کے دفاع کا فریضہ وہ لوگ سر انجام دے رہے ہیں جو بظاہر مسلمان ہیں مگر اسلام کے نام پر ایک دھبہ ہیں۔ کسی طرح بھی مکمل طور پر یہ سیاست دان اسلامی شعایر کی پابندی نہیں کرتیہیں شاید ٹھیک سے نماز میں پڑھنے والی آیات بھی مشکل سے ہی آتی ھونگی اور وہ اسلام کے مطابق زندگی تو کیا گزارتے ہونگے وہ تو ہمارے آئین کے مطابق نہ ہی سچ بولتے ہیں اور نہ ہی وہ لین دین کے معاملے میں ایک اچھے مسلمان ہیں۔ ملکی خزانے کی چوری میں ملوث، امانتون مین خیانت کرنے والے اور نہ جانے کیا کیا ایسے بے ایمان اور جھوٹ?سیاستدانوں کی رگ مسلمانی بھی پھڑک اٹھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں مندر تعمیر کئے جانے کیخلاف قرارداد پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کر ادی ہے رکن اسمبلی کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب ہے اورقرآن مکمل ضابطہ حیات ہے۔وزیر اعظم کی جانب سے سرکاری فنڈ استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر قر آن و سنت کی خلاف ورزی ہے۔ اسلام آباد کے صرف 178ہندو ووٹرز کیلئی20ہزار مربع فٹ پر 100ملین کی رقم مختص کرنے سے عوام کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں جو ہماری سیاست کا ایک حصہ ہے اور ہمارے سیاستدان مندر کی تعمیر پر اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں اسکے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمیں ہوش سے کام لیتے ہوئے ایسے سنگین معاملات کو سیاسی ایشو بنا کر ملک کے ماحول کو خراب ہونے سے بچانا ہے تاکہ امن رہ سکے اور بین المزاہبب ہم آہنگی قائم رہے۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.