طالبان کو روسی اسلحہ کی فراہمی کا تنازعہ

 طالبان پر روس سے اسلحہ لے کر امریکیوں پر حملے کرنے اور ان حملوں کے بدلے روس سے انعامات وصول کرنے کے الزامات دوران اشرف غنی مذاکرات کی آڑ میں نئی جال ڈال رہے ہیں۔یہ الزامات نہیں بلکہ طاقتور امریکی ادارے سی آئی اے کی صدر ٹرمپ کو پیش کی گئی رپورٹیں ہیں۔ جن کی بنیاد پر امریکی افواج کے چیئرمین آف دی جائنٹ چیفسز آف سٹاف جنرل مارک مائیلی کہتے ہیں کہ امریکہ کو یقین ہے کہ ماضی میں روس نے افغانستان میں طالبان کی مدد کی تھی، مگر کیا وہ اب بھی ایسا کر رہا ہے اور کیا اُس نے امریکیوں پر حملے کروائے یا اس نے امریکی افواج کے اہلکاروں پر قاتلانہ حملوں کیلئے طالبان کو انعامی رقوم ادا کیں، اس بارے میں کوئی مصدقہ معلومات موجود نہیں۔تا ہم اپنے یقین کے زرائع کو بے نقاب کئے بغیر وہ کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے اپنے حلفیہ بیان میں بتارہے ہیں کہ رقوم دینے کے حوالے سے ان کے پاس کوئی انٹیلی جنس معلومات نہیں ہیں۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس سے قبل قانون سازوں کو اِسی بارے میں ایک الگ خفیہ بریفنگ دی گئی تھی۔جنرل مائیلی اور وزیر دفاع مارک ایسپرکا اعتراف ہے کہ امریکی افواج کو مختلف انٹیلی جنس ادارے معلومات فراہم کرتے ہیں، جن میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی(این ایس اے) اور ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی(ڈی آئی اے) بھی شامل ہیں، اور یہ ادارے بھی رقوم دینے کے حوالے سے موصولہ اطلاعات کی تصدیق نہیں کرسکے، جو سی آئی اے نے فراہم کی تھیں۔ جنرل مائیلی نے اس سے انکار نہیں کیا کہ دیگر ملکوں کی طرح، روس بھی افغانستان کے معاملات میں طویل عرصے سے ملوث ہے۔اس پر ایک بار پھر سے نئی بحث چھڑ سکتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ امریکی اداروں کے درمیان رسی کشی جاری رہی ہے۔ جن ممالک کے خفیہ ادارے آپس میں لڑ رہے ہوں اور کریڈٹ برادر ادارے سے چھین کر اپنے سر سجانے کی دوڑ میں مصروف ہوں، ان ممالک کو زوال پذیر ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کے برعکس جن ریاستوں کے ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں، باہمی تعاون اور اشتراک پر عمل کریں، بلکہ ایک دوسرے کے معاون اور مدد گار بنیں ، وہی ممالک دشمنوں کی ناکامی اورملکی استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف سی آئی اے روس پر طالبان کی مدد کا الزام عائد کر رہی ہے اور اس کی برادر ایجنسیاں این ایس اے اور ڈی آئی اے اس کی نفی کر رہی ہیں۔اس کا اندازہ مارک ایسپر کے ہمراہ، جنرل مائیلی کا کانگریس کمیٹی کے سامنے سماعت کے دوران بیان ہے کہ امریکہ کو طالبان کوروسی اسلحے کی فراہمی اور دیگر امداد فراہم کئے جانے کے بارے میں علم ہے۔ لیکن، فوجی کاروائیوں کیلئے اسلحہ فراہم کرنا اور پھر اہداف کی ہدایات دینا دو مختلف باتیں ہیں۔سی آئی اے روس پر صدر ٹرمپ کی کامیابی کے لئے انتخابات کے دوران مداخلت کے الزامات بھی عائد کر چکی ہے۔ مگر طالبان کی روسی امداد کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو اہداف سے الگ کیا گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ روس کے حوالے سے ہمارے پاس ایسے کوئی ٹھوس شواہد یا مصدقہ انٹیلی جنس نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ روس نے حملوں کے لئے طالبان کو امریکی اہداف مہیا کئے، جو ایک با لکل ہی مختلف بات ہے۔

طالبان کو شکست دینے میں بری طرح ناکام ہونے والاامریکہ اور اس کے اتحادی طالبان کی کامیابی کا کریڈ ٹ الزام اور ٹکراؤ کی صورت میں روس کے سر ڈال رہے ہیں۔ امریکہ اس معالے کی چھان بین کر رہا ہے اور اگر اس کی تصدیق ہو گئی کہ روس نے طالبان کو امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے پر انعام رکھا تھا، تو پھر یہ بات بڑھ جائے گی۔بات بڑھنے کیا مستقبل میں کیا مطلب ہو گا، یہ امریکی ہی جانتے ہوں گے۔ ری پبلکن سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو کہ روس کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، انٹیلی جنس معلومات کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اس بارے میں کوئی بریفنگ نہیں دی گئی۔ تاہم گزشتہ ماہ، اخباری اداروں نے اِس کا انکشاف کیا تھا۔صدر ٹرمپ کے زبردست حامی ریپبلکن قانون ساز، لی زیلڈِن نے ایوان کی خارجہ امور سے متعلق قائمہ کمیٹی کے سامنے سماعت کے دوران کہا تھا کہ رواں سال فروری میں صدر کیلئے ایک تحریری بریفنگ تیار کی گئی تھی لیکن انہیں زبانی طور پر بریفنگ نہیں دی گئی۔افغانستان میں امریکی فوج کے سابق کمانڈر، ریٹائرڈ جنرل جان نکلسن کا بھی کہنا ہے کہ ماضی میں روس طالبان کو اسلحہ اور دیگر آلات سمیت معمولی رقوم فراہم کرتا رہا ہے۔تاہم، جنرل نکلسن کا کہنا تھا کہ ماضی میں روس نے احتیاط برتنا شروع کی تا کہ میدان جنگ میں اس کا نام کسی بڑے کھلاڑی کے طور پر نہ لیا جائے۔ جنرل نکلسن نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ طالبان نے روس سے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن، روس نے میزائل فراہم نہیں کئے۔ اگر روس کی طالبان کو اسلحہ کی فراہمی کے معاملہ نے طول پکڑ لیا تو اس سے ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے لئے بعض مشکلات کا خدشہ ظاہر کیا جائے تا ہم اسلام آباد کو اس تنازعہ سے دور رکھنے کی تدابیر اور طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طالبان اور پاکستان کے روابط کے الزامات نئی بات نہیں۔ اسی دوران امریکہ کے ہی پیروکارافغان صدر اشرف غنی نے کابل میں ویڈیو کے ذریعے افغان امن عمل سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی عمل میں شرکت کر کے طالبان اسلامی جمہوریہ کا حصہ بن سکتے ہیں اور اپنے سیاسی دعوؤں کو فروغ دے سکتے ہیں۔صدر غنی واضح کر رہے ہیں کہ حکومتِ افغانستان کے پاس یہ استعداد اور سیاسی عزم موجود ہے کہ وہ چار عشروں سے زائد طویل افغان تنازع کو حل کرا سکے۔اس ورچوئل اجلاس میں افغانستان کے بین الاقوامی پارٹنرز کے 18 نمائندے اور بین الاقوامی تنظیموں کے چار نمائندگان شریک ہوئے، جن میں اقوام متحدہ، یورپی یونین اور نیٹو شامل ہیں۔اجلاس کے آغاز پر صدر غنی نے ایک بیان جاری کیا جس میں افغان حکومت کی جانب سے حاصل کردہ حالیہ پیش رفت کی تفصیل بیان کی گئی، جس کی بدولت بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ حکومتِ افغانستان کا طالبان سے مطالبہ ہے کہ وہ بین الافغان بات چیت کے آغاز کی واضح تاریخ کی تصدیق کریں۔ صدر غنی نے سب کی شراکت داری سے افغان مذاکراتی وفد تشکیل دیا ہے جو مذاکرات کی شروعات کے لیے تیار ہے۔اہم بات یہ ہے کہ قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ، عبداﷲ عبداﷲ بھی صدر غنی کے اظہار خیال کی تائیدکر رہے ہیں۔مگر وہ طالبان پر تنقیدبھی کرتے ہیں کہ انھوں نے اب تک ملک میں تشدد کی کارروائیاں بند نہیں کیں اور امن عمل کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ کا باعث بنے ہیں۔اشرف غنی اور عبد اﷲ عبداﷲ، سی آئی اے کی پیداوار ہیں جو روس پر طالبان کو امریکی فورسز پر حملوں کے لئے اسلحہ کی فراہمی کے الزامات لگا کرنیا تنازعہ پیدا کر چکی ہے۔ اس خطے میں ابھرنے والے نئے منظر نامے میں یہ تنازعہ بڑھنے کی صورت میں اسلام آباد کو محتاط اور پیشگی حکمت عملی کی تشکیل کے لئے تیاری کرنا ہو گی۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 488487 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More