چینی انقلاب کے سرخیل ماؤزے تنگ نے کامیاب لانگ مارچ کے
بعد جب تین لاکھ لوگوں کے سامنے اپنی آزاد حیثیت کا اعلان کیا تو اس کے
سامنے سب سے اہم مقصد تھا کہ کیسے چین کی معاشی ترقی کو ممکن بنائے۔کیونکہ
ماؤ جانتا تھا کہ انقلاب کی کامیابی کو استحکام دینا ہی دراصل انقلاب کی
کامیابی کی دلیل ہو گی۔اس کے لئے ماؤ نے دو انتہائی اقدام اٹھائے جو اگرچہ
کچھ لوگوں کے ہاں متنازعہ خیال کئے جاتے ہیں لیکن ماؤ نے ان دونوں اقدام کی
کامیابی کے لئے دن رات ایک کر دئے۔اگر اس دوران 1955 اور1958 میں تائیوان
کے ساتھ چین کو جنگیں نہ لڑنا پڑتی تو ہوسکتا ہے چین قبل از وقت ہی ترقی کی
شاہراہ کا کامیاب مسافر کہلاتا۔جن دو اقدامات کا ذکر کیا گیا ان میں سے ایک
کا نامGreat Leap Forward اور دوسرے کا نامCultural Revolution تھا۔ان دو
میں سے اول الذکر کی تفصیل اپنے کسی دوسرے کالم میں بیان کروں گا۔فی الوقت
ثقافتی انقلاب کے داعیوں،مقصد اورکامیابی وناکامی میں ماؤ کے ریڈ گارڈز کی
تفصیل آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
ثقافتی انقلاب سے قبل ہوا یوں کہ ایک رات ماؤ کسی تھیٹر میں ایک ڈرامہ دیکھ
رہے تھے جس میں یہ دکھایا گیا کہ ایک سرکاری افسر بادشاہ کے خلاف محل میں
ایسے تنقید کے تانے بانے بنتا ہے کہ جس سے یہ تاثر لگا کہ شائد وہ تنقید کی
بجائے بادشاہ کے خلاف بغاوت کرنے جا رہا ہے جس پر بادشاہ نے اس سرکاری افسر
کو محل سے نکال باہر کیا۔ماؤ یہ سمجھا کہ شائد یہ اس کی حکومت پر تنقید کی
گئی ہے اور اس پہ ایک طنز ہے۔اس لئے اس نے سوچا کہ جو بھی میری سوچ اور
پالیسی کے خلاف چین میں ہوگا اسے ملک سے نکال دیا جائے گا یا اس ادارے سے
نکال باہر کیا جائے گا جہاں وہ کام کرتا ہوگا۔اس سلسلہ میں اس نے پورے چین
سے اپنے انقلابی ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور انہیں ریڈ گارڈز کا نام دیا۔یہ
ریڈ گارڈز ایسے جوشیلے نوجوان تھے جو کہ ماؤ اوراس کی پالیسیوں پر ہمہ وقت
مر مٹنے اور مخالفین کو مارنے کو تیار تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے ریڈ گارڈز کی
نفری کروڑوں میں پہنچ گئی۔ان سب کو ماؤ نے ایک سرخ کتاب دی جس میں ماؤ کے
افکار لکھے ہوئے تھے۔یہ سرخ کتاب ہر وقت ان ریڈ گارڈز کے پاس ہوتی تھی۔یورپ
میں اس کتاب کو ٹائٹل کی بنا پر little red book بھی کہا جاتا ہے۔سرخ رنگ
کمیونزم کی بھی علامت سمجھا جاتا ہے۔ان ریڈ گارڈز نے یہ نعرہ لگایا کہ
انہیں ماؤ کے خلاف کوئی بات نہیں سننا جو کوئی بھی ماؤ افکار کے خلاف ہوگا
اسے تہس نہس کردیا جائے گا۔لہذا انہوں نے 1966 میں ثقافتی انقلاب کااعلان
کردیا۔ثقافتی انقلاب کے لئے انہوں نے سب سے پہلے یونیورسٹیوں اور کالجز کا
رخ کیا۔اور ایسے طلبا،اساتذہ،پروفیسرز اور دانش وروں کو تشدد کا نشانہ
بنایا جو کہ مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے یا مغربی افکار کو پھیلا رہے
تھے۔گویا ان ریڈ گارڈز کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح سے نوجوان نسل
اور ان کی آبیاری کرنے والے کرداروں کو ایسا کرنے سے منع کیا جائے۔اگرچہ یہ
انقلاب کامیاب نہ ہو سکاجس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی گارڈز ہی تھے کیونکہ
انہوں نے بہت سے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کردیا تھا جو کہ ان
کی ڈومین میں نہیں آتے تھے۔
اسی طرح کی سوچ موجودہ وزیراعظم عمران خان کے ذہن میں بھی آئی کہ کیوں نہ
ملک میں کسی بھی قسم کی ایمرجنسی کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ایک ایسی قوت
بنائی جائے جو والنٹئر کے طور پہ کام کرے۔جیسے کہ حالیہ کرونا وبا کے بارے
میں لوگوں کی امداد سے لے کر انہیں ایس او پیز کے متعلق آگاہی فراہم
کرنا۔لوگوں کی مشکلات ومصائب کو متعلقہ اداروں تک پہنچانا تاکہ ان کا بروقت
ازالہ یا حل نکالا جا سکے۔اپنے اپنے علاقے میں موجود ایسے افراد جو بے
روزگار ہیں،بوڑھے یا بیمار ہیں اور ان کے گھر میں کوئی کمانے والا یا ان کا
کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے تو انہیں حکومتی اداروں تک رسائی فراہم کرنا تاکہ
انہیں بنیادی ضروریات اور سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔بلاشبہ
یہ ایسے اقدامات کی ترقی یافتہ ممالک میں بھی حکومتوں کو ضرورت رہتی ہے۔کہ
ایسے وقت میں جب ملک کو اضافی افرادی قوت کی ضرورت ہو تو سرکاری ملازمین کے
ساتھ ساتھ انہیں ایسے ٹائیگرز کو بھی حکومت کی مدد کے لئے بلا لیا جاتا ہے
تاکہ کام جلد اور آسانی سے ہو سکے۔دوسری بات یہ کہ ایسی فورسز میں اکثر
انوجوان طبقہ ہی شامل ہوتا ہے خاص کرفارغ التحصیل طلبا کی ایک کثیر تعداد
ایسے پروگرامز کا حصہ ہوتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ جو کام نوجوان طبقہ
جتنی جلدی کر لیتا ہے وہ زیادہ عمر یا ادھیڑ عمر کے افراد نہیں کرپاتے۔تو
ایسے میں آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ حکومت کا یہ بُرا قدم ہے ۔اس لئے بھی
کہ ٹائیگر فورس بلا معاوضہ کام کر رہی ہے۔حکومت پر کسی قسم کا کوئی معاشی
بوجھ بھی نہیں ہے۔معاشی کرپشن سے ہی باقی سب کرپشنز جنم لیتی ہیں۔
لیکن مسئلہ کہاں پیدا ہوتا ہے،جیسا کہ میں نے ذکر کرچکا ہوں کہ ریڈ گارڈز
کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ کوئی دشمن یا مخالفین نہیں تھے بلکہ وہ اپنے
دشمن اور مخالف خود ہی تھے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انقلاب کو کوئی دشمن
نہیں ہوتا یہ اپنی موت خود ہی مرجاتا ہے یا کسی نئے انقلاب کا داعی بن جایا
کرتا ہے۔انقلاب کی کامیابی کا سفر اس کے کامیاب ہونے کے بعد ہوتا ہے کہ جب
اس کے عملی اطلاق کا وقت آتا ہے۔اگر عملی اطلاق میں انقلابی راہنما ناکام
ہو جائے تو اسی انقلاب کے اندر سے ایک بغاوت جنم لے لیتی ہے جو کسی دوسرے
انقلاب کی نشاندہی ہوتی ہے۔انقلاب کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ
انقلابی تربیت یافتہ نہیں ہوتے اگر انقلابی تربیت یافتہ ہوں تو انقلاب کسی
طور ناکام نہیں ہو سکتا۔اس لئے عثمان ڈار جو کہ اس ٹائیگر فورس کے کرتا
دھریا ہیں اور وزیر اعظم عمران خان صاحب کو اس بات کا خاص دھیان رکھنا پڑے
گا کہ کہیں ٹائیگر فورس شعوری یا لا شعوری طور پہ ریڈ گارڈ تو نہیں بن
رہی۔اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک جو پہلے ہی کثیر مسائل
میں گھرا ہوا ہے ان میں ایک اور کا اضافہ ہوجائیگا ۔جس کا متحمل اس صورت
حال میں میرا ملک نہیں ہو سکتا۔سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہو سکتا ہے۔میرے
خیال میں ایسی فورسز کی کارکردگی کو ماہانہ بنیادوں پر چیک یا جائزہ نہ لیا
جائے تو پھر ان کے انتشار پھیلانے کے چانسز ہوتے ہیں ۔اس لئے ٹائیگر فورس
پر اگر چیک اینڈ بیلنس کے نظام کا اطلاق مسلسل اور سخت رکھا جائے تو اس سے
خاطر خواہ نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔
|