مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک - آخری قسط

قربانی گنج سے واپس آ کر میں نے کچھ پیسے زلفی کو شام کی دعوت کے لیے یہ کہہ کر دیے کہ کم پڑنے سے اپنے پلے سے خرچ کر دینا اور مولانا صاحب کے پاس مال کی شپمنٹ کی تیاری کے لیے پیسے دینے چلا گیا، وہاں جا کر ایک اچھی خبر یہ ملی کہ جہاز میں جگہ مل گئی ہے انشااللہ رستم جہاز میں مال لوڈ ہو جائے گا جو اکتوبر کی دس تاریخ کو چٹاگانگ بندرگاہ پر لنگر انداز ہو گا اور لوڈنگ کے بعد بیس اکتوبر کو سیل کر جائے گا،قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اُن دنوں بحری جہاز میں لوگ چٹاگانگ سے کراچی کا سفر بھی کیا کرتے تھے جس کا کرایہ صرف اسی روپے ہوا کرتا تھا جس میں سفر کے دوران آٹھ یا دس دن کا دونوں وقت کا کھانا اور ناشتہ بھی شامل ہوتا تھا، مگر مجھے گھر جانے کی جلدی تھی ، اس لیے ہوائی سفر کو ترجیح دی۔

شپمنٹ کی تیاری کر کے جب میں پی۔آئی۔اے کے دفتر اپنی کراچی کے لیے سیٹ بک کرانے پہنچا تو دیکھا کہ وہاں اتنی بھیڑ۔۔ کہ بقول شخصے تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی لوگ دفتر کے باہر تک لائن لگا کر کھڑے تھے عجیب افراتفری کا عالم تھا، ہر غیر بنگالی کراچی جانے کے لیے بے چین تھا چار سو روپے کی ٹکٹ ہزار روپے میں بک رہی تھی ایسے موقعوں پر خود غرض لوگ اپنی جیبیں بھرنے کی فکر میں لگے تھے، پتہ چلا کہ دسمبر تک کراچی کے لیے کوئی سیٹ نہیں ہے ہزاروں مسافر ویٹنگ لسٹ پر ہیں ، یہ سب تما شہ دیکھ کر پریشانی کے عالم میں واپس آ کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں جتنی واپس جانے کی جلدی ہے اتنی ہی دیر ہو رہی ہے،۔

دوسرے دن پھر اس امید پر گیا کہ شاید آج قسمت ساتھ دے مگر کوئی صورت بنتی دکھائی نہیں دے رہی تھی آخر تنگ آ کر میں نے پی۔آئی۔اے کے منیجر کے گھر کا فون نمبر ٹیلیفون ڈائریکٹری سے تلاش کر کے فون کیا جو انہوں نے خود ہی فون ریسیو کیا اور مجھے اردو میں بات کرتے ہوئے سنا تو پوچھا آپ کہاں سے بول رہے ہیں ، میں نے جب بتایا کہ میں ٹی ایند ٹی سے بول رہا ہوں تو وہ جھٹ سے بولے ارے صاحب میرا وہ دوسرا نمبر خراب ہے ذرا مہربانی کر کے اُسے تو ٹھیک کروا دیں، میں نے بھی وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی کراچی کی سیٹ کا مطالبہ کر دیا جس کے جواب میں انہوں پوچھا کب جانا چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا میں تو آج ہی جانا چا ہتا ہوں اگر ٹکٹ کنفرم ہو جائے تو ؟انہوں نے تھوڑا توقف کرنے کے بعد کہا ، آج تو نہیں آپ کو بیس اکتوبر کی ایک سیٹ مل سکتی ہے جو میں وی۔آئی ۔پی کے کوٹے میں سے آپ کو دے سکتا ہوں، میں نے فوراً کہا جی ٹھیک ہے آپ اپنے آفس میں میرا نام دے دیں اور اپنے خراب والے فون کا نمبر مجھے لکھوا دیں میں ابھی ٹھیک کروا دیتا ہوں، تو اس طرح مجھے واپسی کا ٹکٹ بھی مل گیا، میں نے نمبر زلفی کے حوالے کیا کہ اس کو لائن مین سے کہہ کر ابھی ٹھیک کروا دیں اور خود ٹکٹ لینے۔۔۔ جب کاﺅنٹر پر اپنا نام بتایا تو میرے لیے کرسی اور کوکا کولا منگا کر۔ ٹکٹ میرے ہاٹھ تھما کر۔ کلرک نے اپنا نام بتا تے ہوئے کہا ، وہ ذرا صاحب سے میری سفارش کر دیجئے گا آپ تو اُن کے دوست ہیں نا !! میں نے ٹکٹ کے پیسے اُس کے ہاتھ میں تھمائے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا آپ کا نام اُن تک پہنچ جائے گا جب آپ اُن کو بتائیں گے کہ آپ نے میرا کام کر دیا !!

واپس آ کر دوستوں کو بتایا تو اُن لوگوں کو بھی خوشی ہوئی جس کا اظہار انہوں نے ان لفظوں میں کیا کہ آپ تو خوش قسمت ہیں جو اپنے سب کام کر کے واپس جا رہے ہیں ہمارے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ پاک ہم کو بھی خیریت سے اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس جانا نصیب کرے، میں نے آمین کہتے ہوئے انہیں تسلی دی اور کہا کہ میرے مشکل سے مشکل کام بھی اتنی آسانی سے اللہ نے کر دیے اِس میں میرے پیچھے میری ماں کی دعاﺅں کا اثر ہے جو ہر وقت مصلے پہ بیٹھی ہاتھ اُٹھائے میری واپسی کی دعائیں کررہی ہیں۔

مولانا صاحب سے حساب کے لیے کہا تو انہوں ہنستے ہوئے کہا ایسا کرنے سے تو آپ ہی کے پیسے میری طرف نکلیں گے جو میں آپ کو بعد میں ادا کر سکوں گا، ہاں کچھ پان میں استعمال ہونے والے کتھے کی بیس بوریاں میرے پاس پڑی ہیں اگر آپ کہیں تو ان کو بھی آپ کے مال کے ساتھ بھیج دوں ؟ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا میری اس کے بارے کوئی معلومات نہیں ہے ، اگر میرے رہتے ہوئے مال شپمنٹ ہو جائے تو اچھا ورنہ شپمنٹ کی ذمہ و اری آپ پر رہی ۔

اُن سے رخصت ہو کر گھر کے لیے کچھ تحائف خریدنے کا خیال آیا ، دو تین ساڑھیاں خریدیں اور کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی ، پھلوں میں ا نناس لے لیا جو ہمارے ہاں نہیں ہوتا، سب سے رخصت ہو کر اللہ اللہ کر کے کراچی پہنچا ، اور اسی کی رحمت سے مال بھی صحیح سلامت پہنچ گیا،، پندرہ نومبر کو سب دوست بھی خیریت سے کراچی پہنچ گئے اور حیدری صاحب بھی جب جنگی قیدیوں کی واپسی ہوئی تو لاہور چھا ﺅنی میں سب سے مل کر بہت خوش ہوئے۔

مال جب مارکیٹ میں آیا تو ڈھاکہ فال ہونے کی وجہ سے اچھے داموں سیل ہوا، وہی پیوپاری جس نے مجھے طعنہ مارا تھا کہ دیکھیں گے جب تم ڈھاکہ سے مال لے کر آﺅ گے ؟ وہ میرے پاس مال لینے آیا تو میں نے اُسے یاد دلاتے ہوئے کہا ’تم نے مجھے مال دینے سے انکار کیا تھا جس نے مجھے ارادے کی پختگی دی اور اللہ کی مدد سے یہ کامیابی نصیب ہوئی لہٰذا میں تمہیں انکار نہیں کروں گا، یہ سن کر اُس نے ہنستے ہوئے شرمندگی سے بچنے کے لیے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا۔

بنگلہ دیش بننے کے بعد جب میں 1977 (انیس سو ستتر ) میں وہاں گیا تو مولانا صاحب نے بتایا کہ شیخ مجیب کے دورِ حکومت میں یہاں کے حالات اتنے خراب ہو گئے تھے کہ کوئی کھلے عام کھانا نہیں کھا سکتا تھا بھوک کے مارے لوگ کھانا چھین کر لے جاتے تھے مردے دفنانے کے لیے کپڑا نہیں ملتا تھا مجبوراً لوگ کیلے کے پتوں میں لپیٹ کر مردے دفناتے تھے یہ تو بھلا ہو فوج کا جنہوں نے اُسے مار کر اُس کے اُن کارندوں کو جو راکھی باہنی کے نام سے لوٹ پاٹ کا بازار کیئے ہوئے تھے گرفتار کر کے عوام کو نجات دلائی۔

ایک واقعہ جس نے مجھے بہت متاثر کیا اور میری امیدوں کے چراغوں میں پھر سے روشنی بھر دی اُسے میں قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا، ہوا یوں کہ ہمارے روحانی سلسلے میں جہانگیری سلسلے کے بانی حضرت سید نا عبدالحئی رحمتہ اللہ علیہ المعروف جہانگیر شاہ صاحب جن کا مزارِ اقدس موضع مرزا خیل تحصیل ستکانیہ میں ہے، میں مولانا صاحب کو لے کر زیارت اور حاضری کی غرض سے وہاں گیا، وہاں کے منتظم کمال شاہ صاحب سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ، آپ نے پاکستانی بھائی ہونے کے ناطے بہت دعائیں دے کر رخصت کیا، اس کے ٹھیک دو دن بعد مولانا صاحب کے دفتر کے سامنے بنگلہ دیش آرمی کی دو جیپیں آ کر رکیں جن میں سے ایک کرنل صاحب مع اپنے چند ماتحتوں کے ہمارے پاس جب آئے تو مجھ سے زیادہ مولانا صاحب گبھر ائے کہ اللہ جانے کیا آفت آپڑی ہے کہ جن فوجیوں سے میں دور رہنا چاہتا ہوں وہ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتے، کرنل صاحب نے جو پہلا سوال کیا اُس پر میرے تو پسینے چھوٹ گئے، آپ میں سے (میرا نام لیتے ہوئے ) پاکستانی کون ہیں ؟مولانا صاحب نے ڈرتے ڈرتے میری طرف دیکھا ، میرے دل میں فوراً خیال آیا کہ میں تو یہاں کا ویزا لے کر آیا ہوں پھر کس بات کا ڈرنا، میں نے حوصلہ کر کے کہا میں ہوں پاکستانی فرمائیے کیا حکم ہے، کرنل صاحب جو اچھی اردو بول رہے تھے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے خوشی کے ساتھ بولے میرا نام کرنل متیع الرحمن ہے میں بہت دن پاکستان میں رہا ابھی بھی پاکستان میں میرے بہت سارے دوست ہیں ، میں جہانگیر شاہ صاحب کے مزار پر زیارت کرنے گیا تو وہاں سے پتہ چلا کہ ایک پاکستانی بھی یہاں سے زیارت کر کے گیا ہے ، میں نے اُن سے آپ کا پتہ لیا اور آپ سے ملنے یہاں چلا آیا، باتوں باتوں میں اُن سے پتہ چلا کہ وہ جس مزار پر بھی جاتے ہیں اگر صاحبِ مزار اُن کے سلام کا جواب نہ دیں تو وہ دوبارہ وہاں نہیں جاتے، میں اُن کی پاکستان سے محبت کا بے باکانہ اظہار دیکھ کر پہلے تو یہ سمجھا کہ شاید یہ میرے منہ سے کوئی ایسی بات نکلوانا چاہتے ہیں جو بنگلہ دیش کے خلاف ہو اور انہیں مجھ پر جاسوسی کا الزام لگانے میں آسانی ہو جائے، مگر پھر اُن کے خلوص کو دیکھتے ہوئے میں نے اُن پر ایک سوال کر ڈالا ، میں نے کہا کرنل صاحب آپ پاکستان سے محبت کا اتنا دم بھرتے ہیں پھر یہ بنگلہ دیش کیوں ؟؟؟؟

میرے سوال کا جواب دینے سے پہلے انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا ، لطیف بھائی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر میرے بس میں ہو تو آج ہی ڈھاکہ راجدھانی پر ہلالی پرچم لہرا دوں ، مجبور ہوں مگر نا اُمید نہیں ، میں اُس کی بات پر حیران تھا کہ اُس کے ساتھ چھ فوجی اور تھے جن کے سامنے اُس نے یہ بات کہی ، پھر مجھے شیخ مجیب کی موت کے خیال نے اُس کی بات پر یقین دلا دیا کہ فوج نے ہی شیخ مجیب کو اہل عیال کے ساتھ شوٹ کر کے ثاہت کر دیا تھا کہ فوجی جو حلف اُٹھاتے ہیں اُس کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔

بنگلہ دیش کو ہم سے علیحدہ ہوئے چالیس سال ہو گئے اس عمل سے ہم دونوں نے کیا کھویا کیا پایا ، اس کا فیصلہ میں اپنی رائے کے ساتھ قارئین پر چھو ڑ تا ہوں۔

آئندہ کیا ہو یہ تو اللہ پاک ہی جانتا ہے مگر موجودہ صورت حال کے پیش نظر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ الگ ہو کر بنگلہ دیش ہی فائدے میں رہا، جہاں نہ طالبان ہیں نہ دہشت گردی وہاں مسجدوں میں بموں سے تباہی نہیں مچائی جاتی، اور نہ ہی امریکہ کی بالا دستی ہے، ڈرون حملوں کا خطرہ بھی نہیں مہنگائی کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو ابھی وہاں کم سے کم فاصلے کے لیے بس کا کرایہ چانچ روپے ہے جو حال ہی میں سی ،این ،جی کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے لاگو ہوا اس سے پہلے دو روپے تھا جب کہ کراچی میں پندرہ روپے سے کم بس کا سفر ممکن ہی نہیں ہے، کرنسی کی شرح تبادلہ جو علیحدگی کے فوراً بعد ہمارے روپے کے مقابلے میں بنگلہ دیشی ڈھائی روپے ملتے تھے اس وقت اُس کے ایک روپے کے بدلے ہمارا ڈیڑھ روپیہ ملتا ہے،جس کا مطلب ہے کہ اُس کی معیشت بھی ہم سے مظبوط ہے،بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر اُس نے پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے کسی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے جس کے مقابلے میں ہمارے ہاں لوڈ شیڈنگ میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا ہے، میری نظر میں سب سے بڑا فرق اُن میں اور ہم میں یہ ہے کہ وہاں کے عوام اور حکمران آپس میں لڑنے جھگڑنے کے باوجود اپنے وطن کی مٹی سے بے انتہا پیار کرتے ہیں، وہاں کی اپوزیشن اتنی مظبوط ہے کہ ایک پارٹی اگر اقتدار میں آجاتی ہے تو دوسری اُسے ہٹانے کی جدوجہد میں لگ جاتی جس سے حکمران پارٹی کو کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے، جبکہ ہمارے یہاں اپوزیشن بھی بکاﺅ مال ہے، وہاں مذہبی جماعتیں برائے نام ہیں جن کو سر اٹھانے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا جبکہ ہمارے ہاں اں کی بھرمار ہے جو جہاد کے نام پر فنڈ اکٹھا کر کے معصوم نوجوانوں کو جنت کا راستہ دکھلا کر اپنے مذموم ارادے پورے کرنے میں مصروف ہیں۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمارے ساتھ ہمارے حکمرانوں کو بھی پاک وطن سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، قارئین سے گزارش ہے کہ اپنی رائے سے ضرور نوازیں چاہے وہ تنقید کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔

زندگی نے مہلت دی تو ایک اور سچائی کے ساتھ قارئین کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84221 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.