سُندر بن کا راجو ڈکیت

بنگلہ دیش میں دو بڑے جنگل ہیں جن میں ایک کا نام ”بندر بن“ جس میں بہت ساری نسلوں کے بندر پائے جاتے ہیں ان میں ہنومان کی نسل کے بندر بھی ہیں جن کے ہاتھ پیر منہ کالا اور بال لمبے قدرے بھورے رنگ کے ہوتے ہیں یہ زیادہ تر گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں اور آبادیوں میں آکر کھانے پینے کی چیزیں اُٹھا کر بھاگ جاتے ہیں، بندر بن میں رہنے والے لوگ ان کے عادی ہو چکے ہیں اور اپنی چیزیں تالوں میں بند کر کے رکھتے ہیں۔

دوسرے جنگل کا نام ”سُندر بن“اس لیے ہے کہ وہاں سُندری نام کی لکڑی کے درخت عام ہیں جو پاپولر کی طرح سیدھے تیس چالیس فٹ لمبے ہوتے ہیں جن سے مشرقی پاکستان کے ٹائم میں بجلی کے کھمبے بنائے جاتے تھے، اِس جنگل میں مشہور زمانہ ” ٹائیگر“ پائے جاتے ہیں جنہیں بنگالی ”باگھ“ کے نام سے پکارتے ہیں، اگر کسی کو بہادر کہنا ہو تو ’باگھر بچہ (یعنی شیر کا بچہ) ‘ کہہ کر خوش کر دیتے ہیں، اِس جنگل کے تین حصے انڈیا میں ہیں اور ایک حصہ بنگلہ دیش میں جو منگلا پورٹ کے قریب واقع ہے۔

اللہ پاک کی شانِ کریمی ہے کہ جہاں جس ذی روح کو پیدا کرتا ہے وہاں اُس کی خوراک کا بھی انتظام کر دیتا ہے لہٰذا شیر کی مرغوب غذا ہرن بھی اس جنگل میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ مگر مچھ جن کو بنگلہ زبان میں ’کومیر‘ کہا جاتا ہے، منگلا میں اگر آپ کسی ہوٹل میں قیام کریں تو آپ کے کمرے کے دروازے پر نوک کر کے شیر اور ہرن کی کھالیں اُٹھائے بنگالی آواز لگائیں گے، صاب کچھ چاہیے ؟ آپ کو سانپ ،مگر مچھ ،شیر یا ہرن کی کھال میں سے جو بھی دل کو اچھی لگے سستے داموں مل جائے گی کیونکہ یہ سب چوری سے شکار کیے ہوئے جانوروں کی ہوتی ہیں ، اگر آپ نے کوئی کھال خرید لی تو آگے آپ کا اپنا رسک ہو گا ، اگر پولیس نے اس جرم میں دھر لیا جو آپ نے کیا ہی نہیں تو سزا یا جرمانہ آپ کو بھرنا ہوگا جو لاکھوں میں ہو گا۔

اسی جنگل میں ”راجو ڈکیت “ کا راج ہے ،جنگل کی ندیوں سے مچھلی پکڑنے والوں سے جگا ٹیکس اور بڑے بڑے لوگوں کو اغوا کر کے اس جنگل میں رکھنا اور تاوان لے کر چھوڑ دینا اُس کا پیشہ ہے، اِس نے اپنی ایک ”راجو باہنی“(راجو کی فوج) بنا رکھی ہے جس میں بیس سے زیادہ ڈاکو ہیں جو اُس کے انڈر کام کرتے ہیں، اُس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تاوان کی رقم نہ ملنے پر زندہ انسان کے پاﺅں سیمنٹ کی بوری میں گاڑ کر دریا میں ڈال دیتا ہے اور چندہ نہیں دینے پر مچھلی پکڑنے والے ٹرالر کو آگ لگا دیتا ہے اُس کی دہشت سے لوگوں نے جنگل کی سیر تو درکنار اُسکے قریب جانا بھی چھوڑ رکھا ہے۔

میں ایک دن بنگلہ دیشی ۔ چینل۔ATN دیکھ رہا تھا تو خبروں کے بعد ایک رپورٹر نے بتایا کہ راجو ڈکیت سرنڈر کرنا چاہتا ہے اگر حکومت اس کے اور اس کے ساتھیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرے، میں نے اُس کے بے رحمی کے قصے تو بہت سن رکھے تھے اُس کے سرنڈر کرنے کی درخواست سن کر تھوڑی حیرانی سی ہوئی، رپورٹر نے مزید کیمرے سے راجو کے ایک ساتھی کی پیٹھ دکھاتے ہوئے ، اُس سے جو سوالات کیے اُن کے جوابات رٹے رٹائے تھے راجو خود کیمرے کے سامنے نہیں آیا اور نہ ہی بات کی اُس کے ساتھی نے بتایا کہ میں سیکنڈ ان کمان ہوں اور ہم ہتھیار اس لیے ڈالنا چاہتے ہیں کہ ہم اس جنگل کی زندگی سے تنگ آچکے ہیں جس میں ہماری سوشل لائف تباہ ہو چکی ہے ہم اپنے خاندان سے الگ ہو چکے ہیں ، ہماری آئندہ نسل کا کوئی مستقبل نہیں، رات دن جنگلی جانوروں سے نبرد آزما رہتے ہیں انسانوں سے بھی جانوروں جیسا سلوک کرتے کرتے ہم لوگ تنگ آ چکے ہیں اس لیے اب حکومت سے معافی کی درخوست کر رہے ہیں کہ ہم بھی اپنے خاندان اور بیوی بچوں کے ساتھ امن کی زندگی گزار سکیں، اس سے جب پوچھا گیا کہ وہ ڈاکو کیسے بنے تو اُس نے بتایا کہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد جب نوکری نہیں ملی تو یہ پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے، کیمرے میں اُن کا اسلحہ جو جدید آٹومیٹک رائفلوں اور مشین گنوں پر مشتمل تھا اور کمر کے نچلہ حصہ تک اسلحہ اُٹھائے بہت سے ڈاکوؤں کو چلتے پھرتے دکھایا گیا جس سے حکومت کو اپنی طاقت کا احساس دلانا مقصود تھا، رپورٹر نے بتایا اِن کی طرف سے فون میں کہا گیا تھا کہ میں راجو ڈکیت ہوں اور سرنڈر کرنا چاہتا ہوں ، رپورٹر نے جب ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اُسے ایک ٹرالر رات کے اندھیرے میں چار پانچ گھنٹے ندی میں چلنے کے بعد رات کے آخری پہر میں ایک جگہ لے گیا جہاں راجو کا ٹھکانہ تھا۔اِس رپورٹر نے اپنے نمبر بنانے کے لیے حکومت سے اپیل بھی کی کہ اس ڈاکو کو شرافت کی زندگی میں پلٹنے کی اجازت دی جائے ۔

اِس خواہش کی گہرائی میں جب میں نے غوطہ لگایا تو وہی کچھ میں نے بھی دیکھا جو راجو ڈکیت دیکھ رہا تھا، یعنی جو کام وہ جنگل میں رہ کر کر رہا تھا وہی کام تو اس کے جیسے لوگ شہر میں رہ کر باعزت طریقے سے حکومت میں رہ کر بھی کر رہے ہیں، مثلاًً چندہ بازی، اغوا برائے تاوان،ناجائز قبضے وغیرہ وغیرہ، تو میں جنگل میں رہ کر کیوں جھک مار رہا ہوں ، میں بھی کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ مل کر باعزت طریقے سے اپنا گینگ بنا کر یہ سب کام انجام دے سکتا ہوں، کیوں نا سرنڈر کر کے حکومت کی پشت پناہی لے کر یہ کام کیا جائے جس میں نہ پکڑے جانے کا ڈر نہ پولیس کا خوف ، بیوی بچوں کے ساتھ مل کر رہنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے، بچوں کا مستقبل بھی روشن رہے گا ، ”آم کے آم گٹھلیوں کے دام“کے مصداق اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔

بنگلہ دیشی حکومت نے ابھی تک اُس کی درخواست پر کوئی ردِ عمل نہیں دکھایا شاید وہ یہ سوچ رہی ہے کہ ایسے شیروں سے تو پہلے ہی پارٹی بھری پڑی ہے جو آئے دن چندہ بازی کی کلیکشن کے لیے علاقوں کی تقسیم پر آپس میں خون خرابہ کرتے رہتے ہیں کہیں حکومتی پارٹی کے دو گروپوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی پر اپنااپنا دبدبہ قائم کرنے کے لیے گولیاں چلتی رہتی ہیں، حکومتی ٹینڈروں کے لیے آپس میں بندر بانٹ ہوتی رہتی ہے ، راجو کو لے کر کہیں مشکل میں نہ پڑ جائیں ، پھر ساتھ ہی مخالف پارٹی کا خیال بھی ا ٓتا ہے کہ اگر یہ اُس یں شامل ہو گیا تو ہماری پارٹی کے لیے کہیں مصیبت نہ کھڑی کر دے اِسی ششُُ پنج میں وزراء کے مختلف بیان آرہے ہیں، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84159 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.