شاخِ نازک پہ آشیانہ

امریکی ذرائع ابلاغ میں اسامہ بن لادن کے بعد ایک افریقی مسلم مطلقہ محترمہ نفیسہ تاؤدیالو موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔گیانہ سے تعلق رکھنے والی یہ ۳۲ سالہ مہاجر خاتون اپنی جوان بیٹی کے ساتھ برونکس میں رہتی ہے اور نیویارک کے امیر ترین علاقے مین ہیٹن میں واقع سوفی ٹیل ہوٹل میں ملازمت کرتی ہے ۔اس کا الزام ہے کہ ہوٹل کے ایک گاہک نے اس پر دست درازی کی ۔ اگر وہ دست درازی کرنے والا شخص ایک عام آدمی ہوتا تو شاید یہ سرے سے کوئی خبر ہی نہیں بنتی اس لئے کہ جنس زدہ امریکی معاشرے میں عصمت دری ایک معمولی جرم ہے جو آئے دن سرزد ہوتا رہتا ہے قومی اعدادو شمار کے مطابق ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہر منٹ کے اندر۳ء۱ خاتون کی عصمت دری ہوتی ہے گویا ہر گھنٹہ میں ۷۸ اور سالانہ۶۸۳۲۸۹ خواتین کو اس اذیت ناک جرم کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔ سروے کے دوران یہ خوفناک حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ اس نام نہاد ترقی یافتہ ملک میں ہر تین میں سے ایک خاتون کو اپنی زندگی ایک بار اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ہر چار میں سے ایک طالبہ یا تو اس ظلم کا شکار ہوتی ہے اس پر حملہ ہوتا ہے ۔گو کہ نفیسہ کا تعلق نیگرو نسل سے ہے لیکن اعدادو شمار اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ عصمت دری کا شکار ہونے والوں میں ۸۱ فی صد گوری اور صرف ۱۸ فیصد کالی خواتین ہیں ۔امریکہ اس معاملے میں جرمنی سے چار گنا اور برطانیہ سے ۲۰ گنا آگے ہے ۔

نفیسہ کے معاملے میں چونکہ ملزم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کا سربراہ ڈومنق سٹراس کاہن تھا جسے اب ذلیل و خوار کر کےاس کے عہدے سے سبکدوش کردیا گیا ہے۔اس لئے یہ عالمی سطح پر ایک بہت بڑی خبر بن گئی ۔ کاہن کو اول تو گرفتار کیا گیا اور پھر اسے ہتھکڑیوں سمیت میڈیا کے سامنے پیش کر دیا گیا ۔اس کے بعد اس کی دس لاکھ ڈالر کی درخواست ِضمانت مسترد کر کے اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا اس خیال سے کہ ۶۲ سالہ امیر کبیر، لحیم شحیم سرمایہ دار کہیں فرار ہوکر اپنے ملک فرانس نہ پہونچ جائے۔ فرانس کے اندر کسی مجرم پر ہاتھ ڈالنا امریکہ کے بس کی بات نہیں ہے ۔یہ تو صرف زرداری کی لاچاری کے چلتے پاکستان میں ہوسکتا ہے یا پھر مشرف جیسا بے ضمیر جنرل سینہ پھلا کر بڑے فخر سے اس طرح کی رسوائی کو برداشت کر سکتا ہے ۔اب ناقدین کا یہ اعتراض ہے کہ امریکی انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ اسامہ بن لادن کو گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلاتے جو گونا گوں وجوہات کی بناء پر وہ نہ کر سکے تو اب کھسیانی بلی مانند اپنے عدلیہ کو مصروف رکھنے اور اپنے ملک قانون کی بالا دستی کا ڈنکا بجانے کی خاطر کاہن کو بلی کا بکرہ بنایا جارہا ہے۔

اس موقع پر یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے جس چستی اور پھرتی کا مظاہرہ ڈومنق کاہن کے معاملے میں کیا ویسا کچھ صدر بل کلنٹن کے ساتھ کیوں نہ ہوا ؟جبکہ وہ ان پر بھی اسی طرح کا لزام دورانِ صدارت نہ صرف لگا بلکہ ثابت بھی ہوگیا۔ معاشی میدان میں ابھی گزشتہ ہفتہ امریکی انتظامیہ نے وہاں کے پانچ بڑے بنکوں کو تقریباً ۳۰ بلین ڈالر کے گھپلے پایا لیکن ان کے سربراہان کے ساتھ بھی ایسا کوئی معاملہ نہیں ہوا ۔ اس سے قبل امریکی شیئر بازار (وال اسٹریٹ) سے ایک ٹریلین ڈالر چرا کر امریکہ کو معاشی کساد بازاری کے شعلوں میں جھونکنے والے سرمایہ دار بھی اس طرح کے سلوک سے محفوظ و مامون رہے ۔ برٹش پٹرولیم کے سربراہ ٹونی ہیورڈجوبحیرہ برازیل میں عظیم ماحولیاتی تباہی کے مجرم ہیں اس طرح کی رسوائی سے بچے رہے بلکہ جارج بش جو اپنی حماقت کے سبب دس لاکھ عراقیوں کی ہلاکت کا سبب بنا اس کی جانب بھی عدلیہ نے کبھی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کی۔ وہ تو ایک ایسا جنگی مجرم ہے جس پر نہ صرف امریکہ بلکہ ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔

ایک اور اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمی بنک کا سربراہ رابرٹ ذوئلک جو امریکی شہری ہے اگر فرانس کے اندر اسی طرح کے الزام میں گرفتا ر ہوا ہوتا اور اسے میڈیا کے سامنے اس طرح رسوا کیا جاتا ۔اس کی ضمانت رد کر کے اسے جیل بھیج دیا جاتا تو کیا یہ امریکی ذرائع ابلاغ جو کاہن کے خلاف تین دنوں میں ۳۰۰۰ مضامین لکھ کر اسے مجرم ٹھہرا چکا ہے۔ رابرٹ کی بھی اسی طرح کردار کشی کر رہا ہوتا ؟یا اس کی فوری رہائی کی گہار لگا رہا ہوتا ؟نیز فرانس کے اندر انسانی حقوق کی پامالی کا چرچا کر رہا ہوتا ؟ ذارئع ابلاغ کو چھوڑیں جس کی حیثیت فی الحال ڈگڈگی بجانے والے مداری کی سی ہو گئی ہے تصور کریں کہ اس فرضی صورتحال میں امریکی حکومت کا رد عمل کیا ہوتا ؟ جو انتظامیہ ریمنڈ ڈیوس جیسے سفاک کرائے کے قاتل کو چھڑانے کیلئے اپنی کانگریس کے تین تین وفد روانہ کر دیتا ہے وہ اپنے ملک کے اس قدر اہم سرمایہ دار کیلئے کیا کچھ نہیں کرتا ؟ صدر اوبامہ کا سرکوژی کو فون کتنے منٹ کے اندر موصول ہوجاتا؟ اور اس پر پتھر اور نہ جانے کس کس زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دی جاتی ۔ ان گیدڑ بھپکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اگر نکولس سرکوژی اپنے موقف پر اڑا رہتا تو کتنی دیر میں ان کے ملک میں امریکی فوج داخل ہوجاتی اور پیرس کے آسمان سے ایف ۱۶ وڈرون کی بارش شروع ہو جاتی ؟ ایسے میں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرانسیسی صدر سرکوژی نے ایک رسمی سا سہی احتجاج کیوں نہیں درج کروایا؟ کم ازکم ایک فون کر کے یا اخباری بیان جاری کر کے کاہن کو اپنے ملک بھجوانے اور اس پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ یہ تو کم از کم اقدامات ہیں جنھیں فرانس جیسی ویٹو پاور رکھنے والی ایٹمی طاقت تو کجا ہندوستان جیسا مسکین ملک بھی کر سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور اس کی وجہ امریکہ کا خوف نہیں بلکہ فرانس کی داخلی جمہوری سیا ست ہے۔

فرانس میں آئندہ سال انتخاب ہونے والے ہیں اور اباحیت پسند سرکوژی کو پھر ایک بار انتخاب میں کامیابی حاصل کرنی ہے ۔ فسطائی ذہن کے مالک اس شخص نے برسوں تک مسلم دشمنی اور نسلی امتیاز کی بنیاد پر اپنی سیاسی دوکان چمکائی لیکن اب انتخابی شکست کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔اسی لئے اپنے بد مزاج رائے دہندگان کی دلجوئی کیلئے اس نے بر قعہ کے خلاف ہوّا کھڑا کیا اور پھر حجاب مخالف قانون منظور کروا کر ان کی تسکین کا سامان کیا ۔اس کے بعد لیبیا میں ناٹو کے ساتھ پیش قدمی کر کے اپنے آپ کو نپولین کا حقیقی وارث ثابت کرنے کی کو شش میں لگ گیا ۔سرکوژی کی اس اٹھا پٹخ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمہوریت میں اپنی عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے سیاستدانوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن اس کے باوجود معاشی ابتری اس کے پاؤں کی زنجیر بنی ہو ئی ہے۔ایسے میں ان کی قدامت پرست یو ایم پی کے خلاف محاذ آرا سوشلسٹ پارٹی کا سب سے طاقتور امیدوار کوئی اور نہیں بلکہ ڈومنک سٹراس کاہن ہی تھا جو آئندہ ماہ سےاپنی پارٹی کی باقائدہ مہم کا آغاز کرنے والا تھا۔بین الاقومی مالی ادارے کا صدر اور سوشلسٹ پارٹی کا امیدوار یہ دونوں باتیں ان لوگوں کو متضاد ضرور لگیں گی جو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر انتخابی سیاست میں اصول و نظریہ نام کی کوئی شہ پائی جاتی ہے ۔کاہن ایک سوشلسٹ دانشور کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ فرانس کی سوشلسٹ پارٹی میں اس کا اعلیٰ و ارفع مقام ہے اور دنیا بھر کے سرمایہ داروں سے اس کے گہرے مراسم بھی ہیں جنکی وہ اپنے ادارے کے ذریعہ دامِ درہمِ سخنِ قدمِ مدد کرتا رہتا ہے تاکہ وہ سارے عالم کا استحصال جاری و ساری رکھ سکیں ۔اس طرح گویا سرکوژی کو اپنے سب سے طاقتور حریف سے نجات حاصل ہوگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کاہن کی گرفتاری پر مضطرب و بے چین ہونے کے بجائے شاداں و فرحاں ہے ۔اس واقعہ سے قبل سرکوژی مقبولیت محض ۲۱ فی صد تھی اور کاہن کی ۵ء۲۶ فی صد گویا ان دونوں کے درمیان ۵ء۵ فی صد کا فرق تھا لیکن اب جبکہ کاہن دوڑ سے باہر ہوچکا ہے اس کی جگہ لینے والے سوشلسٹ امیدوار فراکوس ہالنڈی کو صرف ایک فی صد کی سبقت حاصل ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ فی الحال سرزمین فرانس میں انتہا پسند لی پین سب زیادہ مقبول چل رہی ہیں لیکن مسلمانوں نے اندر انتہا پسندی کا شور مچانے والے مغرب کو ہندوستان کے اڈوانی اور فرانس کے لی پین سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔

فرانس کے اندر کاہن کی گرفتاری کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں جن سے اس قوم کے فکری انحطاط و اخلاقی پستی کا اندازہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ کاہن جیسا عیاش شخص ایک افریقی ملازمہ کیلئے اپنے سیاسی مستقبل کو داؤں پر نہیں لگا سکتا اس لئے ممکن ہے وہ کسی خوبصورت امریکی طوائف کا ا نتظار کر رہا ہوگا اور ایسے میں غلطی سے وہ ملازمہ وہاں پہنچ گئی نیز کاہن اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ گویا غلطی کاہن کی نہیں ملازمہ کی ہے۔ کاہن کا کسی طوائف کا انتظار کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے ۔اس طرح کے لوگوں کو کسی قدر افسوس کاہن کے انجام سے تو ہے لیکن افریقی ملازمہ سے انہیں کوئی ہمدردی نہیں اس لئے کہ یہ بیچارے کسی خاتون کو انسان ہی کب سمجھتے ہیں ؟صنف نازک تو ان کیلئے نمائش و سامانِ تلذّذ سے زیادہ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی اسی لئے وہ انہیں ہمیشہ بے حجاب رکھنا چاہتے ہیں۔لیکن اس سال کے اوائل میں خود کاہن کا اعتراف اس خیالِ خام کی تر دید کرتا ہے ۔ کاہن نے پیرس سے شائع ہونے والے دائیں بازو کے روزنامہ لبریشن (حریت)کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ صدارت کی دوڑ میں اس کے راستے کی تین کی رکاوٹیں ہیں ‘‘دولت، عورت اور میرا یہودی ہونا’’فرانس کے دیہی علاقوں میں آج بھی یہودیوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور انتہا پسند لی پین اس کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ لیکن کاہن کی پیش گوئی اس حد تک سچ ثابت ہوئی کہ انتخاب سے قبل ہی اس کی زن پرستی نے اس کی لٹیا ڈبو دی اور اس کے دھن دولت کے خزانے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔

فرانس کی عوام کے اندر سوشلزم کا حامی طبقہ قوم پرست فرانسیسی عوام سے دو ہاتھ آگے ہے ۔ان کے خیال میں نفیسہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہے۔ چونکہ امریکی انتظامیہ صدرسرکوژی کا حامی ہے اس لئے اس نے جان بوجھ کر یہ سازش رچی اور کاہن کا کا سیاسی مستقبل تباہ و برباد کر دیا تاکہ ۲۰۱۲ کے انتخابات میں سرکوژی کی مشکلات کم کی جاسکیں اور وہ پھر ایک بار آسانی سے منتخب ہو جائے۔ ان لو گوں کا کہنا ہے نیویارک کے بڑے ہوٹلوں میں صفائی کی خاطر کوئی ملازم تنہا کمرے میں نہیں جاتا بلکہ وہ کم ازکم دو ہوتے ہیں اور خاص طور پر کاہن جیسی نہایت اہم شخصیت کے کمرے میں تو کوئی اکیلے جا ہی نہیں سکتا گو یا یہ نام نہاد اہم ترین شخصیات انسان نہیں بلکہ خونخوار درندے ہیں ۔ان کے مطابق پولس کی بیجاسختی اور میڈیا کی غیر معمولی دلچسپی بھی اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ نفیسہ کوئی ‘ماتا ہاری ’ نہیں ہے جو حقیقت میں فرانس کی ایجنٹ تھی لیکن پہلی جنگ عظیم کے دوران جسے جرمنی کیلئے جاسوسی کرنے کا الزام لگا کر فرانسیسی فائرنگ اسکواڈ نے ۱۹۱۷ میں گولیوں سے بھون دیا گیا تھا اور بعد میں پتہ چلا کہ اس پر لگایا جانے والا الزام بت بنیاد تھا اور وہ معصوم تھی۔

ایک تازہ سروے کے مطابق فرانس کے ۷۰ فی صد سوشلسٹ رائے دہندگان کے خیال میں کاہن معصوم ہے اور ۵۴ فیصد عام ووٹرس بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ اس کو سیاسی سازش میں پھنسایا گیا ہے گویا ۳۰ گھنٹے جیل میں گزارنے کے بعد بھی فرانسیسی رائے عامہ کاہن کے حق میں ہے ۔یہ مغرب کے اس ملک کا حال جہاں سے کسی زمانے میں یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا تھا ۔جس نے مغرب کو حریت و جمہوریت سے نوازہ ۔ کاہن کے واقعہ نے اس حقیقت کھول کر سامنے رکھ دیا ہے کہ لادینیت کی شاخِ نازک پر مغربی جمہوریت کا یہ ناپائیدار آشیانہ فی الحال آندھی کی زد میں ہے ۔اس کے باوجود اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت اقتدار کی منتقلی کا مہذب ترین طریقہ ہے تو ایسے لوگوں کی مغرب زدگی پر ماتم کرنا صرف اور صرف اپنے وقت کا ضیاء ہے ۔

سیاست کے علاوہ کاہن کی اپنی اقتصادی دنیا کے بھی بہت سے لوگ ان واقعات پر خوشی منا رہے ہیں ۔ان لوگوں کا تعلق ابھرتی ہوئی معیشتوں سے مثلاً ہندوستان ، جنوبی افریقہ اور ترکی وغیرہ۔ کاہن کے جانشین کی طور پر ترکی کے کمال درویش کی دعویداری سب سے پہلے سامنے آئی اور اس کے بعد مونٹیک سنگھ اہلو والیا کا نام بھی اچھالا جارہا ہے ۔یہ ممالک دراصل بین الاقوامی مالی ادارے پر سے یوروپی تسلط کا خاتمہ چاہتے ہیں اور کاہن کا بے آبرو ہوکر کوچے سے نکالا جانا ان کیلئے نعمتِ غیر مرتقبہ بن کر سامنے آیا ہے ۔مشرق کی آپسی رقابت کا فائدہ مغرب اٹھاتا رہا ہے بلکہ وہ مختلف ممالک کے اندر اپنے مفاد کے پیشِ نظر مخاصمت بھی پیدا کرتا رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ہوا کا رخ بدلنے لگا ہے ۔ یوروپ و امریکہ کی معاشی ابتری نے کہیں انہیں قلاش کر دیا ہے تو کہیں وہ قرض کے بوجھ تلے چرمرا رہےہیں ۔ اب دولت کے بازار ان کا وہ رعب داب خاصہ کم ہو گیا ہے ،ماضی کی تاریخ تو یہ ہے کہ گزشتہ ۳۳ سالوں میں سے۲۶ سال آئی ایم ایف کی سربراہی فرانسیسیوں نے کی ۔اس ادارے کے کل ۲۴ ڈائرکٹرس ان میں سے ۹ یوروپ سے آتے ہیں۔ برازیل سے آنے والا ڈائرکٹر ۹ ممالک کی نمائندگی کرتا جبکہ اس کے ووٹ کی قیمت ۶ء۲ فی صد ہے اس کے بالمقابل امریکہ کے نمائندہ کا ووٹ اس سے چار گنا زیا دہ قیمتی ہے لیکن ایسا کب تک چلے گا؟۔اب تو چین بھی اپنی کامیابی کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے اور یوروپی نمائندوں کی سازش کے باوجود اس بات کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اس بار آئی ایم ایف کے اوپر سے یوروپ اجارہ دارہ ختم کر دی جائیگی۔اگر ایسا ہو گیا تو اس میں یقیناً نفیسہ کا حصہ قابلِ قدر ہوگا ۔ ماضی میں اس بدمعاش کی درندگی کا شکار ہونے والی کئی خواتین کو اب ہمت بندھی ہے اور وہ ڈومنق کاہن کے خلاف بیانات دینے لگی ہیں ۔ یہ سب اس نام نہاد اعلیٰ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی ترقی پسند خواتین ہیں جن کو آزاد و خود مختار سمجھا جاتا ہے لیکن ان میں سے کسی نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف منہ کھولنے کی جرأت نہیں کی اس میدان میں بھی الم بغاوت بلند کرنے کا شرف مظلوم و مقہور گردانی جانے والی مسلم خاتون نفیسہ کے حصہ میں آیا۔ یہ تلخ حقیقت یوروپ اور امریکہ کیلئے تازیانۂ عبرت ہے ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2136 Articles with 1616720 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.