پاکستان کے صدر زرداری نے ایک
ایسے نازک موڑ پر 11 مئی تا 14 مئی تک دانشوارانہ یو ٹرن لیتے ہوئے ماسکو
کا دورہ کیا جب اسامہ ڈیتھ آپریشن کے فوری بعد پاکستان اور امریکہ کے
تعلقات پر گڑبڑی اور رنجشوں کی بارش ہورہی ہے۔ اوبامہ ایڈمنسٹریشن پاک
فورسز اور ISI پر نکتہ آفرینیاں کر کے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے نت نئی
شعبدہ بازیاں دکھا رہی ہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد ماسکو اور usa نے خوش
دلی سے نئی مملکت کو اپنی جانب راغب کرنے کی دعوت دی تھی۔ اس وقت دنیا دو
بلاکوں میں تقسیم تھی جنکی قیادت بالترتیب دونوں سپرپاورز سوویت یونین اور
امریکہ کررہے تھے۔ پاکستان نے ہمسائے کو دھتکار کر ہزاروں میل دور واشنگٹن
کو آقا و ملجی بنا کر تاریخ ساز غلطی کا ارتکاب کیا۔پاکستان اور امریکہ کی
64 سالہ ہسٹری میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے ریلیشن شپ کا عمیق نظروں سے
تجزیہ کریں تو یہ سچائی مکھن کی سفیدی کی طرح سامنے آجاتی ہے کہ امریکہ نے
کبھی دوستی کا حق ادا نہیں کیا۔ امریکہ نے پاکستان کو اپنی طفیلی ریاست بنا
کر رکھ دیا ہے۔1947میں سوویت یونین کی بجائے وائٹ ہاؤس کو فوقیت دینا شدید
ترین غلطی تھی جسکا خمیازہ آج تک ملک و قوم بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی دوسری
شدید ترین غلطی افغان سوویت جنگ میں امریکہ کی خوشنودی کے لئے لاکھوں
جنگجووں کا بندوبست اور پھر سوویت یونین کی شیرازہ بندی مضمر ہے۔ اگر سوویت
یونین آج سپرپاور ہوتا تو افغانستان اور پاکستان کشت و قتال کا میدان
کارزار نہ بنے ہوتے۔ زرداری کا دورہ ماسکو اہم سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے۔
روسی صدر دمتری میڈیو ڈیف کے تین سالہ دور اقتدار میں زرداری اور دمتری
میڈیوڈف کی 5 ویںملاقات تھی جن میں سے3 ملاقاتیں عالمی فورمز کے پلیٹ فارمز
پر ہوئیں۔ روسی میڈیا میں زرداری کے دورہ ماسکو کا خوب چرچہ ہے۔ سربراہی
ملاقات مختصر وقت میں منعقد ہوئی جسے ایک ریکارڈ کا درجہ دیا گیا ہے۔ روسی
صدر نے زرداری کو اگست میں دورہ روس کی دعوت دی تھی تاہم عالمی بساط پر
ہونے والی طلسماتی تبدیلیوں ،پاک امریکہ تعلقات اور خطے کی آتشیں صورتحال
کے تناظر میں یہ ملاقات اگست کی بجائے مئی میں ہوگئی۔ بھارت کسی دور میں
ماسکو کا منظور نظر بچہ تھا۔ کریملن نے پاکستان کو ہمیشہ بھارتی آنکھ سے
دیکھا۔ ماسکو وسطی اور جنوبی ایشیا میں بھرپور کردار ادا کرنے کی تیاریاں
کررہا ہے۔ یوں روس نے بھارت کو اسلام آباد پر فوقیت دینے کی بجائے دونوں کو
ایک آنکھ سے دیکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ شہرہ عالم رشین تجزیہ نگار ولادیمیر
راڈ یوہن نے دی ہندو میں شائع ہونے والے مضمون بعنوان زرداری کا دورہ روس
میں ماسکو اسلام آباد کے بڑھتے ہوئے اقتصادی علاقائی تعلقات اور مستقبل میں
انکے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔ ولادیمیر لکھتے ہیں کہ پچھلے سال اگست میں
روس نے پاکستان روس افغانستان اور تاجکستان پر مشتمل فورم تشکیل دیا ۔ اسکا
نقطہ نظر قابل تعریف ہے کہ چاروں ملکر دہشت گردی منشیات فروشی اور علاقائی
سیاسی عدم و استحکام اور انتشار کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوششیں کریں
گے۔چاروں ممبر ملکوں کے وزرائے اقتصادی امور کا اجلاس اکتوبر 2010میں منعقد
ہوا جس میں سوویت سنٹرل ایشیا سے افغانستان کے راستے پاکستان میں سپرہائی
وے تعمیر کرنے کا متفقہ فیصلہ ہوا۔بجلی کی کمی کو پورا کرنے کی خاطر اجلاس
میں طے پایا کہ تاجکستان افغانستان کے راستے پاکستان کو بجلی مہیا کرے
گا۔پاکستان میں سوئی گیس تیل اور ہائیڈرو پاور کے شعبوں میں سرمایہ کاری
کرنے کی منظوری دے دی۔ شنگھائی کو آپریشن تنظیم کے پچھلے اجلاس میں روسی
وزیراعظم پوٹن نے پاکستان کے ہم منصب گیلانی کو پاکستان ترکمانستان
افغانستان اور انڈیا کو ملانے والی گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لئے روسی
تعاون اور مالی امداد کی آفر دی تھی۔ ولادیمیر لکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے
وفود نے حالیہ دورہ میں پاکستان کی سٹیل مل جو روس نے تعمیر کی تھی کو جدید
بنانے اور اسکی پیداوار بڑھانے کے ایم او ویز پر دستخط کئے۔ علاوہ ازیں
پاکستان میں تیل گیس کی تلاش بجلی کی پیدا وار بڑھانے اور زرعی شعبے کو
جدید بنیادوں پر کھڑا کرنے لئے پاک رشین ایگری منٹس بھی کئے گئے۔ اسامہ کے
حوالے سے روسی صدر نے فرمان جاری کیا کہ اس واقعے سے اسلام آباد اور ماسکو
کے دوستانہ تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑھ سکتا۔پاکستان میں روسی سفیر
اینڈی ہڈبک نے اپنے تازہ ترین مقالے میں پاکستان کی دہشت گردی کی کوششوں
اور رول کو قابل ستائش قرار دیا ۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان نے انتہاپسندی
کے خلاف عالمی کیمونٹی کا بھرپور ساتھ دیا ہے جسکی داد دینی ہوگی۔ سفیر
رقمطراز ہیں کہ ماضی میں روس نے پاکستان کے مقابلے میں امریکہ کا ساتھ دیا
جسکی اہم وجہ افغانستان تھا۔ روسی سفیر ہڈ بک کہتے ہیں کہ افغان مسئلے کے
حل کے لئے روس پاکستان کو اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ روسی اہمیت کی
اہم ترین وجہ وہ مشترکہ سوچ ہے جس کی رو سے ماسکو اور اسلام آباد سمجھتے
ہیں کہ افغان تنازعے کا حل کسی صورت میں بیرونی طاقتوں کو مداخلت کی اجازت
نہیں دے سکتا۔ ماسکو کے ایک اور منجھے ہوئے سفارت کار مشترق ضمیر کاہلوک جو
افغانستان اور پاکستان میں کریملن کے نئے نمائندے ہیں کا فلسفہ ہے کہ روس
ان عسکریت پسندوں کے ساتھ باہمی ڈائیلاگ کے لئے تیار ہوا ہے جو القاعدہ سے
اپنے تعلقات ختم کردیں مگر ایسا اہتمام صرف پاکستان کرسکتا ہے اور اسکے
انعام کے طور پر پاکستان کو شنگھائی تنظیم میں شامل ہونے کے لئے ماسکو کی
حمایت مل سکتی ہے۔روسی سفیر کے مطابق پاکستان شنگھائی کو آپریشن تنظیم میں
ایک مبصر کی شکل میں شامل ہے مگر اس بات کے قومی امکانات ہیں کہ پاکستان
تنظیم کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے اہل امیدوار بن سکتا ہے۔ صدر مملکت زرداری
نے روس کو گرم پانیوں تک رسائی کی افر کی ہے۔ صدر مملکت کا دورہ روس جہاں
ایک طرف ماسکو اور اسلام آباد کے دوستانہ ریلیشن کو مستحکم بنائے گا وہاں
امریکی شہزادوں اوباموں اور ہیلریوں کو اب پاکستان پر زیادہ غصہ نکالنے اور
دباؤ ڈالنے کی دادا گیری سے پرہیز کرنے کا عارضہ لا حق بن سکتا ہے۔ زرداری
اور دیمتری صدر روس کی حالیہ ملاقات افغان خطے کے انتشار زدہ حصے میں مثبت
کردار ادا کرے گی۔ یاد رہے کہ روس اور پاکستان کے بردرانہ تعلقات وقت کی
اہم ضرورت ہیں۔ امریکیوں کے نکل جانے کے بعد صرف دو ملک ایسے ہیں جو خطہ
افغان میں امن سکون و شانتی کے احیا کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ زرداری کے
قبل از وقت کامیاب دورہ روس امریکی دباؤ کو ختم کرنے میں ممدون ثابت ہوگا۔ |