اس خطے اور بالخصوص کشمیر کے لئے کورونا سے بھی
بدترین وائرس بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے قتل عام اور ریاستی دہشتگردی کے
اس دور میں ایک بار پھر پرانے زخم تازہ ہو گئے ہیں۔آج بھی وہی دھوکہ دہی
اور بین الاقوامی سازشیں نظر آ رہی ہیں۔ اگر ماؤنٹ بیٹن اور جان ریڈ کلف
ساز باز اور جعلسازی سے بھارت کی طرفداری نہ کرتے تو تقسیم ہند کے فارمولے
کے تحت بھارت کو کشمیر کے لئے زمینی راستہ نہ مل سکتا تھا۔ 1941کی مردم
شماری (سنسز آف انڈیا)کے مطابق پورا پنجاب پاکستان کا حصہ بن رہا تھا۔ کیوں
کہ اس کی 53,2فی صد آبادی مسلمان تھی۔ پنجاب میں ہندو آبادی صرف 29.1فی صد
اور سکھ آبادی 14.9فی صد تھی۔ مگر تقسیم ہند کے ریڈ کلف فارمولے میں بھی
دھاندلی اور ہیر پھیر کی گئی۔ پورا پنجاب پاکستان کو دینے کے بجائے اس کے
اضلاع میں آبادی کے تناسب کے تحت تقسیم ہوئی۔ پھر اس تقسیم میں بھی ہیر
پھیر اور دھاندلی کی گئی۔ پنجاب کے گورداسپور ضلع کی مسلم آبادی 1941کی
مردم شماری کے مطابق 50.2 فی صد، ہندو آبادی 25.9فی صد اور سکھ آبادی
18.8فی صد تھی۔ مگریہ پورا ضلع پاکستان کو دینے کے بجائے اس میں سے صرف شکر
گڑھ تحصیل پاکستان کو دی گئی۔ جالندھر ضلع میں مسلم آبادی 45.2فی صد، ہندو
27.6فی صد اور سکھ 26.5فی تھے۔ مگر سارا ضلع بھارت کو دے دیا گیا۔ ضلع
فیروز پور میں 45.1فی صد مسلمان، 19.6فی صد ہندو اور33.7فی صد سکھ آبادی
تھی۔ مگر اسے بھی پاکستان کو دینے کے بجائے بھارت کو دیا گیا۔ اسی طرح ضلع
امرتسر میں 45.4فی صد مسلم، 17.7فی صد ہندو اور 35.2فی صدسکھ آبادی تھی، اس
ضلع کو بھی تقسیم فارمولے کے برخلاف پاکستان کے بجائے بھارت کو دیا گیا۔
پورا پنجاب پاکستان کو دینے کے بجائے اضلاع کی آبادی کی بنیاد پر تقسیم کی
گئی۔ پھر اضلاع میں سے بھی بھارتی مفاد میں تحسیل کی بنیاد پر علاقے
پاکستان کو بھارت کو دیئے گئے۔ گورداسپور ضلع کو پاکستان کو نہ دیا گیا۔ اس
میں تحصیل کی بنیاد پر تقسیم ہوئی۔ تحسیل گورداسپور میں 1941کی مردم شماری
کے مطابق مسلم آبادی 52.1فی صد تھی۔ مگر پوری تحصیل بھارت کو دی گئی۔ اسی
طرح بٹالہ تحصیل میں مسلم آبادی 55.6فی صد تھی، اسے بھی پاکستان کے بجائے
بھارت کو دیا گیا۔ شکر گڑھ کی مسلم اکثریتی تحصیل کا کچھ حصہ بھی بھارت کو
دیا گیا۔ علاوہ ازیں مسلم اکثریتی تحصیل لاہور اور قصور کو بھی کاٹ کر اس
کا کچھ حصہ بھارت کو دیا گیا۔ ریڈ کلف نے غیر مسلم اکثریتی والا کوئی علاقہ
پاکستان کو نہ دیا جب کہ مسلم اکثریت والے لا تعداد علاقے بھارت کے دے دیئے۔
جن میں فیروز پور تحصیل(55.2 فی صد مسلم آبادی)، زیرہ تحصیل (65.2 فی صد
مسلم آبادی)،اجنالا تحصیل (59.4 فی صد مسلم آبادی) ،جالندھر تحصیل (51.1 فی
صد مسلم آبادی)،نکودار تحصیل (59.4 فی صد مسلم آبادی)شامل تھیں۔ اس کھلی نا
انصافی پر پاکستان نے متعلقہ عالمی فورمز کے سامنے درخواستیں دائر نہ
کیں۔70سال گزرنے کے بعد کیا آج پاکستان ایسا کر سکتا ہے۔
یوں تو 19جولائی کو ہر سال کشمیر کا پاکستان سے الحاق کا دن منایا جاتا
ہے۔آئین پاکستان میں کشمیر کو ایک متنازعہ خطہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کا
کشمیر پر دعویٰ نہیں۔مگر بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ آج ہی
کے دن سرینگر میں کشمیری قیادت نے 1947کو قیام پاکستان سے تقریباً سوا ماہ
قبل ہی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ سرینگر کے آبی گزر
علاقہ میں جو لال چوک کے متصل پریس کالونی کے عقب میں واقع ہے ،میں الحاق
پاکستان کی قرارداد مجاہد ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کے گھر پر
منظور کی گئی۔ یہ ایک تاریخی قرارداد تھی ۔ جو آل جموں و کشمیر مسلم
کانفرنس نے اپنے ایک ہنگامی کنونشن میں منظور کی۔ کنونشن کی صدارت چوہدری
حمید اﷲ خان نے کی۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد خواجہ غلام الدین
وانی اور عبد الرحیم وانی نے پیش کی۔ اس موقع پر تقریباًپانچ درجن مسلم
کانفرنس رہنما کنونشن میں شامل تھے۔ جو ریاست بھر سے یہاں پہنچے تھے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ چونکہ مذہبی، جٖغرافیائی، ثقافتی، اقتصادی طور پر
اور عوامی جذبات کے لحاظ سے کشمیری پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں ۔ا س لئے کشمیر
کا پاکستان سے الحاق ضروری ہے۔ تقسیم برصغیر کے انگریز فارمولہ کے تحت بھی
دو قومی نظریہ کی بنیاد میں کشمیر کا پاکستان سے الحاق ضروری ہے کیوں کہ
ریاست کی اکثریتی آبادی مسلم ہے۔ مگر چونکہ ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ اس وقت
ریاست کا حکمران تھا ۔ لارڈ موئنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی سازش کے تحت
ریاست کا بھارت سے فرضی الحاق کیا گیا۔ کیوں کہ یہ سب 16اگست 1947کو ریڈکلف
ایوارڈ کے اعلان کے ساتھ ہی زبردستی کا سودا ہوا۔سازش کے تحت بھارت کو
کشمیر میں راہداری فراہم کی گئی۔ بھارت نے کشمیر پر اپنی فوجیں اتارنے کا
فیصلہ انگریز سے مل کر کیاتھا۔ جب 27اکتوبر 1947کو سرینگر کے ہوائی اڈے پر
بھارت کی فوج کی پہلی یونٹ اتری ۔ اس وقت کشمیری بھارت کے خلاف مزاحمت کر
رہے تھے۔ ریڈ کلف نے باؤنڈری ایوارڈ کے تحت مسلم اکثریتی گورداسپور ضلع کو
بھارت میں شامل کر لیا۔ اس کا مقصد بھارت کو کشمیر کے لئے راہداری فراہم
کرنا تھا۔ اگر گورداسپور بھارت کو نہ دیا جاتا تو بھارت کا کشمیر کے ساتھ
زمینی رابطہ پہلے ہی منقطع ہو جاتا۔ لیڈی ماؤنٹ بیٹن کا نہرو کے ساتھ
معاشقہ کشمیریوں کے لئے بھارتی قبضے کی صورت میں نمودار ہوا۔
پاکستان نے بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف31دسمبر1947کو جوابی کارروائی کا
فیصلہ کیا تو بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے سیز فائر کے لئے
رجوع کر لیا۔ اور اس سے مداخلت کی اپیل کی۔ پاکستان اور بھارت کی فوج کے
درمیان یکم جنوری 1949سیز فائر ہو گیا۔ یہ جنگ بندی اقوام متحدہ نے کرائی۔
مگر سلامتی کونسل نے کشمیر میں رائے شماری کرانے کی بھارتی یقین دہانی کے
بعد سیز فائر قبول کیا۔سلامتی کونسل نے 21اپریل 1948کو ایک قرارداد47منظور
کی ۔ جس میں کشمیریوں کے ساتھ رائے شماری کرانے کا وعد ہ کیا گیا۔ کہ وہ
پاکستان کے ساتھ رہنا چاہیں گے یا بھارت کے ساتھ۔ بعد ازاں بھارتی حکمران
1964سے ہی اپنے وعدوں سے مکر گئے۔ انھوں نے 1965میں اپنی پارلیمنٹ میں ایک
قرارداد منطور کی کہ جس میں جموں و کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ قرار دے دیا۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکمران آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملوں کی
دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔19جولائی1947کو کشمیریوں کا پاکستان سے الحاق کا
فیصلہ آج بھی مقبوضہ ریاست میں جھلکتا ہے۔ آج بھی کشمیری پاکستان کا پرچم
لہرا رہے ہیں۔ وہ آج اپنے شہدا ء کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کر
رہے ہیں۔ کشمیریوں اور پاکستان کا رشتہ انمول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال
دنیا بھر میں یوم الحاق پاکستان منایا جاتا ہے تا کہ پاکستان اور کشمیر کے
تعلق اور رشتے کی مضبوطی کا اعادہ کیا جائے۔ تجدید عہد کیا جاتا ہے کہ
کشمیری اپنی آزادی کے لئے اور بھارت سے غلامی کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔
پاکستان پر زور دیا جاتاہے کہ وہ بھارت سے کشمیر پر بات چیت میں کسی قسم کی
کوتاہی اور کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ پسپائی اختیار نہ کی جائے۔ عمران خان
حکومت معذرت خواہانہ رویہ ترک کرے۔پاکستان کی سابق حکومتیں بھی دہلی کے
سامنے معذرت خواہانہ رویہ اپناتی رہی ہیں۔ جس سے کشمیر کاز کو زبردست نقصان
پہنچا۔ یہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ کشمیر جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان
دو طرفہ مسلہ ہے یا کوئی سرحدی جھگڑا ہے۔ جب کہ مسلہ کشمیر سلامتی کونسل کے
ایجنڈے پر اب بھی موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کشمیر کی جنگ بندی لائن کی آج بھی نگرانی کر
رہے ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ یہاں چے چلے جائیں ۔ اس کے لئے وہ دنیا بھر
میں لابنگ کر رہا ہے۔ پاکستان اس کا اہم فریق ہے۔
کشمیریوں کو براہ راست سلامتی کونسل یا اقوام متحدہ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
نہ ہی کشمیریوں کو مبصر کا درجہ دیا جا سکا ہے۔ آزاد کشمیر جو کہ تحریک
آزادی کا بیس کیمپ کہلاتا ہے۔ یہاں کی قیادت سنجیدہ ہوتی تو کم از کم اقوام
متحدہ میں مبصر کا درجہ ہی حاصل کر لیتی۔ لیکن یہاں بدقسمتی سے ہمیشہ
اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی۔ آج بھی جب کشمیر میں قتل عام جاری ہے۔ نسل کشی
عروج پر ہے۔ کورونا وائرس کے دوران بھی ہزاروں کشمیری ہسپتالوں میں علاج
اور ادویات کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ وہ آنکھوں، بازو، ٹانگوں سے محروم کر دیئے
جاتے ہیں۔
کشمیریوں کو کمک پہنچانے یا جنگ بندی لائن کی طرف مارچ یا بڑے احتجاجی
مظاہروں کے بجائے آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی حکومت لانے کے لئے آج ایک بار
پھر الیکشن کی مہم تیز ہو گئی ہے۔پی ٹی آئی کے صدر سیز فائر لائن پر
قائموادی لیپہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ انتخابی منشور میں بھارتی مظالم اور
خلامی کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔ اگر کہیں تحریک
کا کوئی نام ہے ، وہ بھی احسان جتلاتے ہوئے درج کیا جاتاہے۔ شہدا کی تعداد
میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن افسوس ہے تحریک کے نام پر تجارت کرنے والوں کے
اثاثوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف شہدا ء کے قبرستان پھیل رہے ہیں۔
تو دوسری طرف مفاد پرستوں کے بچوں کا مستقبل روشن ہو رہا ہے۔ سید علی شاہ
گیلانی جیسے قدآور رہنما بھی حالات کے سامنے بے بسی کا رونا رو رہے ہیں۔یوم
الحاق پاکستان کے موقع پر بھی کشمیر شہداء کے خون سے سیراب ہو رہا ہے۔
نوجوانوں کی گرفتاریاں ہورہی ہیں۔ قائدین نظر بند ہیں۔ انہیں احتجاج کا حق
بھی نہیں دیا جاتا ۔ پر امن احتجاج کی بھی اجازت نہیں۔ وادی میں ضروری
اشیاء کی شدید قلت ہے۔ جموں سرینگر شاہراہ کو بند کر دیا جاتاہے۔ عوام
سرینگر راولپنڈی روڈ کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی چیخ و پکار
کسی تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے وقت میں کشمیریوں کا پاکستان سے الحاق کا دن
منانا انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کوئی بھی اہم دن ہو تو ہم اس دن
تعطیل کرتے ہیں۔ جب کہ ہمیں چھٹی کی نہیں بلکہ زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے
تا کہ اس دن کی آمدن ہم کشمیر میں شہداء کے لواحقین، یتیموں، بیواؤں،
بھارتی دہشتگردی کے متاثرین تک پہنچا سکیں۔آج بھی کورونا وائرس میں بھارت
لاپرواہی سے کام لے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کشمیری متاثرین ،
زخمیوں کو ادویات، یا پاکستان سے ڈاکٹروں کی ٹیم کشمیر روانہ کرنے میں
کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج کشمیر میں تیز ہونے والی جدوجہد کشمیریوں کو
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کے مطالبے کو دنیا کے سامنے رکھنے کی
دعوت دیتی ہے۔ جب کہ کشمیر سے متعلق جنرل حمید گل مرحوم کے فارمولے پر غور
کرنے کی بھی ضرورت ہے۔جو آزاد کشمیر کو آزاد کرنے اور اس کا پاکستان کے
ساتھ فوجی معاہدہ کرنے کی وکالت کرتے تھے۔ اسی صورت میں کشمیر پر حملہ آور
بھارت کے خلاف پاکستان عالمی قوانین کے مطابق مداخلت کا حق استعمال کر سکتا
ہے۔ |