پندرہ سو سال پہلے 532ء میں مشرقی رومی سلطنت کے
بازنطینی بادشاہ جسٹنیٔن اول نے سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ میں کلیسا کی
تعمیر کا حکم دیا۔ یہ عمارت 537ء میں مکمل ہوئی۔ اِس شاندار عمارت کا نام
’’آیاصوفیہ‘‘ ہے۔ 9 سو سال بعد 1453ء میں سلطنتِ عثمانیہ کی فوج نے
قسطنطنیہ پر قبضہ کیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان محمد دوئم کے حکم پر
قسطنطنیہ کا نام بدل کر استنبول رکھا گیا۔ سلطان نے آیاصوفیہ کی عمارت اور
آس پاس کی زمین کی پوری قیمت اپنی جیب سے کلیسا کے راہبوں کو دی
اورآیاصوفیہ کو مسجد میں بدل دیا۔ اِس خریدوفروخت کی دستاویز آج بھی ترکی
کے دارالحکومت انقرہ میں موجودہے۔
80 سال پہلے جب سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو ترکی کے سربراہ مصطفےٰ کمال
اتاترک نے مسجد میں نماز بند کرکے آیا صوفیہ کو میوزیم بنا دیا۔ اب ترکی کے
صدر رجب طیب اردوان نے ترکی کی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کے بعد استنبول کی اِس
تاریخی عمارت کو پھر مسجد میں تبدیل کردیا البتہ مسجد کے ایک حصے کو سیاحوں
کی آمدورفت کے لیے بحال رکھا۔ اِس عمل کے بعد اقوامِ عالم ترکی کو سخت
تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ امریکہ کے سفیر برائے مذہبی آزادی سیم براؤن
بیک نے کہا ’’ آیاصوفیہ کے درجے میں تبدیلی سے اِس کی مختلف مذاہب کے
درمیان پُل کا کردار ادا کرنے میں کمی آئے گی‘‘۔ یونان کی وزیرِثقافت لینا
منڈونی نے کہا ’’آج کا فیصلہ جو صدر اردوان کی سیاسی خواہش کا نتیجہ ہے
مہذب دنیا کے لیے کھلی اشتعال انگیزی ہے‘‘۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو
نے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا اور ترک حکام سے کہا کہ وہ بلاتاخیر اِس پر
گفت وشنید کریں۔ اور بھی کئی مغربی ممالک نے اِس فیصلے کو ہدفِ تنقید بنایا
جبکہ ترک صدر نے اِسے ترکی کی خودمختاری کا معاملہ قرار دیاہے۔
اگر جانبداری کی عینک اتار کر دیکھاجائے تو حقائق یہ کہ قسطنطنیہ کے راہبوں
کو سلطان نے آیاصوفیہ کی پوری قیمت اداکی جسے راہبوں نے قبول بھی کیا۔
دوسری بات یہ کہ جب اردوان نے آیاصوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا تب یہ
عمارت میوزیم تھی، کلیسا نہیں اورتیسری بات یہ کہ ترکی کی اعلیٰ ترین عدالت
کے فیصلے کے بعد ہی اِسے مسجد میں تبدیل کیا گیا۔ حیرت ہے کہ اقوامِ عالم
اُس وقت تو خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں جب بھارتی سپریم کورٹ بابری مسجد کی
جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دیتی ہے لیکن جب ترک عدالت نے آیا صوفیہ میوزیم
کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تو سبھی اخلاقیات کے تیشے اُٹھا کر باہر
نکل آتے ہیں۔ کشمیر کی بیٹی کے سَر سے ردا چھین لی گئی، عفت مآب بیٹیوں کی
سرِعام عصمت دری ہوئی، لاکھوں بیگناہوں کا خون بہااور اسرائیل سے درآمد شدہ
پیلٹ گنوں سے ہزاروں معصوموں کے آنکھوں کی روشنی چھین لی گئی (ستم کے یہ
حربے آج بھی جاری ہیں) تو اقوامِ عالم کو ضمیر کی خلش تو خیر کیامحسوس ہوتی،
192 میں سے 184ممالک ووٹ دے کر بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن منتخب کر لیتے
ہیں۔ اسرائیل مسجدِاقصیٰ کو ہیکلِ سلیمانی میں بدلنے کی تگ ودَو میں۔ بے
گناہوں کے خون سے رنگین ہوتا فلسطین کسی کو نظر نہیں آتا لیکن آیاصوفیہ پر
نوحہ خوانی جاری ہے۔ یہ بجا کہ مسلمان ہمیشہ غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کے
محافظ رہے لیکن یہ بھی حقیقت کہ غیرمسلم فاتحین نے بیشمار مساجد کو شہیدکیا
اور اُن کی جگہ گرجا گھر تعمیر کیے۔خونِ مسلم اتنا ارزاں کہ بوسنیا، میانمر،
افغانستان، عراق، شام، مصر، یمن اور لیبیا، ہرجگہ جوئے خوں جاری۔
عالمِ اسلام باہم جوتم پیزار، ہراسلامی مملکت اندرونی وبیرونی خلفشار کا
شکار۔ دور مت جائیں اپنے ملک کی حالت دیکھ لیں جہاں جھگڑا صرف کرسی کا۔ خانِ
اعظم ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کے لیے تو ہمہ وقت تیار لیکن
اپنوں سے ہاتھ تک ملانے کے روادار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چوروں، ڈاکوؤں سے
کیسے ہاتھ ملایا جا سکتاہے؟۔ بجا! مگرکرپشن کے مگرمچھ تو اُن کے دائیں
بائیں اور دست وبازو۔ 2019ء کے سروے کے مطابق ملک میں کرپشن پہلے سے بڑھ
چکی۔ خانِ اعظم نے قوم کی تقدیر بدلنے کے دعوے تو بہت کیے لیکن محض دو
سالوں میں ملک کو عشروں پیچھے دھکیل دیا۔ اندرونی طور پر ملک میں بے چینی
اور افراتفری اپنے عروج پر۔ آٹامافیا حکومت کے بَس میں نہیں۔ حکمرانوں نے
20 کلو آٹے کی قیمت 850 روپے مقررکی جو آج بھی 1050 روپے میں مل رہاہے۔
پٹرول مافیاکا جادو سَر چڑھ کر بول رہاہے۔ عالمی مارکیٹ میں جب تیل کی قیمت
صفر بلکہ منفی تک پہنچی تو ہمارے حکمرانوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات
مارتے ہوئے پٹرول کی قیمتیں 117 روپے فی لٹر سے 76 روپے فی لٹر کردیں لیکن
ہوایہ کہ پورے پاکستان سے پٹرولیم مصنوعات غائب ہوگئیں۔ بجائے اِس کے کہ
حکومت پٹرول مافیا کا احتساب کرتی، اُس نے پٹرول کی قیمت یکلخت 26 روپے فی
لٹر زیادہ کردی۔ پھر چشمِ فلک نے یہ عجب تماشا بھی دیکھا کہ پورے پاکستان
میں صرف ایک گھنٹے بعد وافر مقدار میں پٹرولیم مصنوعات دستیاب تھیں۔ چیف
جسٹس ہائیکورٹ جسٹس قاسم خاں نے پٹرولیم مصنوعات کی قلت کے بارے میں
درخواستوں پر سماعت کی تو دَورانِ سماعت چیئرپرسن اوگرا نے کہا کہ 26 جون
کو اوگراکی سمری کے بغیر قیمت بڑھا دی گئی۔ عدالت کے استفسار پر سرکاری
وکیل نے بتایا کہ وزارتِ پٹرولیم نے فون پر اوگرا سے بات کی تھی۔ پتہ نہیں
ایسی کون سی ایمرجنسی تھی کہ اوگراکی سمری کے بغیرہی یکم جولائی کی بجائے
26 جون کو ہی افراتفری میں قیمتیں بڑھا دی گئیں۔
نوازشریف کی حکومت میں چینی 52 روپے فی کلوتھی۔ جب تحریکِ انصاف کی حکومت
آئی تو چینی کی قیمتوں کو پَر لگ گئے۔ جس پر سپریم کورٹ نے چینی کی قیمت 70
روپے فی کلو مقرر کرنے کا حکم دیالیکن آج بھی اوپن مارکیٹ میں چینی 90 روپے
کلو مل رہی ہے۔ چینی مافیاکے سرغنہ کو خود حکومت نے فرار کا موقع فراہم کیا۔
یہ وہی شخص ہے جس کا جہاز خانِ اعظم رکشے کی طرح استعمال کیا کرتے تھے۔ جسے
خانِ اعظم کا اے ٹی ایم کہا جاتاتھا اور جو ’’بکاؤ مال‘‘ کو اپنے جہازمیں
بھربھر کے لایا اور خانِ اعظم کو وزیرِاعظم بنایا۔ اُسے سپریم کورٹ تاحیات
نااہل قراردے چکی تھی لیکن وہ ڈیفیکٹو وزیرِاعظم بن بیٹھا اور اُس نے جتنا
خانِ اعظم پر صرف کیا، اُس سے کئی گنا زیادہ عوامی خون چوس کر فرار ہوگیا۔
تحریکِ انصاف کی ایک خوبی روزِروشن کی طرح عیاں کہ وہ گھرکے گندے کپڑے گھر
کی بجائے سرِعام دھوتی ہے۔ جتنا اُس نے پاکستان کو اقوامِ عالم میں بدنام
کیا، کسی دوسری حکومت نے نہیں کیا۔ خاں صاحب جب بھی بیرونِ ملک دَورے پرگئے،
اُنہوں نے سرِعام پاکستان میں کرپشن کے افسانے سنائے اور جی بھرکے اپوزیشن
کو کرپٹ، چور اور ڈاکوکہا۔ جس سے یہ تاثر اُبھرا کہ پاکستان دنیاکا کرپٹ
ترین ملک ہے۔ حیرت ہے کہ نوازلیگ کے 5 سالہ دَورِحکومت میں غیرملکی قرضوں
کے حجم میں 29ارب 97 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہواجبکہ تحریکِ انصاف کے پہلے 22
ماہ میں ہی غیرملکی قرضے 16 ارب ڈالر بڑھ گئے۔ شرح نمو نوازلیگ کے دَورمیں
5.8 فیصد تھی جو کورونا سے پہلے 0.4 فیصد رہ گئی۔ اب یہ فیصلہ عوام کا کہ
بڑاچور کون اور بڑاڈاکو کون؟۔
وزیرِاعظم کے وزیرِہوابازی نے بھی پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی۔ اُس نے کراچی کے جہازکریش کا سارا ملبہ پائلٹوں پر ڈالتے ہوئے
پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر کہہ دیا کہ پی آئی اے کے 262 پائلٹوں کی ڈگریاں
جعلی ہیں جبکہ سول ایوی ایشن چیختی رہ گئی کہ کوئی ڈگری جعلی
نہیں۔وزیرِباتدبیر کے اِس بیان کے بعد پوری دنیامیں کام کرنے والے پاکستانی
پائلٹوں کو گراؤنڈ کر دیاگیا اور برطانیہ، یورپی یونین کے علاوہ کئی دیگر
ممالک نے پی آئی اے پر پابندی لگادی۔ اب خبر آرہی ہے کہ صرف 28 پائلٹوں کی
ڈگریاں مشکوک ہیں لیکن وزیرِموصوف بڑی ڈھٹائی سے اپنی سیٹ پر براجمان اور
خانِ اعظم کی طرف سے بھی تاحال کوئی ایکشن سامنے نہیں آیا۔ شایدخانِ اعظم
مائینس وَن اورالیکشن کمیشن کے مَنی لانڈرنگ کیس کی وجہ سے بوکھلاہٹوں کا
شکار ہوں کیونکہ الیکشن کمیشن نے تحقیقاتی کمیٹی کو 17 اگست تک رپورٹ پیش
کرنے کا حکم دے دیاہے۔ |