کورونا : تبلیغی جماعت سے شنچونجی چرچ تک داستان ِ المناک

دنیا ایک مختصر گاوں بن چکی ہے۔ اس لیے ایک جگہ کا خیر و شر بڑی آسانی سے دور دراز کے ممالک تک منتقل ہوجاتا ہے۔تیزی سے پھیلنے کے معاملے میں برائی کو بھلائی پر سبقت حاصل ہے ۔ کورونا جیسی وبا بھی اس معاملے میں رکاوٹ نہیں بنتی ۔ اس کی ایک مثال امسال مارچ و اپریل کے مہینے میں منظر عام پر آئی۔ وطن عزیز میں کورونا کے حوالے سے اپریل کے پہلے ہفتے میں جو ناٹک کھیلا گیا وہ در اصل جنوبی کوریا میں رچے جانے والے ڈرامے کا ری میک تھا۔ یہاں پر تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا گیا اور وہاں شنچونجی چرچ کی بلی چڑھائی گئی ۔ ان دونوں سانحات کے درمیان زبردست مماثلت کے پیچھے یکساں حالات اور مقاصد کارفرما ہیں۔ تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی وجہ تارکین وطن مزدوروں کی بابت سرکاری ناکامی کو چھپانا تھا ۔ اسی طرح شنچونجی چرچ کی بدنامی کا مقصد جنوبی کوریا کی حکومت کے ذریعہ کورونا کی وبا کو روکنے میں کوتاہی تھی۔ ہندوستان اور جنوبی کوریا دونوں ممالک میں اقلیتوں کی ایک مخصوص مذہبی تنظیم کو نشانہ بنایا گیا۔ اس گھناونے مقصد کی خاطر میڈیا کا بھرپور استعمال کیا گیا اوردونوں کے بھیانک نتائج مرتب ہوئے۔

ہندوستان میں نفرت و عناد کی جو فضا بنائی گئی اس سے ہم لوگ واقف ہیں ۔ تبلیغی جماعت کی آڑ ملت اسلامیہ پر جسمانی اور نفسیاتی حملے کیے گئے ۔یہاں تک کہ معاشی بائیکاٹ تک کی کوشش کی گئی ۔ اس نفرت انگیزی کی گونج عرب ممالک تک میں سنی گئی اور جب وہاں سے ردعمل آنا شروع ہوا تو اربابِ اقتدار نے ہوش کے ناخون لیے۔ میڈیا نے صلح صفائی کا لہجہ اختیار لیکن بدقسمتی سے جنوبی کوریا میں ہنوز اس طرح کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ شنچونجی چرچ کے خلاف تفریق و امتیاز کے ابھی تک ۶ ہزار واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔ اس کے سبب کئی لوگوں کو ملازمت سے ہاتھ دھوناپڑا اور نہ جانے کتنوں سے ان کے رشتے داروں نے کنارہ کشی کرلی ۔ ان پروائرس کی روک تھام سے متعلق ہدایات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا گیا۔ بڑے پیمانے پر وائرس پھیلنے کے لیے انہیں قصور وار ٹھہرایا گیا۔ گرجا گھر کے عہدے داروں پر سنگین الزامات کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس کے ایک ماہ بعد یہی کہانی دہلی میں من و عن تبلیغی جماعت کے مرکز کو لے کر دوہرائی گئی۔

سیول کے میئر پارک وون سون نے گرجا گھر کے بانی لی مان ہی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف عمداً قتل کا الزام لگا کر تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر لی نے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا ہوتا تو یہاں نہ وائرس پھیلتا اور نہ ہی ہلاکتیں ہوتیں، حالانکہ چرچ کے سربراہ لی مان ہی اس معاملے میں علی الاعلان اپنی معذرت پیش کرچکے تھے ۔ ۔۸۸ برس کے بزرگ پادری نے اعتراف کیا کہ 'اگرچہ ایسا عمداً نہیں کیا گیا تاہم اس سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ہم اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسے روکنے میں ناکام رہے۔' حکومت کے اس جابرانہ اقدام پر اقوام متحدہ کے ۴۴ ویں عمومی اجلاس میں انسانی حقوق کی رپورٹ میں جنوبی کوریا کے اندر کووڈ ۱۹ کےبہانے شنچونجی چرچ کے ارکان کو بلی کا بکرا بنانے کے عنوان سے تنقید کی گئی۔ اس کا حوالے دے کر امریکہ میں عالمی مذہبی آزادی کے کمیشن نے لکھا کہ مذکورہ چرچ کو جنوبی کوریا کی حکومت اور سماج ہراساں کررہا ہے۔ اس میں سرکار کچھ اقدامات تو جائز ہیں لیکن کئی ایسے ہیں جن میں چرچ کے تعلق سے مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔

16مارچ 2020 کو، یواین کے انسانی حقوق کے ماہرین کے ایک گروپ نے بلا واسطہ اس سانحہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''کووڈ-19 وباء کے پھیلاؤ کی بنیاد پر ہنگامی حالات کے اطلاق کو مخصوص گروہوں، اقلیتوں، یا افراد کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ اسے صحت کی حفاظت کے لبادے میں جابرانہ عمل پر پردہ ڈالنے کے لیے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔'' ان ہدایات کو عمومی اس لیے رکھا گیا تاکہ اس طرح کا بھید بھاو کہیں اور نہ ہو مگر افسوس کہ دہلی کے انتظامیہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے کمیشن نے یہ بات واضح کردی تھی کہ ’’صحت کی بابت حقوق کا عالمی دستاویز میں درج دیگر حقوق مثلاً خوراک، روزگار، تعلیم، انسانی وقار، زندگی، عدم امتیاز، برابری، ایذا رسانی کی ممانعت، خلوت، معلومات تک رسائی، اور انجمن سازی، اجتماع اور نقل و حرکت کی آزادی کے حصول کے ساتھ بہت قریبی تعلق ہے اور اؚسکاتحفظاُنکےتحفظپرمنحصرہے۔ یہ اور دیگر حقوق اور آزادیاں صحت کے حق کی لازمی اجزائے ترکیبی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی قرار داد کے مطابق جس کی حکومتِ ہنداور جنوبی کوریا کی سرکار پابند ہے :’’ صحت کا حق تقاضا کرتا ہے کہ صحت کے مراکز، سازوسامان، اور سہولیاتمناسب مقدار میں دستیاب ہونے چاہییں اور بلاامتیاز ہر فرد کی رسائی میں ہوں۔ تمام افراد حتیٰ کہ طبقات تک ان کی رسائی ہو؛ ان واضح ہدایات کے بعد طویل عرصے تک تبلیغی جماعت کے لوگوں کو غیر قانونی حراست میں بنیادی سہولیات سے محروم کرکے رکھا گیا اور بالآخر عدالت عظمیٰ کی مداخلت سے وہ رہا ہوئے۔ ہندوستان میں جس طرح تبلیغی جماعت کے ارکان نے رہا ہونے کے بعد پلازمہ ریسرچ کے لیے خون کا عطیہ دینے کی پیشکش کی اسی طرح شنچونجی چرچ نے بھی اپنے صحتمند ہونے والے ارکان کو خون کا عطیہ دینے کی ترغیب دی لیکن افسوس کہ ذرائع ابلاغ نے ان خبروں کو نظر انداز کردیا۔ چرچ کے ذریعہ جن چار ہزار لوگوں نے پلازمہ دیا اس کی قیمت کا تخمینہ تقرئباً ۸۳ کروڈ ڈالر ہوتا ہے۔

جنوبی کوریا میں کھیلے جانے والے اس شرمناک کھیل کے پیچھے خالص سیاسی وجوہات کارفرما تھیں ۔ چین کے بعد سب سے پہلے جنوبی کوریا میں یہ مرض بڑے پیمانے پھیلنا شروع ہوا تو حکومت کو اس کی ہیبت ناکی کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ فروری کے وسط میں صدر مون جائی ان نے اعلان کردیا کہ بہت جلد کووڈ 19 کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ جنوبی کورونا میں اپریل کے وسط میں پارلیمانی انتخاب منعقد ہونے والےتھے اور وہاں پر انتخاب جنگ کے دوران بھی ملتوی نہیں ہوئے تھے اس لیےا شارہ اسی جانب تھا ۔ ان وجوہات کی بنا ء پر ابتدا میں احتیاطی تدابیراختیار نہیں کی گئیں ۔ اس زمانے میں حکومت اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی اور مریضوں کو اسپتال سے لوٹایا جارہا تھا ۔ وبا جب بے قابو ہونے لگی تو اس بات کا اندیشہ پیدا ہوگیا کہ اپریل میں مون کی جماعت انتخاب ہار جائے گی ۔ اپنی کوتاہی کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے شنجونچی چرچ پر بخار اتارا گیا ۔

حکومت کی عدم مقبولیت کو ئی خیالی مفروضہ نہیں ہے۔ ایک جائزے کے مطابق مارچ کے اوائل میں صدرمون کے مواخذے کی حمایت ۱۴ لاکھ لوگوں نے کردی ۔ جو ایک کم آبادی والے ملک میں بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد جب مذکورہ چرچ کے خلاف ہوا سازی کی گئی تو لوگوں کا دھیان ہٹ گیا ساڑھے بارہ لاکھ لوگوں نے اس کو کورونا کے پھیلاو کی وجہ سے بند کرنے کی حمایت کردی ۔ یہ کام بہت ہی منصوبہ بند انداز میں کیا گیا ۔ پچیس فروری کو مون کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے جیونگی صوبے میں گورنر چالیس سرکاری ملازمین کے ساتھ چرچ پر پہنچ گئے اور تفصیلات حاصل کرنے میں بیجا زبردستی کرنے لگے ۔ یہ اجیت دوبھال کے تبلیغی مرکز پہنچنے جیسا معاملہ ہے ۔ گورنر کی جائی میونگ نے اسے حالت ِجنگ قرار دے دیا۔ یہ زی ٹی وی پر چلنے والے کورونا جہاد کی مانند سنسنی پھیلانے والا الزام تھا ۔

اس کے بعد وزیرقانون چو می آئی حرکت میں آئے انہوں نے اعلان کیا کہ اگر چرچ کے ذمہ داران تعاون نہ کریں تو ان پر چارہ جوئی کی جائے جبکہ مقامی اہلکار اپنے تفتیشی وارنٹ تک سے غیر مطمئن تھے۔ اس دھمکی کے برعکس چرچ کے ارکان تعاون کررہے تھے۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیز بیان تھا جیسے گری راج سنگھ وغیرہ دیتے رہتے ہیں ۔ اس کے بعد سیول شہر کے میئر پاک ون سون نے سرکاری وکیل کو جان بوجھ کر قتل کا الزام لگانے کی تلقین فرمادی ۔ یہ صاحب 2017 صدارتی انتخاب کی کوشش کرچکے ہیں۔ اس بار یہ مذموم حرکتمیڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے کی گئی تھی حالانکہ وزیر صحت کم کانگ لپ یہ اعلان کرچکے تھے کہ شنچونجی چرچ ضروری معلومات فراہم کرکے تعاون کررہا ہے ۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ زور زبردستی سےخوفزدہ ہوکر اگر چرچ کے ارکان روپوش ہوجائیں گے تو بیماری کی روک تھام مشکل ہوجائے گی لیکن سیاستدانوں کو وبا سے زیادہ اپنی مقبولیت کی فکر ستاتی رہتی ۔

شنچوجی چرچ کے خلاف یہ نفرت و عناد ملک میں موجود اکثریتی طبقے کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کی گئی تھی ۔ جنوبی کوریا میں سب سے زیادہ آبادی والا پروٹسٹنٹ چرچ شنچونجی کو گمراہ قرار دے کر اپنا دشمن سمجھتا ہے ۔ اس کے سربراہ جُن توانگ ہن تو صدر مون کو بھی جاسوس قرار دے کر ملک کو برباد کرنے ک والا کہہ چکے ہیں ۔ اس لیے مون نے شچونجی کی مخالفت کرکے ایک تیر سے دو شکار کرلیے ۔ ایک تو اپنی کوتاہی کی پردہ پوشی کرلی اور دوسرے پروٹسٹنٹ چرچ کے ماننے والوں کا دل جیت لیا ۔ بدقسمتی سے اس طرح کی حکمت عملی ہندوستان ہی کی طرح جنوبی افریقہ میں بھی کامیاب رہی ۔ کورونا کے باوجود وہاں ۱۵ اپریل کو انتخابات کا انعقاد ہوا۔ احتیاط کے باوجود ریکارڈ توڑ ووٹنگ ہوئی اور مون کی ڈیموکریٹک پارٹی کو ۳۰۰ میں سے ۱۸۰ نشستوں پر کامیابی ملی ۔ اس میں شک نہیں کہ کورونا کی روک تھام کے لیے آگے چل کر جنوبی کوریا کی حکومت نے دنیا بھرنام روشن کیا لیکن اقتدار کی حصولیابی کے لیے اس نے شنچونجی چرچ کو جس طرح بدنام کیا یہ اس کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221465 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.