روس: جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

روس میں صدارتی نظام حکومت ہے ۔ وہاں کا صدر ہندوستان کی مانند محض ربر اسٹامپ نہیں ہوتا۔ سربراہ مملکتکی حیثیت سے وہ وسیع تر اختیارات کا مالک ہوتا ہے۔ اس کے باوجود صدر والدیمیر پوٹن عوامی استصواب کے ذریعہ روسی آئین میں بڑے پیمانے پر ترمیم کروائیں ۔ ان آئینی ترمیمات کا مقصد مدت کار میں توسیع کے علاوہ اختیارات میں بھی بے شمار اضافہ ہے ۔ یہ تو پوٹن کی شرافت ہے کہ وہ اپنے اختیار کی توثیق کے لیے دستور میں ترمیم اور اس عوامی استصواب کراتے ہیں ورنہ ہمارے حکمراں تو بلا تکلف جو چاہتے ہیں ہتھیا لیتے ہیں۔ ترمیم شدہ آئین میں چونکہ صدر کو ’عام معاملات میں حکومت کو ہدایت‘ دینے کا اختیا رحاصل ہوگیا ہےلہٰذااطاعت گزارایوان پارلیمان کا کام اب صرف صدارتی احکامات کی انجام دہی ہوجائےگا۔ حد تو یہ ہے کہ ان ترمیمات کے بعد وزیر اعظم کو ایوان پارلیمان کے ارکان منتخب نہیں کریں گے بلکہصدراس کا نام تجویز کرے گا۔ ظاہر ہے صدر تجویز کردہ وزیر اعظم کو معزول کرنا بھی اسی دائرۂ اختیار میں ہوگا ۔اس لیے جب مرضی ہو جس کو چاہے گا کٹھ پتلی کی مانند لائے گا اور ہٹائے گا ۔

روس میں اب وزیر اعظم کی حیثیت وطن عزیز کے صدر مملکت کی سی ہوجائے گی۔ہندوستان کے اندر اگر ایوان پارلیمان کسی آرڈیننس کو دوبار منظور کرکے صدر کو توثیق کے لیے بھیجے تو صدر پر دستخط کرنا لازم ہوجاتا ہے ورنہ بغیر دستخط کے وہ قانون بن جاتا ہے ۔ روس میں اس کے بالکل متضاد صورتحال ہوگی ۔ اس نئے قانون کے مطابق عوام کے ذریعہ منتخبہ روس کی ا ایوان پارلیمان اگر صدر کی جانب سے نامزدکردہ امیدوار کو تین مرتبہ مسترد کردے تو صدر کو اس کےتقرر کا اختیار مل جائے گا۔ اسی طرح کابینہ کو تحلیل کیے بغیرقومی صدر کی مرضی نافذالعمل ہوجائے گی ۔ کابینہ کے ارکان بشمول وزراء وزیر اعظم کے بجائے براہ راست صدر کو جواب دہ ہوںگے۔ پوٹن نے اس بار عدلیہ کی بھی نکیل کسنے کا بندو بست کرلیا ہے ۔ حالیہ ترمیم میں صدر کو سپریم کورٹ کے ججوں کو خودساختہ ’وفاقی کونسل‘ کی منظوری کے بعد برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔

وطن عزیز میں بظاہر عدلیہ خود مختار ہے لیکن کپل مشرا کے خلاف فیصلہ سنانے والے جج مرلی دھر کو راتوں رات ہٹادیا جاتا ہے اور کسی کان پر جوں نہیں رینگتی ۔ مزاحمت کرنے والے جج لویا کو عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ رنجن گوگوئی سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروانے کے بعد کھلے عام نوازہ جاتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے پوٹن بلاوجہ آئین میں تبدیلی کی زحمت کررہے ہیں ۔ ہندوستان جیسی عظیم ترین جمہوریت میں تو بغیر کسی ترمیم کے یہ سب ہوتا رہتا ہے۔وطن عزیز میں وزیر اعظم کے اختیارات کا یہ عالم ہے کہ اب تو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سی وزارت کا قلمدان کس کے پاس ہے ۔ ساری وزارتیں عملاًوزیر اعظم دفترکے ماتحت ہو گئی ہیں ۔ مختلف وزارتوں سے مشورہ کیے بغیر وزیر اعظم اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں ۔ نہ تو نوٹ بندی کے لیے وزیر خزانہ سے مشورہ کیا جاتا ہے اورنہ کشمیر میں صدر راج نافذ کرنے کی خاطروزیر داخلہ سے پوچھاجاتا ہے۔یہاں تک کہ لاک ڈاون کا اعلان بھی متعلقہ وزارتوں سے صلاح و مشورہے سے نہیں کیا جاتا حالانکہ ایسے فیصلوں سے قبل تو حزب اختلاف کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے ۔ چین کے حملے پر بھی ایوان پارلیمان کا خصوصی اجلاس ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ مودی ،یا پوٹن، ٹرمپ اور یاہو ہر کوئی جمہوریت کے نام پر من مانی کررہا ہے۔

پوٹن کی ان آئینی ترمیمات نے روس کے ہم سایہ یوکرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اس لیے کہ اب روس پربین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں کی پابندی لازمی نہیں ر ہی ۔ یعنی وہ اپنے لیے ہر ’نقصان دہ‘ فیصلے کو آئین کا سہارے مسترد کرنے کا حقدار ہو گیاہے۔ اس طرح مستقبل میں روس کے اندر بین الاقوامی قوانینکی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔اس خطرناک صورتحال کا اندازہ اس مثال سے لگائیں کہ سن 2014 میںروسی فوج نے مشرقییوکرین کی حدود میں ملیشیائی ایئر لائن کی پرواز MH17 کو مار گرایا ۔ اس جہاز میں سوار 298 مسافر ہلاک ہوگئے ۔ اس معاملے میں عالمی عدالت کا فیصلہ قبول کرنااب ماسکو پر لازمی نہیں ہے۔ فی الحال یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت (ای سی ایچ آر) میں روس کے خلاف قانونی چارہ جوئی چل رہی ہے۔ آئین میں ترمیم کے بعد روس ’ای سی ایچ آر‘ کے کسی بھی فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گا۔ تاہم روسی شہریوں کے لیے بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا حق برقرار رہے گا۔ یعنی روسی دوسروں سزا دلانے مجاز تو ہیں لیکن خود اپنے آئین کی آڑ میں تعذیب سے محفوظ کردیئے گئے ہیں ۔ عدل و انصاف کے نازک معاملے میں بھی یہ اندھیر نگری چونکہ عوام کی مرضی سے ہورہی ہے اس لیے جمہوریت کی شریعت میں جائز و مستحب ہے ۔ الہامی معیار حق سے محرومیت، انسانوں کی اس عظیم حماقت کو بھی خوشنما بنا دیتی ہے۔

سیاسی نقطۂ نظر سے ہٹ کرروس کے منظور شدہ آئینی ترمیمات کا روشن پہلو خدا کے وجود کو تسلیم کیا جانا ہے ۔سرد جنگ کے دوران اور بعد بھی روس اور مغربی دنیا کے اندر تمام تر اختلاف کے باوجود خدا کے تصور کی بابت کمال اتفاق رائے رہا ہے۔ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار خدا کی موت کا اعلان کرتے رہے اور دوسری جانب اشتراکی دانشور خدا کا مذاق اڑاتے رہے ۔ معروف فلسفی نطشے نے کہا’’خدا مر گیا ہے۔‘‘مسولینی نے تو خدا کو دھمکی دے دی کہ اگر تو کہیں موجود ہے تو مجھے مار کر دکھا۔ امریکی صدرجان ایف کینیڈی نے یہ مضحکہ خیر اعلان کیا کہ:’’امریکہ خدا کا ایجنٹ ہے اور اس کے پاس خدا جیسی صلاحیتیں ہیں۔‘‘(نعوذ باللہ)۔ یووالنواححراری نےانسان کو خدا بنانے کی کوشش کرتے ہوئے موت پر سوالیہ نشان لگا کر جنت اور جہنم کی ضرورت کا انکار کردیا۔ اسی کے ساتھ سوویت یونین کےصدر نیکتا خروشچیف نے خلائی سفر کے بعد فرمایا’’یوری گیگرین نے خلا میں جاکر ہر طرف دیکھا مگر اسے کہیں خدا نظر نہیں آیا۔‘‘ اس سے قبل لینن کہہ چکا تھا :’’ تمہاری طرف خدا ہے جو قدامت پسند ہے ، میری طرف شیطان ہے جو بہت اچھا کمیونسٹ ہے، ‘‘جوزف اسٹالن نےیہ کہنے کی جسارت کردی تھی کہ ’’ ہم نہ اہلِ ایمان سے لڑ رہے ہیں نہ ملّاؤں سے بلکہ ہم خدا سے لڑ رہے ہیں تاکہ ہم اس سے اہلِ ایمان کو چھین سکیں۔‘‘روس کے اندرفی الحال الحاد کو کورونا لگ گیا اور اس نے وینٹی لیٹر پر دم توڑ دیا ۔
معاشرتی سطح پر دورِ جدید کی بہت بڑی گمراہی یعنی ہم جنس پرستی پر بھی استصواب کے دوران عوام کی رائے طلب کی گئی اور لوگوں نے اسے مسترد کردیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کے اندر پائے جانے والے جذبۂ خیر کوعارضی طور پر دبایا تو جاسکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جاسکتا۔ لوگوں کے اندر غیر فطری فکر و عمل کے خلاف جلد یا بہ دیر بغاوت ہوجاتی ہے۔ان ترامیم کے الفاظ قابلِ توجہ ہیں کہ مرد اور عورت کی شادی کا تعین خدا نے کیا ہے۔ اس لیے گویا خدا کی اطاعت میں اس فعل قبیح سے اجتناب کیا جائے گا۔یہ آئینی ترمیمات 70 فیصد عوام کی غالب اکثریت سے منظور ہوئی ہیں۔ روسیوں کی اکثریت آرتھوڈوکس عیسائی ہیں لیکن سرکاری طور پروہ لادین ریاست ہے۔روس کے اندر آنے والی ان تبدیلیوں میں مسلمانوں کا بھی اہم کردار ہے۔

روسی ریاست چیچنیا کے سربراہ رمضان قادروف کے مطابق 2007 کے اندر اس مسلم اکثریتی علاقےمیں اسلامی نشاة ثانیہ کی جانب پیش رفت کے لیے خوبصورت مساجد کی تعمیر کا آغاز ہوا اور 2008 میں چیچنیا کے قلب گروزنی میں جس مسجد کا افتتاح کیا گیا اس میں دس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے ۔چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کے قریب واقع شہر سہالی کی آبادی54 لاکھ ہے۔ گزشتہ سال اس شہر میں یورپ کی سب سے بڑی مسجد تعمیر کی گئی ۔ اس میں بیک وقت 30 ہزار افراد کے نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ یہ مسجد اپنے ڈیزائن کے باعث منفرد اور اپنے سائز اور خوبصورتی کے باعث عظیم الشان ہے ۔اس کی تعمیر میں سنگ مرمر کا استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کے صحن میں پھول اور فوارے لگائے گئے ہیں۔ یہاں مزید70ہزار افراد کے نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ صدر پوٹن نے آئین میں ترمیم کی مشق اپنے اقتدار کے توسیع کی خاطر کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مشیت ان سے ایک بڑاکام لے لیا۔ اب پوٹن کا انجام کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ ایسے میں حضرت داود ؑ کے ہاتھوں جالوت کے قتل پر قرآنی تبصرہ یاد آتا ہے ’’ اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا، لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل وکرم کرنے واﻻہے‘‘۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222229 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.