کشمیر، پیچیدہ مسائل اور سادہ پالیسی

کشمیر، پیچیدہ مسائل اور سادہ پالیسی

کشمیر، پیچیدہ مسائل اور سادہ پالیسی

کشمیرکے مسائل جذباتی رنگ اختیار کرتے چلے جارھےھیں پھر بھی پاکستان کی کشمیر پالیسی بھت ھی سادہ ھے جسے مشیر قومی سلامتی معید یوسف بیان کر چکے ھیں۔ پالیسی بیان کرنے سے پھلے ایک نظر کشمیر کے مسائل پہ ڈال لیتے ھیں۔ حالیہ تناظر میں بنیادی طور پر کشمیر کےتین بڑے مسائل ھیں۔
نمبر1 مسئلہ کی شروعات انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمہ سے ھوئی۔ پھلے کشمیر ایک ریاست کے طور پر سمجھا جاتا تھا جو کہ نیم خود مختار ریاست تھی جبکہ اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقے بن گئے ھیں جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ھے۔ پھلے کشمیریوں کے پاس اختیار تھا کہ انڈیا کے مرکز میں بننے والے قوانین کو چاھیں تو ریاست جموں و کشمیر پر نافذ کریں اور چاھیں تومکمل رد کردیں یا ترامیم کے ساتھ نافذ کردیں لیکن اب یہ اختیارچھن چکا ھے۔ کشمیر میں خواتین کے حوالے سے جو روایتی قوانین نافذ تھے وہ ختم ھو گئے ھیں۔ ۔ اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیراعلیٰ کی بجائے براہِ راست وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ گئے ھیں جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلا نے کا اختیار رکھتاھے۔

نمبر2 مسئلہ 35 اے کا خاتمہ ھے۔ اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا، یہاں سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا تھا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا تھا ۔ تاہم اب کسی بھی انڈین شہری کو یہ تمام حقوق حاصل ہوں گے۔ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرنے کے نتیجے میں وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ غیر مسلم آبادکاروں کی کشمیر آمد کے نتیجے میں ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو سکتا ہے۔

نمبر3 مسئلہ یہ ھے کہ نھتے کشمیریوں کے پر امن احتجاج کوانڈیا نے دھشت گردی کا نام دے کرکشمیر میں قتل عام کی روش اختیار کر رکھی ھے، ھر قسم کے رابطے منقطع ھیں، انٹرنیٹ، موبائل فون اور خط و کتابت پہ پابندی ھے، بجلی، پانی اور راشن کی سھولتیں بری طرنح متاثرھیں، ھسپتالوں میں بھارتی فوجی ھیں جبکہ بچوں اور بوڑھوں کا لحاز کئے بغیر خون کی ندیاں ھرروز بھائی جا رھی ھیں، عورتوں کی عصمت ھرروز پامال ھو رھی ھے، زندہ رہ جانے والوں کے قصے دل دھلادیتے ھیں، کسی کی آنکھیں نکال دی جاتی ھیں اور کسی کی ٹانگوں کو تن سے جدا کردیاجاتا ھے۔

یہ مسائل اتنے سنگین ھیں کہ دل خون کے آنسوروتا ھے، روزلاشیں اٹھانا، روز مائوں بھنوں کی زیادتی وہ بھی آنکھوں کی سامنے اور انسان بے بس، شاید اس سے بھتر تو تھا کہ کشمیریوں کو زندہ جلا دیا جاتا، ایک ھی دفعہ کا مرنا ھوتا نا، ھر روزتو نہ مرتے۔
پاکستان کی کشمیر پالیسی کو مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے ایک ٹاک شو میں واضح کرتے ھوئے بتایا کہ پاکستان کی پالیسی میں صرف دو باتیں ھیں کوئی تیسری بات ھم نے کبھی نھیں کی۔ نمبر1 کشمیر میں انسانی حقوق کا تحفظ ھو اور نمبر2 بین ال اقوامی قوانین کے تحت ھم ھر کسی سے بات کرنے کو تیار ھیں کیونکہ ھم امن چاھتے ھیں۔

مسئلہ کتنا پیچیدہ ھے اور پالیسی کتنی سادہ اس بات کا فیصلہ تو آپ خود کریں، مزید تکلیف دہ بات یہ ھے کہ ایک طرف بڑھتا ھوا ظلم اور دوسری طرف ھمارے دعوے کہ کشمیر فتح ھونے کو ھے اور ھندوستان کا منھ کالا ھو چکا ھے، کیا اس سے کشمیریوں کو اذیت نھیں ھوتی ھوگی؟
حکومت کی ھر تقریر میں اقوالِ زریں کی تو بھرمار ھے لیکن افعالِ زریں کا ذکر نہیں ملتا۔
 
ھمارے انتھائی قابل اور تجربہ کار وزیر خارجہ کھتے ھیں، ’مودی ذھنی مریض ھے، مودی آج کا ھٹلر ھے، مودی ھندوستان کو نقصان پھنچا رھا ھے، ھمیں یہ ھرگز قبول نھیں ھے، ھم مودی کی سوچ کو مسترد کرتے ھیں‘۔
 
شاھ محمود قریشی صاحب کی ساری باتیں درست ھیں لیکن یہ سب وجوھات ھیں جنھوں نے قیامت برپا کی۔ اب آگ لگ چکی ھے۔ اب کشمیریوں کے ساتھ یکجھتی کے جذبہ سے سرشار پاکستانی قوم یہ سب سننا نھیں چاھتی، اب وجوھات سے نکل کے حل کی بات کرنے کی ضرورت ھے۔
اب حکمت عملی چاھئے، ھندوستان کو کھلی چھٹی آخر کب تک؟ ھم کس نھج پہ جا کہ ھندوستان کو ڈیڈلائن دیںگے؟ 192 میں سے کتنے ممالک کو ساتھ ملا کے ھندوستان کا مکمل بائکاٹ کرسکتے ھیں؟ این جی اوز کو سیاست زدہ کہ کیوں نھیں جھنجھوڑ رھے ھیں؟ یہ سب سننا اور جاننا ھمارا حق ھے اور ھم یہ سب جاننا چاھتے ھیں۔

وزیرخارجہ نے فرمایا، ’ اسلام آبادمیں کشمیر ہائی وے کا نام 5 اگست سے سرینگر ہائی وے کردیاجائے گا، یہ شاہراہ ہمیں سرینگر تک لے کر جائے گی‘سری نگر کی جس جامع مسجد میں تالے پڑے ہیں اس میں ملکر نماز شکرانہ ادا کریں گے‘۔
ایسے بیانات سے بھارتی مظالم میں کمی تو کیا تردد بھی نھیں آیا۔ یہ نام کی تبدیلی کیا کسی ایک کشمیری کوبھی قتل ھونے سے بچا سکتی ھے؟ کیا واقعی اس سڑک پہ سوارھو کہ ھم معجزانہ طور پہ سرینگرکی مسجد میں نمودار ھوسکتے ھیں جھاں پہ نماز شکرانہ ادا کرنی ھے؟
وزیرخارجہ اور مشیر قومی سلامتی فرماتے ھیں، ’ 5اگست کو صبح 10 بجے ملک بھر اور آزاد کشمیر میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی، سائرن بجائے جائیں گے، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی قیادت میں یکجہتی مارچ ہوگا ‘۔
شاید اس خاموشی سے دنیا پہ سکتا طاری ھو جائے اور کشمیر آزاد ھو جائے یا شاید یہ سائرن ھندوستان کے اعوانوں میں بجائے جائیں اور تمام ھندو لیڈران کے کان ھی پھٹ جائیں، یہ بھی تو ھوسکتا ھے کہ محترم صدر مارچ کرتےھوئے کشمیر پھنچ جائیں، بھارتی فوجی ان کی رعب سے اسلحہ بارود اور توپیں چھوڑ کے بھاگ جائیں اور کشمیرپاکستان بن جائے۔

حکومت کی خود اعتمادی سے صاف ظاھر ھے کہ کشمیر کی آزادی اب سالوں یا مھینوں کی نھیں بلکہ دنوں کی بات رہ گئی ھے۔
حکومت نے یہ بھی کھا ھے، ’ 5اگست کا دن اس انداز سے منائیں گے کہ بھارت کو بھی پتہ لگ جائے گا کہ کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کھڑا ہے‘ ۔
یعنی مودی یہ سن کہ کانپ اٹھے گا کہ کشمیر کے ساتھ تو پاکستان کھڑا ھے اور یقینان وہ رات میں کابینہ کا اجلاس بلائے گا اور خوف کے عالم میں صبح کشمیر سے فوج واپس بلانے کا اعلان کردے گا۔
ویسے بھی اب پاکستان سے زیادہ باقی دنیا کی خواھش ھے کہ بھارت کو صفحئہ ھستی سے مٹادیا جائے جیسا کہ وزیر خارجہ نے فرمایا۔

’ بھارت آج عالمی سطح پر تنہا اور شائننگ انڈیا اب برننگ انڈیا میں تبدیل ہو چکا ہے‘۔
اب آپ یہ تذکرہ نہ چھیڑھ دیجئے گا کہ 192/184 ممالک نے ووٹ دے کر بھارت کو قومی سلامتی کا رکن منتخب کروادیا، بھلا عالمی سطح پر تنھا ھونے کا اس سے کیا تعلق ھے؟ ۔ جب بھارت قومی سلامتی میں منتخب ھوا تو خود پی ٹی آئی کی وزیر برائے انسانی حقوق نے احتجاج کیا جس پر وزیر خارجہ نے فرمایا کہ اگر بھارت منتخب ھوگیا تو کونسا آسمان ٹوٹ گیا ھے۔ کورونا ویکسین کے ٹھیکے بھارت کو ملنے کی بات ھو تو ھوجائے، ھمیں اس سے کیا؟ اور اگر کلبھوشن کے معاملہ میں رعایت دے رھے ھیں توبھی کونسا آسمان ٹوٹ جائےگا، ھمیں ان سب باتوں پہ بلکل دھیان نھیں دینا چاھئے۔ ھمیں صرف حکومت کے دعوں پہ دھیان دینا چاھئے کیونکہ باتوں کی حد تک کشمیر آزاد ھونے میں کچھ دن اور گھنٹے ھی باقی ھیں اور کیا پتہ یہ تحریر آپ تک پھنچے تو کشمیر آزادھوھی چکا ھو۔
فیصلہ میں ھر شخص آزاد ھے، چاھیں تو معاملات کو اسطرنح پرکھیں جیسے کہ وہ ھیں اور چاھیں تو اسطرنح دیکھیں کہ جیسے حکومت آپ کو دکھانا چاھتی ھے۔

جانے کیوں دبائی جارھی ھے کشمیر کی آواز
میں پوچھتاھوں کھاں اٹھائی جارھی ھےکشمی کی آواز

 

Sarwar Jalal Siddiqui
About the Author: Sarwar Jalal Siddiqui Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.