یوم استحصال ۔ 5اگست 2020 ۔

بھارتی غاصبانہ اقدام کے خلاف کشمیریوں سے اظہار یکجہتی بھارتی غیر آئینی ترمیم کا ایک سال (05اگست 2019ء ۔ 5اگست 2020) پاکستان کا نیا سیاسی نقشتہ جاری ، پوری سیاسی قیادت کی تائید، نئے سیاسی نقشہ میں مقبوضہ کشمیر، جوناگڑھ ، مناوادر،لداخ شامل کشمیر ہائی وے کا نام تبدیل کر کے سری نگر ہائے وئے

آج سے ایک سال قبل 5اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی آئینی ترامیم کر کے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑدئے ۔ بھارتی حکومت نے اپنی فورسیز کو کھلی چھٹی دیدی کہ وہ نہتے کشمیریوں پر جس قدر درد ناک ظلم کرسکتے ہیں کریں اور انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ کشمیر وادی میں طویل عرصہ تک کرفیو کا نفاذ کر کے کشمیری عوام کو اپنے گھروں میں محسور کردیاگیا، انہیں کھانے پینے کی سہولیات سے بھی محروم کردیا گیا ۔ اس ایک سال کے دوران بھارتی افواج نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، جس قدر بھی ظلم و زیادتی وہ کرسکتے تھے کشمیریوں پر انہوں نے کی ۔ لیکن کشمیری عظم و ہمت کی چٹان کی مانند ڈٹے رہے ، ان کے ارادوں میں بال برابرا جنبش نہیں آئی ۔ وہ اپنے مقصد کے حصول میں سیسہ پلائی چٹان کی مانند بھارتی افواج کا مقابلہ کرتے رہے، کر رہے ہیں اور آزادی کے حصول تک کرتے رہیں گے ۔

مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و زیادتی ، بذور طاقت کشمیریوں کو قابو کرنے کے لیے بھاتی حکومتیں مختلف قسم کے اقدامات کرتی چلی آئی ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت جس کی سرپرستی پاکستان مخالف سو چ رکھنے والے نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے ، انہیں طاقت کے زور پر اپنے مقصد کے حصول سے دور کرنے کی ایک نئی چال چلی ۔ یہ چال ایک سال قبل 5اگست2019ء کو بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 اور 35اے کا خاتمہ کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی وادی میں کرفیو لگا دیا گیا ۔ ایک جانب کشمیری کورونا کے باعث مشکل میں تھے دوسری جانب بھارتی حکومت نے اپنی فورسیز کو مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر ظلم و ستم کرنے کا کھلا پروانہ دے دیا ۔ دنیا نے بھارتی حکومت کی توجہ ان کے اس غیر جمہوری ، اور نا انصافی مبنی اقدام کی جانب دلائی ، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 27 ستمبر2019 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں واشگاف الفاظ میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا ، وزیر اعظم کے اس خطاب کو مدلل اورموَثر قرار دیا گیا ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں دنیا کے ممالک کے ظمیر کو جھنجوڑا، جگایا، بھارت کے غیر جمہوری اقدام اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی جانب توجہ مبذول کرائی لیکن بھارتی وزیر اعظم نے دنیا کی ایک نہ سنی اور اپنے مشن کو جاری رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیوں کا نفاذ جاری رکھا، فورسیز کے ہاتھوں بے شمار نہتے کشمیریوں کو شہید کیا ۔ بھارتی وزیر اعظم امریکی صدر کی ثالثی کی پیش کش کو بھی خاطر میں نہ لاکر دنیا کو یہ پیغام دینے کی ناکام کوشش کی کہ وہ کشمیر کے معاملے میں کسی بھی طاقت کو خاطر میں نہیں لائیں گے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کی سابقہ حکومتوں خواہ وہ کانگریس کی رہی ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انہوں نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35اے اور 370کو نہیں چھیڑا اور ان آرٹیکل کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو برقرار رکھا، البتہ مقبوضہ کشمیر میں فوج کی موجودگی، کبھی کبھار کرفیو، کشمیریوں پر ظلم و ستم بدستور جاری رہا لیکن مودی کی حکومت نے کشمیر کے حوالے ایسا اقدام کیا کہ جس کی مثال بھارت کے تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اس ایک عرصہ کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ۔ جمہوری ملک ہوتے ہوئے جمہوریت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔

طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی کشمیریوں کا جذبہ پہلے دن کی مانند تازہ اور پرُ عزم ہے ۔ بھارتی پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں سے استصواب رائے کا جو وعدہ کیا تھا ۔ بھارت مسلسل اس سے منحرف اور بھاگ رہا ہے ۔ سلامتی کونسل بھارت کو اس کے کیے ہوئے وعدہ پر عمل درآمد کرانے میں ناکام نظر آتی ہے ۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے جب کہ پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ ’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘ ۔ پڑوسی ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین کشمیر کا مسئلہ وجہ کشیدگی بنا ہوا ہے ۔ بھارت نے ہٹ دھرمی اور وعدہ خلافی کی انتہا کردی ہے ۔ وہ تو پاکستان ہی کو تسلیم نہ کرنے کے در پے ہے ۔ اس کی پاکستان دشمنی روز وشن کی عیاں ہیں ۔ 1971ء میں وہ یہ گھناوَنا کھیل بنگلہ دیش کی صورت میں کھیل چکا ہے ۔ اب بھی بلوچستان میں مکروہ کردار ادا کررہا ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے دیا تھا ۔ یہ بات ہے 1947ء کی، قائداعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دور اندیش نگاہوں نے سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی ’شہ رگ‘ قرار دیا ۔ مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی 1947ء کو سردار ابرہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قراردا د الحاقِ پاکستان منظور کی لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو مولانا فضل الہٰی وزیرآبادی کی قیادت میں 23 اگست 1947ء کو مسلم جدجہد کا باقاعدہ آغاز کیا گیا ۔ 15 ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا ۔ اگر قائد اعظم اپنے سیاسی تدبر کا اظہار اس وقت نہ کرتے تو بھارت کی شاطر نگاہیں آزاد کشمیر کو بھی مقبوضہ کشمیر کی طرح اپنی گرفت میں لے لیتیں ۔ قائداعظم کا تدبر ہی تھا کہ جس کے باعث کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ہے ۔

حق خود ارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے ۔ اپنے اس حق کے حصو ل کے لیے کشمیری طویل عرصے سے عملی جدوجہد کررہے ہیں ۔ جس کے لیے سینکڑوں کشمیری اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں ۔ پاکستان ان کے اس جائز اور اصولی موقف پر ان کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے ۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی قیام پاکستان کے بعد سے شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ جدوجہد 1931ء میں اس وقت شروع ہوچکی تھی جب پاکستان کا خواب دیکھنے والے مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے سب سے پہلے 14 اگست 1931ء کو لاہور میں یوم کشمیر منایا ۔ حامد میر کی تحقیق کے مطابق’ کشمیر کی تحریک آزادی1832ء میں پلندری اورنگ کے علاقے میں شروع ہوئی جہاں باغی مسلمانوں کی کھالیں اتار کر درختوں پر لٹکادی گئیں ۔ 1931ء میں قرآن پاک کی توہین پر کشمیر میں دوبارہ تحریک شروع ہوئی، سری نگر جیل کے سامنے 22 کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا اور علامہ اقبال نے 14 اگست 1931ء کو لاہور میں یوم کشمیر منا یا ‘ ۔ کشمیر دراصل لارڈ ماوَنت بیٹن ، جواہر لال نہرو اور شیخ عبدا;203; کی سازش اور گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بھارت کے قبضے میں گیا ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل اختلاف کی وجہ یہی مسئلہ کشمیر ہی ہے ۔ اس اہم مسئلہ پر دونوں جانب سے کشیدگی کا عمل جاری

رہتا ہے ۔ پاکستان کی اب تک بھارت سے تین جنگیں ہوچکی ہیں ۔ اقوام متحدہ اور دیگر بڑی قوتیں بھی اس مسئلہ کو حل کرانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتیں ۔ ان تمام کی خاموشی ایک سوالیا نشان ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت یکم جنوری 1949ء کو از خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا ۔ جب اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو ان کے حق خود رادیت کی قرارداد منظور کی تو مسلسل اس سے رو گردانی کرتا رہا ۔

پاکستان کی موجودہ حکومت نے 5اگست 2019ء بھارتی اقدام کے لیے ایک سال آواز اٹھائی ہر فورم پر اس مسئلہ کواجاگر گیا ۔ آخر کار اینٹ کا جواب پتھر سے دینا وقت کی ضرورت بن گیا تھا ۔ ایک سال بعد 5اگست 2020کو یوم استحصال منانے کا اعلان ہوا، ساتھ ہی پاکستان نے ایک نیا سا سی نقشہ بھی دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ اس نئے سیاسی نقشہ میں پاکستان کی پوری سیاسی قیادت کی تائیدشامل، نئے سیاسی نقشہ میں مقبوضہ کشمیر، جوناگڑھ ، مناوادر،لداخ شامل دکھائے گئے ہیں ، اس کے علاوہ کشمیر ہائی وے سے کا نام تبدیل کر کے سری نگر ہائے وئے رکھ دیا گیا ہے ۔ بھارت کے غیر آئینی، غیر سیاسی، غیر اخلاقی، ظالمانہ عمل کا جواب پاکستان نے ایک سال صبر کرکے ایسا کرارا دیا کہ بھارت کے چارو طبق روشن ہوگئے ۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا کہ’’ یہ تاریخ کا اہم ترین دن ہے ، نیا نقشہ قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے، ہم چاہتے ہیں کشمیر یوں کو جلد ان کی منزل ملے ، کشمیر کا مسئلہ دنیا کے ہر فورم پر اٹھائیں گے ۔ منزل تک پہنچنے سے پہلے اس کا تصور ذہن میں لانا لازمی ہوتاہے ۔ انہوں نے کہا یہ نقشہ پہلا قدم ہے، بھارت نے 5اگست کو جو اقدام اٹھایا ہے یہ اس کی نفی ہے ۔ انہوں کہا میں پھر واضح کردوں کہ کشمیر کا صرف ایک حل ہے، وہ حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں ہے ، جس میں کشمیر کے لوگوں کو حق ہے کہ ووٹ کے ذریدے فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی منزل تک ضرور پہنچیں گے‘‘ ۔

کشمیر کے مسئلہ کے حوالے سے حکومت کے اقدامات درست سمت میں دکھائی دے رہے ہیں ۔ مسئلہ کشمیر پر حکومت کی اتنی ہی گہری نظر ہے جتنے پاکستان کی معیشت جیسے اہم امور پر ۔ اللہ پاکستان کو کشمیر کے حوالے سے سرخ رو کرے، مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ان کا آئینی اور بنیادی حق جلد مل سکے ۔ (5اگست2020)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280371 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More