،،آپ،اس،وہ،اور، تم، جیسے الفاظ پرہماری زبانیں اورقلم
توہمیشہ تیرکی طرح چلتے ہیں لیکن بات جب ،،ہم،،پریا،ہم ،جیسے کسی دوسرے
پیارے لفظ کی تقدس اورحرمت کی آتی ہے تواس وقت پھرہماری یہی زبانیں گونگے
کی طرح بنداورقلم سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتے ہیں۔دوسروں کوایک منٹ میں
سرسے پاؤں تک ننگاکرکے دھوناتوہمارے بائیں ہاتھ کھیل لیکن معذرت کے ساتھ
بات جب ،،ہم،،پرآئے توپھراس وقت ہمیں عزت اوروقارکابرسوں سے بھولاہواسبق
اچانک یادآجاتاہے۔دوسروں کوچوراورڈاکوتوہم سب کہتے ہیں لیکن اپنے بارے میں
اس طرح کے توہین آمیزاورگھٹیاالفاظ ہمیں ذرہ بھی پسندنہیں حالانکہ پوری
دنیاکوپتہ ہے۔اس سرسبزوشاداب چمن کواجاڑنے میں ہاتھ وکردارہمارابھی کچھ کم
نہیں۔صرف حکمران چورہوتے یاصرف سیاستدان لٹیرے بنتے۔پھربھی کوئی بات نہیں
تھی لیکن یہاں توآوے کاآواہی بگڑاہواہے۔ہمار ے سمیت اس ملک میں کونساشخص
یاکونسی شخصیت ایسی ہے جولوٹ مار،چوری چکاری،بددیانتی ،کرپشن اورکمیشن کے
گناہ سے پاک ہو۔اورتواور۔ہمارے وہ چھوٹے چھوٹے بچے جن پرشرعی اورقانونی
حدوں کااطلاق بھی ابھی نہیں ہوتا۔کمیشن کے چکروں،فکراورخیالوں سے تووہ بھی
آزادنہیں۔کسی نے ٹھیک کہا۔جیساکروگے ویسابھروگے۔حقیقت میں ہم جوکچھ کررہے
ہیں ۔آخرت تودور۔اس دنیامیں ہی اس کوبھررہے ہیں۔ہم چورنہ ہوتے۔ہم ڈاکونہ
ہوتے۔توکیا۔؟ہماراچوروں اورڈاکوؤں سے اس طرح روزروزواسطہ اورناطہ پڑتا۔مرض
بڑھتاگیاجوں جوں دواء کی۔افسوس کاپہلوتویہ ہے کہ مرض توبڑھتاگیاپر ہم نے
اپناعلاج بھی تونہیں کرایا۔کاش ہم لوٹ مار،چوری ،ڈاکہ،راہزنی ،بددیانتی
،غیبت ،جھوٹ،فریب،دھوکہ ،بغض ،حسد،کرپشن اورکمیشن کوایک باربھی کروناکادرجہ
دے دیتے توآج ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔لوٹ مار،چوری ،ڈاکہ،راہزنی سمیت ان
دیگرجن بیماریوں اوروباؤں میں ہم مبتلاہیں ۔درحقیقت یہ ساری
کروناکیا۔؟کروناکے باپ اورداداسے بھی زیادہ حدسے بھی زیادہ خطرناک ہیں
مگرہمیں اس کاعلم اوراندازہ نہیں۔کروناکی بیماری سے زیادہ سے زیادہ ایک جان
جاتی ہے لیکن ہمیں لگی ان بیماریوں سے جان اوراس جہان کے ساتھ آخرت بھی
ہاتھ سے جانے کاسوفیصدخطرہ ہے۔ حکمرانوں ،سیاستدانوں اوربیوروکریٹ
کوچورچوراورڈاکوڈاکوکہہ کرگالیاں توہم روزدیتے ہیں لیکن اپنے اندرچھپے
چوروں اورڈاکوؤں کی ہم نے کبھی ایک باربھی کوئی خیرخبرنہیں لی۔ماناکہ
حکمرانوں اورسیاستدانوں جتنے بڑے چوراورڈاکوتوہم نہیں لیکن یہ بھی ایک
حقیقت کہ اپنے سائے اورقدسے بڑے چوراورڈاکوہم سب ضرورہیں۔سچ تویہ ہے کہ
یہاں جس کاجتناوس اوربس چلتاہے ۔وہ اتناہی ہاتھ مارتاہے۔یہ اقتداراورقومی
خزانے کی رکھوالی اگرہمیں مل جائے توآپ یقین مانے لوٹ ماراورچوری چکاری میں
ہم ان حکمرانوں اورسیاستدانوں کوبھی پیچھے چھوڑدیں گے۔کوئی بے شک اپنے آپ
کوحاجی صاحب کہے۔کوئی عابد،متقی اوربڑاپرہیزگار۔سچ بس یہی ہے کہ معاف کرنے
والے ہم بھی نہیں۔لوگ ماتھے پرمحراب بناتے ہیں آخرت سنوارنے کے لئے اورہم
ماتھے رگڑتے ہیں لوگوں کولوٹنے اوردنیاکمانے کے لئے۔جہاں نیچے سے اوپرتک
سسٹم ہی ڈنگ مارنے کاہو۔وہاں پھرنہ کوئی ولی ہوتاہے اورنہ ہی کوئی والی۔سب
اردلی بن کرکاٹنے اورچاٹنے کے چکرمیں لگے رہتے ہیں۔جہاں آستینوں میں بھی
سانپ اورقدم قدم پرراہزن بیٹھے ہوں وہاں پھرکسی سے گلہ،شکوہ اورشکایت
کیا۔۔؟چنددن پہلے ایک دوست ملے۔کہنے لگے جوزوی صاحب ہم سمجھتے تھے صرف
اوپرچوراورڈاکوبیٹھے ہیں لیکن یہاں توآوے کاآواہی بگڑاہواہے۔اوپرکیا۔؟یہاں
تونیچے بھی چوروں اورڈاکوؤں کے استادنت نئے ریکارڈبنانے میں لگے ہوئے
ہیں۔پھرانہوں نے اپنے ساتھ ہونے والاایک واقعہ بیان کیا۔کہنے لگے کچھ دن
پہلے گھرکے تزئین وآرائش کے لئے رنگ وروغن کاکام لگاہواتھا۔کام کرنے والے
پینٹرزکوپینٹبنانے کے لئے ترپین کی ضرورت تھی۔ترپین ڈھونڈنے سے بھی نہ ملنے
پرایک جگہ سے مٹی کاتیل لینے کافیصلہ کیا۔تیل لینے کے لئے جب ورکشاپ یادکان
پرپہنچاتودکان والے نے کہاکہ شاپرمیں تیل لے جانارسک ہوگا۔قریب کباڑکی دکان
ہے آپ وہاں سے چارپانچ لیٹرکی کوئی بوتل لیکرآئیں ۔اس میں لے جانا۔کہتے ہیں
میں کباڑیئے کے پاس گیا۔بوتل کاپوچھا۔پانی کی وہ بوتل جوکباڑیئے گلی ،محلوں
اورگھروں سے بچوں کودوتین روپے دے کرلیتے ہیں ۔اس کاشکرانہ اس کباڑیئے نے
ڈیڑھ سوروپے بتایا۔میں نے کہا۔میں نے اس میں بس ایک تیل ہی لیکرجاناہے،اس
کے بعدپھینک دیناہے۔ کوئی بیکاراورسستی بوتل ہوتووہ دیں۔کباڑیئے نے آگے سے
کہا۔آپ اس میں تیل لیکرجائیں یاشہد۔؟وہ آپ کی مرضی۔میرے پاس یہی بوتل ہے
اورکوئی نہیں ۔کہتے ہیں خیرمیں کباڑیئے کواس بوتل کے سوروپے دیکروہاں سے
تیل والی دکان پرپہنچا۔دکاندارنے بوتل کودیکھتے ہوئے پوچھا۔کتنے کادیا۔؟میں
نے کہاسوروپے کا۔؟اس نے اف توبہ کہتے ہوئے کانوں کوہاتھ لگائے۔کتناظلم ہے
اس ملک میں۔یہ کہہ کراس نے کہامیرے پاس بوتل ہے میں اس میں تیل دے کرآپ
کودے دیتاہوں ۔آپ جاتے ہوئے یہ کباڑیئے والی بوتل اس کوواپس کردیں ۔کہتے
ہیں پانچ لیٹرتیل کے پیسے دیکرمیں وہاں سے نکلا۔راستے میں کباڑیئے کوبوتل
واپس دیکرسوروپے بھی لے لئے۔ابھی میں گھرکے قریب پہنچاہی تھاکہ میری
نظراچانک بوتل پرپڑی جس پر3لیٹرکالیبل لگاہواتھا۔تین لیٹروالی بوتل میں اس
دکان والے نے مجھے پانچ لیٹرتیل کس طرح دیا۔۔؟میں کبھی بوتل
کودیکھتااورکبھی دکان والے کی اس کرامت پرسوچتا۔کباڑیئے نے توسوروپے
کاچونالگایاتھامگراحسان تونہیں جتلایاتھا۔اس دکان والے نے تو احسان
جتلاکربھی ڈھائی سوروپے کاٹیکہ لگایا۔جوزوی صاحب ۔اب آپ خودسوچیں ۔جہاں اس
طرح قدم قدم پرچوراورڈاکوبیٹھے ہوں وہاں پھراﷲ کی رحمت اوربرکت کیسے آئے
گی۔۔؟آج لوگ حکمرانوں اورسیاستدانوں کوچوراورڈاکوکہہ کرگالیاں تودیتے ہیں
لیکن اپنے یہ سیاہ کرتوت،چوری اورچکاریاں کسی کونظرنہیں آتیں۔ہرشخص اپنی
جگہ اپنے آپ کوبڑاایماندار،دیانت داراورفرشتہ سمجھتاہے لیکن اندرسے چندایک
کے علاوہ کوئی ایک دوسرے سے مختلف نہیں۔سچ پوچھیں تواس ملک میں صرف حکمران
اورسیاستدان چوراورڈاکونہیں۔یہاں ہرشخص ایمانداری اوردیانت داری کے کپڑے
پہن کر چوراورڈاکوبناپھرتاہے۔جس کے جتنے بڑے ہاتھ،جتنااختیار۔جتنی طاقت
اورہمت ہے۔وہ اس قدرہی چوراوربے ایمان ہے۔اگرکسی کے ماتھے پرلکھاہوتاکہ یہ
چوراورڈاکوہے۔توآپ یقین جانیئے ۔یہاں صرف حکمرانوں اورسیاستدانوں کے نہیں
بلکہ بائیس کروڑمیں سے بیس کروڑان غریبوں کے ماتھے بھی آپ کوڈھونڈنے سے
کبھی نہ ملتے۔یہ سارے اپنے دکانوں،ہوٹلوں،شاپنگ سنٹرز،ملک شاپ،ورکشاپس
،ہاسپیٹلز،سکولزاورشورومزکی طرح آپریشن کے ذریعے اپنے ماتھوں پربھی
مکہ،مدینہ،حاجی،عابد،متقی اورنمازی کے بورڈلگادیتے۔ جہاں ایسے
نمازیوں۔ایمانداروں اورامانت داروں کی بہتات ہو۔وہاں کے لوگوں کوپھرحکمران
بھی ایسے ہی نمازی ،ایمانداراورامانت دارملتے ہیں۔حکمرانوں اورسیاستدانوں
کوچورچورکہنے سے پہلے ہمارے جیسے ایمانداروں کوکم ازکم ایک باراپنے گریبان
میں بھی ضرور جھانکناچاہیئے ۔کہیں اس ملک اورقوم کولوٹنے والے اصل
چوراورڈاکوہم خودتونہیں۔۔؟
|