شہید مظلوم مدینہ، جامع القرآن، امیر المومنین سید نا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ

شہادت عثمان ہی اصل میں حیات اسلام ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ایثار واستقامت عثمانؓ سے
امیرا لمومنین امام المتقین سفیر بیعت الرضوان جامع وناشر قرآن شہید درحال تلاوۃ فرقان ثانی ودوگونہ داماد سید الکونین زوج دوہمشیرگان فاطمہ وخالوئے حسنین خلیفہ ثالت وراشد عادل وبرحق سیدنا ومولانا ابوعامر ابو عبداﷲ عثمان ابن عفان قریشی اموی ہاشمی سلام اﷲ رضوانہ علیہ کا نام لیں تو آنکھوں کے سامنے ایک نہایت ہی کریم النفس شخصیت کا تصور ابھرآتا ہے اگرچہ آپ تجارت کی وجہ سے قریش میں سب سے زیادہ مالدار تھے لیکن مالداروں کی کمزوریاں ،تکبر ،غرور ،نجوت ، خود پسندی ، جبرو استحصال کے پاس بھی نہیں پھٹکی تھیں ۔وہ بہت ہی منکسر المزاج متواضع اور خوش اخلاق تھے سختی اور گستاخی سے پیش آنے والوں کے ساتھ بھی نرمی کا سلوک روا رکھتے تھے عفو ودرگزر ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے ۔ اپنی ذات کیلئے بدلہ لینے کا خیال اور انتقام کا جذبہ ان میں بالکل نہ تھا ۔امام مظلوم سیدنا عثمانؓ صحیح معنوں میں غنی تھے مال سے محبت کبھی نہ کی تھی بلکہ نہایت فیاضی اور دریا دلی سے اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے رہے ۔اعزہ اور رشتہ داروں سے بڑی فیاضی کا برتاؤ کرتے اپنے ذاتی خرچ کیلئے بیت المال سے کبھی ایک پیسہ بھی نہ لیا جو کچھ خیرات کرتے اپنی جیب سے کرتے ۔امام مظلوم سیدنا عثمانؓ حلم اور اخلاق کے پتلے تھے ۔نہایت متحمل مزاج تھے ۔ انتہائی سخت موقعوں پر بھی اشتعال میں نہ آتے اور نہ ہی کسی غیض وغضب کا اظہار کرتے ،صبر واستقامت کا مادہ قدرت نے انہیں بیحد وحساب ودیعت کیا تھا مصائب پر بڑی استقامت کے ساتھ صبر کرتے اور ہر مصیبت کو بڑی خوشی کے ساتھ جھیلتے ، خونریزی اور کشت وخون کو سخت ناپسند کرتے ۔انتہا یہ ہے کہ خود شہید ہوگئے مگر یہ گوارانہ کیا کہ اپنی ذات کیلئے تلوار میان سے نکالی جائے ۔ سید المرسلین ہادی عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی ۔ سنت نبوی کی سختی سے پیری کرتے اور ہر موقع پر فرمایا کرتے کہ میں نے رحمت دوعالمﷺ کو اس طرح کرتے دیکھا ہے تا وجودیکہ آپ کو سیدالکونین صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دنیا میں بہشت کی خوشخبری سنادی تھی ، مگر ہمیشہ خدا کے خوف سے لرزاں اور ترساں رہتے تھے ۔ (دس بڑے مسلمان ص 107)ایسی نیک عظیم وسیع القلب ،عالی دماغ ،سخی اور کریم النفس شخصیت کی لرزہ خیز ظلم وتشدد کے ساتھ شہادت کسی بھی انسان کیلئے باعث صد حیف وحیرت ہوتی ہے مگر جب تاریخ کے اوراق تعصب کے پروں کو چاک کرکے آشکارا کریں کہ یہ ایثار عظیم اسلام اور ملت اسلامیہ کے اتحاد واستحکام اور بقار دوام کیلئے سوچ سمجھ کر پیش کیا گیا تو ساری ملت کا دل حیف وحیرت کی بجائے تشکر واحسان مندی کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے ۔آپؓ کے دشمنان دین وملت کے تشدد لا قانونیت کا مقابلہ دلائل وبراہین اور صبر استقامت کے ساتھ کیا ۔ امیر المومنین سیدنا عثمان غنیؓ نے دین وملت کے مفاد وبقا کیلئے جو مدبرانہ اور بلند موقف اختیار کیا اس سے آخری دم تک ذرہ برابر بھی ادھر ادھر نہ ہوئے نہ دشمنان دین وملت کی سازش کے مطابق نہ غم خواران دین ملت کی خواہش کے موافق تاریخ نے ثابت کردیا کہ عثمانی موقف ہی برحق تھا ۔ اور دین ملت کی سلامتی عثمانی موقف ہی میں مضمر تھی ۔شہادت مراد نبی داماد علی المرتضیٰ سیدنا عمر فاروقؓ کے واقعہ سے ملت کی نگاہیں دشمنوں کی خطرناک خفیہ سازشوں کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتی تھیں ۔اس سازش کے مقابلہ کرنے میں سیدنا عثمان غنیؓ نے جو موقف اختیار کیا اس سے سازشی پارٹی اور اس کی دین وملت سے دشمنی مسلمانوں پر روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی اور مسلمانوں نے فتنہ عظیم سے خبردار ہوکر اپنے دین اور اپنی ملت کو ان سے محفوظ کرلینے کیلئے موثر اقدامات کرلیے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عین ممکن تھا کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی عظمت اپنی زندگی کے پچیس سال بعد ہی صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ۔ قرآن حکیم کیئے ایک ہی قرات اور تلفظ کی ترویج کرنا اور دشمنان دین وملت کے تشدد ولاقانونیت کا مقابلہ دلائل وبراہین اور علم وبردباری کے موقف پر پہاڑ کی طرح قائم رہ کر جان دے دینا ۔دین وملت کے اتحاد واستحکام کیلئے سیدنا عثمان غنیؓ کے دو ایسے عظیم کارنامے ہیں کہ تاریخ عالم جن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے امام مظلوم حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت کا جانکاہ واقعہ 18ذوالحجہ 25ہجری کو پیش آیا جس عابدوزاہد عثمانؓ نے مسلمانوں کے نماز پڑھنے کیلئے مساجد تعمیر کروائیں دشمن دین سبائیوں نے مسجد میں نماز ادا کرنے سے روک دیا ۔ رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیارے داماد سیدنا عثمان ذوالنورین پر جسے پیارے نبی ﷺ سے دوہری دامادی کا شرف حاصل تھا فتنہ پردازوں نے مسجد نبی ہی میں اپنے پتھر برسائے کہ وہ بے ہوش ہوکر منبر نبویﷺ سے نیچے گر پڑے ۔جس عاشق قرآن نے قرآن کریم ایک قرات اور تلفظ کے ساتھ خلافت اسلامیہ کے ہر ہر حصہ میں پہنچانے کا انتظام کیا تاکہ کوئی مسلمان بھی تلاوت قرآن کریم کی سعادت سے محروم نہ رہے ۔ سبائیوں نے خود انہی کو تلاوت سے جبراًروک دیا نہ صرف یہ بلکہ قرآن حکیم کے نام پر فساد مچانے والے ان دشمن قرآن باغیوں نے قرآن حکیم کو ٹھوکر مار کر گرادیا ۔ (طبری جلد5ص139) جس عاشق قرآن محسن ملت حضرت سیدناعثمان نے مسلمانوں کی مجبوری کے دور میں اپنے مال سے میٹھے پانی کے کنویں خرید کر ان کیلئے وقف کردیئے سفاک سبائیوں نے ایسے خیر خواہ انسانیت پر بھی پانی بند کردیا ۔وہ سخی وغنی عثمانؓ جو مسلمانوں پر قحط کی سختیوں کو نہ دیکھ سکتا تھا اور ایک ہی دن میں ہزاروں من غلہ مدینے کی گلیوں میں اﷲ کی راہ میں لٹا دیا تھا ۔ سیاہ کاروسیاہ دل سبائیوں نے ان ہی تک اسی مدینہ میں غلے کا ایک دانہ بھی پہنچنا ناممکن کردیا ۔

امیرالمومنین خلیفۃ المسلمین فاتح عظیم سیدنا عثمان ذی النورینؓ جن کی سلطنت کی حدود کا ایک سرا ایشیاء میں کابل تھا اور دوسرا افریقہ مراکش میں اور یورپ میں سپین تھا ۔انہیں خلافت دشمن سبائیوں نے گھر کی ایک کوٹھڑی میں محصور کردیا ۔صرف افواہ پر ہی جس عثمانؓ کے خون کا قصاص لینے کیلئے رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم نے کل صحابہؓ سے جانیں قربان کردینے کا عہد لیا اور اصحاب رسول کے اس عہد پر خود حق تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے قبولیت اور خوشنودی کا اعلان فرمایا ۔اﷲ کریم اور رحمت دوعالمﷺ اور خلافت اسلامیہ کے ان باغی سبائیوں نے اسی بیعت رضوان والے روزہ دار عثمان غنیؓ کو قرآن خوانی کی حالت میں انتہائی درندگی سے روز روشن میں شہید کردیا ۔ سیدنا عثمانؓ بے گناہ اور مظلوم شہید ہوئے ان کے قاتل ناانصاف اور ظالم تھے جنہوں نے ان کی رفاقت نہ کی وہ ان کے حکم کی وجہ سے معذور مجبور تھے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں حضرت امام کو صرف اوباش قبائل اور اہل فتن کی ایک پارٹی نے قتل کیا ۔امام مظلوم خلیفۃ المسلمین کے خون کے قطرے کتاب حق کی اس آیت پر گرے ۔

فسیکفیکھم اﷲ وھوالسمیع العلیماﷲ کریم ان سے تیرا بدلہ لے گا وہ بڑا سننے والا باخبر ہے ۔سرور کونین کے داماد عزیز اورخلیفہ برحق اتحاد واستحکام اسلامی کے پرچم بردار ملت اسلامیہ کے امیر المومنین دنیائے اسلام کے شفیق ورحم دل حاکم کی لاش تین دن تک بے گوروکفن پڑی رہی کیونکہ سبائیوں نے انہیں دفنانے کی اجازت نہ دی ۔ آخر تیسرے روز صبروایثار اور حلم وبردباری کے اس بنظیرمجسمے کو چند مسلمانوں نے خون آلود کپڑوں میں رات کے اندھیرے میں خفیہ طور پر سپرد خاک کردیا ۔یہ انسانیت سوزرویہ سبائیوں نے اس محسن ملت کی لاش سے روارکھا جو دشمنوں سے مقابلے کے وقت مسلمانوں کے بے سروسامان لشکروں کو اسلحہ ،گھوڑے ،اونٹ سامان اور ہر قسم کے ہتھیار اپنی جیب سے مہیا کرتے تھے ،تاریخ گوا ہ ہے کہ امیر المومنین نہ بے بس تھے اور نہ بے اختیار انہوں نے عقائد باطلہ اور تشدد اور سازش کا مقابلہ دلیل روشن سے کیا اور باوجود قوت وقدرت رکھنے اختیار واقتدار حاصل ہونے کے انہوں نے تشدد لاقانونیت کا مقابلہ جبروتشدد سے کرنے سے انکار کردیا اور کہا تو صرف یہ کہا کسی سے کوئی تعرض نہ کیا جائے یہاں تک کہ اﷲ کی مشیت پوری ہو میں سرتاج الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جس کے ہاتھوں آپ کی امت میں خونریزی کا آغاز ہو ۔حضرت سیدنا عثمان غنیؓ نے توحید خالص کے بے میل عقیدے اور فقہ اسلامی کی عصمت خلافت اسلامیہ کے جمہوری اصول اور جمہوری مسلمانوں کے حق حکمرانی کی خاطر اسلام اور ملت اسلامیہ کی یک جہتی اور یگانگت کی خاطر بے مثل ضبط وتحمل ،عظیم صبر استقامت اور لاثانی جذبہ ایثار کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپردکردی ۔ سبائیوں کو اپنے مذموم عزائم کی کامیابی کیلئے افواہ سازی اختراء پردازی انتشار وتحریک پسندی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی سازش اور تشدد پہ بھروسہ تھا لیکن حضرت سیدنا عثمانؓ کو اﷲ کریم اور ہادی دوعالمﷺ اور جمہور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں مردانہ وار قربان ہوجانے پر ناز تھا ۔ سبائی ان کے درپے آزاد ہوئے لیکن انہوں نے عظیم جرأت ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق سے منہ موڑنے سے انکار کردیا حتیٰ کہ اپنی گردن کٹوادی لیکن پرچم حق کو سرنگوں نہیں ہونے دیا ۔ حق کیلئے جدوجہد کرنے والوں کیلئے سیدنا عثمانؓ کا کردار ہمیشہ مشعل راہ رہے گا ۔ ان کی بے مثل استقامت اور جرأت مندانہ قربانی نے دنیائے اسلام کو ایک نیا جذبہ اور نیا ولولہ بخشا ہے ۔

کتاب حق کا وہ نسخہ عثمان غنیؓ کے خون مقدس کے ساتھ آج بھی موجود ہے ۔قاتلان عثمانؓ کے مقدر شدہ انجام کی نشاندہی کررہا ہے سبائیوں کو زبردست دھچکا لگا وہ ملت اسلامیہ کے خلاف سبائیوں کی کھلی دشمنی اور خفیہ سازش کے باوجود حکومت عرب سے نکل کر عجم میں نہ جاسکی بلکہ صدیوں تک اولین داعیان اسلام یعنی عرب مسلمانوں میں رہی پہلی پوری صدی یہ عظیم ذمہ داری بنو امیہ کے مضبوط کندھوں پر رہی جنہوں نے خالص توحیداور بے مثل اسلام کی عظمت کے جھنڈے ایشیاء افریقہ اور یورپ کے براعظموں میں گاڑ دیئے ۔خلیفہ بنو امیہ کے دورخلافت میں سلطنت اسلامیہ اپنی برکتوں ،فضیلتوں اور رحمتوں کے ساتھ یورپ میں بحرالکاہل سے لے کر بحر ہند میں سندھ تک اور سپین سے لے کر دریائے نیل کے آبشارون تک پھیل گئی اس طرح وہ فرمان الٰہی پورا ہوگیا کہ جنہوں نے بیعت رضوان کا عہد پورا کیا تو ان کو اجر عظیم دیا جائے گا (الفتح) یہ نتیجہ تھا امام مظلوم سیدنا عثمان غنیؓ کے مدبرانہ موقف اور عظیم قربانی کا یہ اعجاز تھا خون عثمان کی آبیاری کا تاریخ اسلام کا ایک ایک دور پکار کر کہہ رہا ہے ۔
شہادت عثمان ہی اصل میں حیات اسلام ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ایثار واستقامت عثمانؓ سے

حضرت نافعؓ سے مروی ہے کہ ایک بلوائی نے شہادت کے وقت امام مظلوم حضرت سیدنا عثمان ؓ کا عصا لے کر اس کو اپنے گھٹنے سے توڑ ڈالا تھا اس کی پوری ٹانگ گل گئی ۔یزید بن حبیب سے مروی ہے کہ جو لوگ حضرت عثمانؓ پر چڑھائی کرکے گئے تھے ان میں سے اکثر پاگل ہوکر مرے تھے ،واقف اسرار نبویﷺ حضرت حذیفہؓ ابن یمانؓ کے متعلق روایا ت میں آتا ہے کہ جب بلوائی حضرت عثمانؓ کے گھر کی طرف چلے تو لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ بلوائی حضرت عثمانؓ کے گھر کی طرف گئے ہیں آپ کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا بخدا یہ لوگ ان کو شہید کردیں گے لوگوں نے پوچھا شہید ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا بخدا عثمانؓ جنت میں جائیں گے اور ان کے قاتلین کیلئے خدا کی قسم دوزخ ہے جس سے کسی طور پر ان کو چھٹکارہ نہیں ملے گا۔

روایات میں آتا ہے کہ حضرت حسنؓ جن کو بلوائیوں نے زخمی کردیا تھا جب وہ امام مظلوم سیدنا عثمانؓ کو محاصرے کی حالت میں پانی پہنچانا چاہتے تھے ، حضرت علی المرتضےٰؓ کے دور خلافت میں خطبہ بیان کرنے کیلئے کھڑے ہوئے ۔اس خطبے میں انہوں نے اپنا ایک خواب بیان کیا اس خواب سے معلوم ہوگا کہ اس عالم اسباب میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی ایک ظاہری شکل ہوتی ہے اور ایک باطنی حقیقت ہوتی ہے ۔حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ لوگو میں نے کل رات ایک عجیب وغریب خواب دیکھا ہے میں دیکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کی عدالت لگی ہوئی ہے ۔پروردگار کائنات اپنے عرش پرمتمکن ہے ۔ ہادی عالم سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں ۔اور عرش کا ایک پایہ پکڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں پھر امام الصحابہؓ خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیقؓ آتے ہیں اور رحمت دوعالمﷺ کے شانہ مبارک پر اپنا ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں پھر مراد رسولﷺ حضرت عمر فاروقؓ آتے ہیں اور وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں پھر اچانک حضرت عثمان غنیؓ اس حال میں اس عدالت میں آتے ہیں کہ ان کا کٹا ہوا سر ان کے ہاتھوں میں رکھا ہوا ہوتا ہے ۔اور وہ اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں فریادکناں ہوتے ہیں کہ اے پروردگار!اپنے بندوں سے جو تیرے آخری نبی ﷺ کے نام لیوا ہیں اور جو خود کو مسلمان کہتے ہیں ان سے پوچھا تو جائے کہ مجھے کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا شہید کیا گیا ، میراآخر کیا گناہ تھا کون سا جرم تھا جس کے بدلے میں میرا سر کاٹا گیا اس کے بعد حضرت حسنؓ بیان کرتے ہیں کہ امام مظلوم سیدنا عثمانؓ کی اس فریاد پر میں نے دیکھا کہ عرش الٰہی تھرایا اور آسمان سے خون کے دو پرنالے جاری کردیئے گئے جو زمین پر خون برسانے لگے حضرت حسنؓ کے اس بیان کے بعد لوگوں نے قاضی امت حضرت سیدنا علیؓ سے جو اس خطبہ کے وقت موجود تھے شکایتاً کہا کہ آپ نے سنا حسنؓ کیابیان کر رہے ہیں چونکہ یہ خواب تو حضرت عثمانؓ کی مظلومیت پر مہر تصدیق ثبت کررہا تھا ۔قاتلان عثمانؓ کیسے گوارا کرتے ۔ قاضی امت فقیہہ الصحابہؓ خلیفہ رابع امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے جواب میں کہا کہ حسنؓ وہی بیان کررہے ہیں جو انہوں نے دیکھا ہے یہ خون کے دو پرنالے درحقیقت جنگ جمل اور جنگ صفین تھے یہ قتل عثمانؓ پر اﷲ کے غضب کی نشانیاں تھیں ۔ اﷲ کریم کی کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں شہید مظلوم سیدنا عثمان ذی النورینؓ پر ۔

 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 158681 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.