کیپٹن راجہ محمد سرور شہید ( نشان حیدر)کا 72واں یوم شہادت

درحقیقت قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس کے خلاف سازشوں کا جال بنا جانے لگا ۔بھارتی حکمران وادی کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔چونکہ وادی کشمیر میں مسلمان زیادہ تعداد میں آباد تھے ۔اس لیے انہوں نے ڈوگرہ فوج اور بھارتی فوج کی بیک وقت مزاحمت کی لیکن نہتے مسلمان ، تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کا سامنا زیادہ دیر نہ کرسکے ۔بگڑتے ہوئے حالات کو دیکھ کر حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ اگر اب بھی کشمیری مسلمانوں کی مدد نہ کی گئی تو پھر نہ صرف پوری وادی پر بھارتی فوج قابض ہو جائے گی بلکہ پاکستان کی سا لمیت بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خطرے میں پڑجائے گی ، اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو سکے بھارتی فوج کو روکا جائے اور اہم پہاڑی چوٹیاں جن پر بھارتی فوج قابض ہو چکی تھی ان کو واپس لیا جائے ۔بھارتی فوج کی پیش قدمی سے جہاں کشمیری مسلمان پریشان تھے، وہاں کیپٹن راجہ محمد سرور بھی تشویش میں مبتلا تھے ۔وہ کسی بھی قیمت پر ان پہاڑی چوٹیوں پر دوبارہ قبضہ کرکے آزاد اور مقبوضہ علاقے کے درمیان ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کھڑی کردینا چاہتے تھے۔ان دنوں کیپٹن راجہ محمد سرور جی ایچ کیو میں سگنل کورس کی تربیت حاصل کررہے تھے ۔انہی دنوں 2 پنجاب رجمنٹ کو بھارتی فوج کی پیش قدمی روکنے کے احکامات ملے ۔کورس مکمل ہوتے ہی آپ اپنی یونٹ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوگئے ۔محاذ جنگ پر آپ کو سگنل آفیسر مقرر کیا گیا۔اس وقت سب سے اہم مقام اوڑی کی پہاڑی تھا ۔فوجی نقطہ نظر سے اس پہاڑی پر قبضہ اشد ضروری تھا۔بظاہر یہ ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔دشمن نے اس علاقے میں مشین گنیں ہی نہیں توپیں بھی خاصی تعداد میں نصب کررکھی تھیں ۔اسی اثناء میں کمانڈنگ آفیسر نے حکم دیا جو آفیسر یہ سمجھتا ہے کہ وہ دشمن کی توپوں کوخاموش کرا سکتا ہے وہ کمپنی کی کمان سنبھال لے ۔یہ سن کر کیپٹن راجہ محمد سرورکے دل میں شوق شہادت نے انگڑائی لی اور کمانڈنگ آفیسر کو سیلوٹ کرکے کہا سر میں یہ خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہوں ۔

کیپٹن راجہ محمد سرور کی یہ درخواست قبول کرلی گئی ۔پروگرام کے مطابق 27 جولائی 1948ء کی صبح ساڑھے تین بجے راجہ محمد سرور کی کمپنی کو اوڑی پہاڑی پر حملہ آور ہونا تھا۔ماہ رمضان کا مہینہ تھا ۔سحری کھا کر کیپٹن سرور اور ان کے ساتھیوں نے روزہ رکھا اور اپنی کمپنی کے ہمراہ دشمن پر یلغار کردی ۔پاک فوج کا ہراول دستہ پیش قدمی کرتا ہوا دشمن کے دفاعی حصار سے تقریبا پچاس گز کے فاصلے پر پہنچاتھا، لیکن اس مقام پر دستی بموں اور مشین گنوں کی گولیوں کی بوچھاڑ نے ان کا راستہ روک لیا۔وقتی طورپر پیش قدمی رک گئی ۔دشمن ہوشیار ہوچکا تھا ۔موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کیپٹن سرور نے ریزرو دستے کو آگے بڑھایا ۔دشمن سے فاصلہ پھر گھٹنے لگا کیپٹن سرور خود پہلو کے فوجی دستے کو مدد دینے کے لیے اس کے ساتھ جا ملے اور پیش قدمی جاری رکھی ۔جب دشمن اور ان کے درمیان فاصلہ 20گز رہ گیا تو پتہ چلا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ بنا رکھا ہے۔یہ باڑ گزشتہ رات موجود نہ تھی۔ چنانچہ کیپٹن سرور نے پریشان ہونے کی بجائے دوسرے گنر کو آگے بڑھایا ۔ان کے پاس خار دار تاریں کاٹنے کے لیے سوائے ریتی کے اور کچھ موجو د نہیں تھا۔پھر یہ مسئلہ بھی درپیش تھا کہ تاریں کاٹنے کے لیے سیدھا کھڑا ہونا بھی ضروری تھا۔وہ چاہتے تو کسی اور سپاہی کو تاریں کاٹنے کا حکم دے سکتے تھے مگر وہ اس اہم اور مشکل ترین کام کو انجام دینے کے لیے خود آگے بڑھے۔چند قدم ہی آگے بڑھے ہونگے کہ دشمن کی فائرنگ کی زد میں آکر آپ کا ایک ساتھی فرحان علی شہید ہوگیا ۔اب کیپٹن سرورمشین گن سے فائرنگ کرتے ہوئے خود آگے بڑھ رہے تھے۔دونوں جانب سے گولیاں برس رہی تھیں ۔اسی اثناء میں ایک گولی کیپٹن سرور کے کندھے میں پیوست ہوگئی ۔انہیں یہ محسوس ہوا جیسے کسی نے ان کے جسم میں انگارے بھر دیئے ہوں ۔ تکلیف کے ساتھ ساتھ زخم سے مسلسل خون بہنے لگالیکن ان کے آگے بڑھتے ہوئے قدم نہ رکے وہ جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ ایک اور گولی ان کے جسم میں اتر گئی ۔منزل تھوڑی دور تھی لیکن خون زیادہ بہنے کی وجہ سے آگے بڑھنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔کیپٹن سرور کی آواز فضا میں گونجی ۔دوستوآگے بڑھومنزل قریب ہے ۔کیپٹن سرورنے اپنی باقی ماندہ قوت کو مجتمع کیا اورتاروں تک پہنچ گئے ۔ان کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ریتی راستے میں بچھی ہوئی تاروں کو کاٹنے لگی۔اس لمحے وہ پورے قد سے سیدھے کھڑے تھے ۔گولیوں کی ایک بوچھاڑ ان کی طرف آئی لیکن وہ بچ گئے ۔دشمن نے انہیں دیکھ لیا تھا۔جونہی راستے میں حائل تاریں کٹیں تو دشمن کی ایک اور گولی ان کے سینے میں اتر گئی ۔ان کی سانسیں اکھڑنے لگیں ۔جس لمحے کیپٹن راجہ محمد سرور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ، اگلے ہی لمحے پاک فوج کا اوڑی پہاڑی پر قبضہ ہوچکا تھا اور دشمن کوکئی میل دھکیل کر جنگی اہمیت کی پہاڑی پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہاتھا۔کیپٹن سرور شہید کو کوتل پترا پر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کردیا گیا ۔حکومت پاکستان نے انہیں بعد از شہادت فوج کا سب سے بڑا اعزازنشان حیدر سے نوازا۔

کیپٹن راجہ محمد سرور 10نومبر 1910ء کو تحصیل گوجرخان کے نواحی گاؤں "سنگوری" میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم مقامی سکول میں حاصل کی ۔15اپریل 1929ء کو آپ فوج میں سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوگئے ۔1941ء میں براہ راست آرمی سروس جونیئرکمیشنڈ آفیسر کی حیثیت سے منتخب ہوئے ۔چھ ماہ بعد صوبیدار کے عہدے پر ترقی پائی ۔19مارچ 1945ء کو آپ سیکنڈ لیفٹیننٹ بنادیئے گئے،اگلے سال ترقی کرکے کیپٹن کے عہد ے پرفائز ہوکر قیام پاکستان کے بعد 2پنجاب رجمنٹ کا حصہ بن گئے ۔اسی رجمنٹ میں رہتے ہوئے آپ نے اوڑی پہاڑی کو واگزار کروانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔آج پاکستانی قوم اپنے اس عظیم سپوت کا 72واں یوم شہادت منا رہی ہے ۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 661367 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.