فلسفۂ انسانیت

اقبال عشق کو انسانی کمال کے لئے ضروری نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ان کا ایمان ہے کہ کوئی بھی قوم عشق کے بغیر ترقی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے وہ مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔ جو شخص ان مصائب کا مقابلہ کا پاتا ہے وہ زندگی کی دور دھوپ میں کامیاب و کامران رہتا ہے۔

علامہ اقبال اس شاعر کا نام ہے جو اپنے اشعار سے مردہ دلوں میں روح پھونکنے کے لئے کافی تھے۔ علامہ اقبال کی شاعری کے مختلف پہلو ہیں۔ ان کا ہر پہلو جداگانہ اور اعلیٰ اہمیت کا حامل ہے۔اقبال سے پہلے کئی شاعروں نے اپنی شاعری میں فلسفیانہ رخ اختیارکیا لیکن جس شاعر نے مربوط فلسفے کو اپنے شعری سانچے میں کامیابی کے ساتھ ڈھال دیا اس عظیم شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔ اقبال کے فلسفہ میں عقل و عشق کو خا ص اہمیت حاصل ہے۔ اس لئے میں نے اپنا موضوع ’’عقل و عشق علامہ اقبال کی نظرمیں‘‘ کو بنایا ہے ۔ علامہ اقبال نے عقل و عشق کی ماہیت اور اس کی حقیقت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

علامہ اقبال عشق کو عقل پر توجیح دیتے ہیں اور عشق و عقل کا موازنہ کثرت سے کرتے نظر آتے ہیں۔ عقل زمان و مکان کی پابند ہے اور یہ صرف مظاہر کے ادراک کی صورتیں ہیں اس لئے عقل کے ذریعہ سے ہمیں صرف علم حاصل ہوتا ہے ۔ عشق زماں و مکاں کے حدود سے نکل کر اس عالم محدود میں پہنچ جاتا ہے جہاں حقیقت بے حجاب نظر آتی ہے۔

عقل کی منزل مقصود ہستی مطلق کی معرفت ہے۔ عقل شک و شبہات کا نام ہے اس میں والہانہ جذبہ نہیں ہوتا اور یہ دور بینی اور عاقبت اندیشی کے مرض میں مبتلا نظر آتی ہے۔ عقل نے دنیا میں جرأت کے حیرت انگیز کرشمے نہیں دکھائے ہیں لیکن عشق کی بدولت انسانوں کی تاریخ درخشاں اور منور کارناموں سے بھڑی پڑی ہے۔

عقل کا علم جو مشاہدہ حقیقت سے محروم ہے انسانی دل محض گمان سے مطمئن نہیں ہوسکتا بلکہ یقین حاصل کرنے کے لئے بے چین رہتا ہے۔ کائنات کا سطحی علم بے کار ہے جب تک انسان کی نظر اس کے گہرائی تک نہ پہنچ جائے۔ عقل کی بصارت کے ساتھ اگر عشق کی بصیرت شامل ہو تو کائنات کا راز خود بخود مل جاتا ہے ۔

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرے ذرے میں ہے ذوق آشکارائی

اقبال عشق کو انسانی کمال کے لئے ضروری نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ان کا ایمان ہے کہ کوئی بھی قوم عشق کے بغیر ترقی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے وہ مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔ جو شخص ان مصائب کا مقابلہ کا پاتا ہے وہ زندگی کی دور دھوپ میں کامیاب و کامران رہتا ہے۔

اقبال عقل کو بھی نظر انداز نہیں کرتے ہیں لیکن عشق کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ عشق صرف سچائی و صداقت کا طلب گار ہوتا ہے ۔ جہاں اسے یہ صفات مل جاتی ہے وہ اپنی جگہ پیدا کر لیتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی

انسان کے دل میں کائنات کی حقیقت معلوم کرنے کی بے پناہ لگن موجود ہے۔ اسے اقبال اپنے فلسفہ خودی میں پیش کرتے ہیں۔ عشق جو مقام خودی کامخاطب اور محرم ہے کارزار عمل میں کود پڑتا ہے:

بے خطر کوڈ پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

عشق ہی سے خودی کی تخلیق ہے اور خودی میں اس وقت تک زندگی پیدا نہیں ہوسکتی جب تک اس میں عشق اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر نہ ہو۔ حق تو یہ ہے کہ اس دنیا کی تخلیق عشق سے ہی ہے، اگر عشق نہ ہوتا تو شاید اس عالم کون و مکاں کا وجود نہ ہوتا۔ علامہ اقبال نے عقل کو کبھی اپنا پیشوا اور رہنما نہیں بنایا کیونکہ عقل دل میں ایمان پیدا کرنے میں شک و شہبات پیدا کرتا ہے جبکہ عشق بے باکی پیدا کرتا ہے۔ عشق ایسی طاقت ہے جو انسان کو ایسا حوصلہ عطا کرتی ہے جس سے انسان زمانہ کے قیود سے اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے۔

اقبال عشق کی سادگی اور جرأت مندی کے دلدادہ ہیں ۔ عشق کے برعکس عقل فریبی ہے۔ اس کے پیش نظر ہر دم مصلحت کا سایہ رہتا ہے۔ وہ انسان کو خطرات مول لینے سے روکتی ہے۔ ذوق عمل کو کمزور کرتی ہے اور انسان کو یقین کی دولت سے محروم کر دیتی ہے:۔

حیات کیا ہے ؟ خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں

عشق کی تیغ جگر دار اڑالی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی

عقل ارتقا کی تمام منازل پر رہنمائی نہیں کر سکتی کیونکہ عقل محدود چیز ہے ، زندگی کی اصل رہنمائی عشق کرتا ہے ۔ عشق کے ذریعہ مکمل زندگی کا اظہار عمل میں آتا ہے۔ وہ عقل، جمال اور مذہبی عناصر سے مرکب اور اس پر حاوی عمل ہے لیکن عشق کو صادق اور باصفا ہونا چاہئے۔ جس قوم میں عشق کی روح سرایت کر گئی ہو اور جو جماعت عشق کی کیفیات سے وارفتہ نہ ہو وہ اقبال کے نزدیک دیرپا ثابت نہیں ہوسکتی ، اس لئے کہ عشق سے قوم میں آثار حیات اور زندگیٔ نو پید اہوتی ہے۔

غرض اقبال نے عشق کو زندگی کے لئے متاع بے بہا قرار دیا ہے۔ سچے عشق کی تڑپ اور خلش اگر دل میں نہ ہو تو دل عشق کی آگ سے شعلہ نوا نہ ہو۔ زندگی میں کیف و رنگ نہیں پیدا ہوتا۔ عقل کی رہبری بھی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتی ہے لیکن اس کو حق اور باطل پر پرکھنے کی کسوٹی نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ کسوٹی تو حق پسندوں کی آواز ہے جو نیک و بد میں امتیاز کرنا سکھاتی ہے:

ہے گرمیٔ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سورج بھی تماشائی تارے بھی تماشائی

عشق اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک کہ آرزو کا وجود نہ ہو، آرزو نہ ہو تو عشق ایک بیکار جذبہ ثابت ہوتا ہے جس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ عشق آرزو سے ہی استوار اور دیرپا بنتا ہے۔ آرزو جتنی بلند اور روشن ہوگی اسی قدر عشق ہوا و ہوس سے بیگانہ ہوگا۔ عشق آرزو سے زندہ رہتا ہے اگر د ل میں آرزو نہ ہو تو عشق کا روشن چراغ بھی بجھ جاتا ہے۔ عشق کی بقا آرزو کی بقا ہے اور عشق آرزو کے قیام سے وابستہ ہے ۔ اس لئے علامہ اقبال نے آرزو کو زندہ رکھنے کی پرزور تعلیم دی ہے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ زندگی یا س و قنوط سے عبارت نہیں ہے بلکہ آرزو حیات انسان کا وہ چراغ ہے جس سے زندگی کا ہر پہلو تابناک اور درخشندہ نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

ہوس نے کر دیا ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہوجا

اسلام آرزو اور تمنا کی تعلیم سے بھری پڑی ہے۔ رضائے الہٰی کی آرزو ، رسول کی خوشنودی کی آرزو، جنت کی آرزو، زندگی کی آرزو، کامیابیوں اور کامرانیوں کی آرزو ، زندگی کے میدان میں کچھ کرگزرنے کی آرزو غرض کہ اقبال کے نظام فکر میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے انسان کی خودی کو استحکام حاصل ہوتا ہے اور اس میں صفات الہٰی پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ سعی پیہم اور جہد مسلسل ہے

 

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 45 Articles with 63509 views "I write to discover what I know.".. View More