ہماری نوجوان نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آج دنیا کے
نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے جو ملک موجودہے وہ 1971سے پہلے مشرقی پاکستان
کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔جس میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت
بنگالی اور بہاری مسلمانوں کو تھی جبکہ ہندووں میں وہاں کے رہائشی تھے ۔یہ
خطہ زمین مغربی پاکستان سے تقریبا ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع تھا ،مغربی
اور مشرقی پاکستان کے مابین واحد راستہ سمندری تھا اور اس راستے میں بھی
بھارت حائل تھا۔ بہرکیف یہ یکم اگست 1958ء کا واقعہ ہے کہ بھارتی فوج کے
ایک دستے نے رات کے اندھیرے میں سرحد عبور کی اور نہایت خاموشی سے لکشمی
پور گاؤں پر قبضہ کرلیا ۔اس گاؤں میں رہنے والے مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر
وہاں سے نکال دیا اور گاؤں کی ہندو آبادی کو بھارت میں ضم کرلیا۔جب اس بات
کی خبر مشرقی پاکستان کے حکام کو ہوئی تو اس وقت کے گورنر جنرل محمد امراؤ
خان نے ایسٹ پاکستان رائفل کے ڈائریکٹر جنرل کو لکشمی پور کا علاقہ ہر صورت
واپس لینے کے احکامات جاری کردیئے۔اس مشکل ترین جنگی معرکے کے لیے میجر
طفیل محمد کا انتخاب عمل میں آیا۔ 5اگست 1958ء کو حملے کا پلان بنایا اور
منظور کیاگیا۔بھارتی فوج نے لکشمی پور کے ایک اہم ٹھیلے پر مورچہ بنایا
ہواتھا۔اس ٹیلے کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا ۔ٹیلے تک صرف ایک راستہ
جاتاتھا جس پر انہوں ہلکی مشین گن نصب کررکھی تھی اور راستے کے دونوں جانب
باڑ لگا رکھی تھی ۔اس مورچے میں بیٹھے ہوئے بھارتی فوجی پاک فوج کے جوانوں
کے نقل وحرکت بخوبی دیکھ سکتے تھے۔میجرطفیل محمد کا منصوبہ یہ تھا کہ دو
مختلف اطراف سے ایک ایک پلاٹون کے مدد سے حملہ کیا جائے ۔تیسری پلاٹون کی
کمان خود میجرطفیل محمدنے سنبھال لی ۔جمعدار محمد اعظم خان کو اپنانائب
مقرر کرلیا۔6اگست 1958ء کی شام میجرطفیل محمد نے حملے سے متعلق ہدایات دیں
اور ہر ایک جوان کو اس کا کام سمجھا دیا۔حملے کی رات اندھیرا چھایا ہوا تھا
؟ہر طرف ہو کا عالم تھا۔صبح کے ساڑھے تین بج چکے تھے ۔پلاٹون نمبر 3میجر
طفیل محمد کی قیادت میں روانہ ہوئی ،اس نے بھارتی فوج کی پچھلی جانب سے
حملہ آور ہونا تھا۔ہر جوان پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا تاکہ ان کی آمد
کا دشمن کو پتہ نہ چل سکے ۔البتہ بھارتی فوجیوں کے کھانسنے کی آوازیں سنی
جا سکتی تھیں ۔ہر طرف موت اپنے پر پھیلائے کھڑی تھی ۔ان پرسکوت ماحول میں
میجر طفیل محمد کی قیادت میں پاک فوج کے جوان نہایت آہستگی سے آگے بڑھ رہے
تھے ،سب کے حوصلے بلند تھے ۔جیسے ہی میجر طفیل محمد نے جمعدار اعظم خان کو
حملہ آور ہونے کا حکم دیا تو بھارتی مورچوں سے مشین گنوں نے موت کی آگ
برسانی شروع کردی ۔جیسے ہی میجر طفیل نے نعرہ حیدری بلند کیا تو ہمارے
جوانوں کے حوصلے بلند اور دشمن کے حوصلے پست ہوگئے۔میجر طفیل محمد ایک جوان
کو لے کر جب پیش قدمی کررہے تھے تو ایک گولی آپ کے پیٹ میں اتر گئی ۔آپ کے
بڑھتے ہوئے قدم پھر بھی نہ رکے تو مشین گن کی دو مزید گوالیاں جسم میں
پیوست ہوگئیں ۔میجر طفیل نے اپنا ایک ہاتھ سینے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے
دستی بم نکال کر اس مورچے پر پھینکا جہاں سے گولیوں کی بوچھاڑ آ رہی تھیں ۔اس
مشین گن کو خاموش کروایا تو ایک اور سمت سے گولیوں کے بوچھاڑ شروع ہوگئی جس
کی زد میں آکر جمعدار محمد اعظم خان موقع پر ہی شہید ہوگئے ۔اس کے باوجود
میجر طفیل کے جسم سے بھی کافی خون بہہ چکا تھا لیکن وہ رینگتے ہوئے اس مشین
گن تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔دست بدست لڑائی شروع ہوچکی تھی ۔بھارتی فوج
کی پہلی پوسٹ پر پاک فوج کا قبضہ ہوچکا تھا۔جب تری پور پوسٹ کی جانب میجر
طفیل بڑھے تو بھارتی فوج کا میجردیو برہمن ہاتھ میں پستول لیے میجرطفیل کے
سامنے کھڑا تھا ۔میجر طفیل خون بہنے کی وجہ سے نڈھال ہوچکے تھے ، انہوں نے
اٹھنے کی کوشش کی لیکن نہ اٹھ سکے ۔اسی دوران پاک فوج کے ایک جوان کی نظر
میجربرہمن پر پڑی ،وہ اسے مارنے کے لیے جونہی آگے بڑھا تو میجر برہمن نے اس
پر فائر کھول دیا ۔اپنے جوان کو بچانے کے میجر طفیل نے اپنی ٹانگ میں الجھا
کر میجر برہمن کو نیچے گرالیا ۔مارنے کی بجائے میجر برہمن کو قیدی بنالیا
گیا اور بھارتی فوج کے باقی تمام فوجی چھپتے چھپاتے لکشمی پور گاؤں کو خالی
کرکے اپنی پرانی جگہ پر پہنچ چکے تھے اور لکشمی پور گاؤں پربھارتی ترنگے کی
بجائے سبزہلالی پرچم لہرا دیا گیا تھا ۔میجرچوہدری طفیل محمد کو شدید زخمی
حالت میں جب ہسپتال لے جایا جا رہاتھا تو راستے ہی میں زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے وہ شہید ہوگئے۔حکومت پاکستان نے بے مثال بہادری اور جانثاری پر
انہیں بعد از شہادت نشان حیدر عطا کیا ۔ وہ نشان حیدر حاصل کرنے والے آپ
پاک فوج کے دوسرے آفیسر تھے ۔
میجرچوہدری طفیل محمد 22جولائی 1914ء کو مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر کے
نواحی قصبے "ساروباد" میں پیدا ہوئے ۔آپ نے 22جولائی 1932ء کو فوج میں
بھرتی ہوگئے۔1943ء میں ڈیرہ دون اکیڈیمی سے کمیشن حاصل کیا ۔1945ء میں
کیپٹن اور1947ء میں آپ کو میجربنادیا گیا۔جون 1958ء میں آپ کو ایسٹ پاکستان
رائفل (مشرقی پاکستان ) میں تعینات کردیا گیا جہاں لکشمی پور کا معرکہ
سرانجام پایا۔آپ کی آخری آرام گاہ "گگو منڈی " میں ہے جسے چک نمبر EB-253
بھی کہاجاتا ۔یہ وہ گاؤں ہے جہاں قیام پاکستان کے بعدآپ کا خاندان آباد
ہواتھا۔
|