اہل علم جانتے ہیں کہ فتح کس چیز کا نام ہے اور جیت کسے کہتے ہیں، اور اہل علم یہ بھی جانتے ہیں کہ حق پر چلنے والے کو شکست نہیں دی جاسکتی چاہے اُس کے جسم پر غلبہ حاصل ہوجائے اور بیشک اُسے زخموں سے چُور کر دیا جائے وہ ہتھیار نہیں پھینکتا چاہے اُس کی جان چلی جائے۔
آج اس کہانی میں بھی ایک ایسے ہی کردار کا ذکر کیا جائے گا جس نے ہتھیار نہیں پھینکے، وہ تنہا لڑا اوراہل عقل کو حیران کر گیا اور اپنی شجاعت اور بہادری سے تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے اپنا نام زندہ کر گیا۔
الحمرا پیلس سپین یہ کہانی اُس وقت شروع ہُوئی تھی جب سمندر میں کشتیاں آگ میں جل رہی تھیں اور طارق بن زیاد اپنے 7 ہزار ساتھیوں سے خطاب کر رہا تھا "میرے دلیر ساتھیو یہاں سے واپس جانے کا اب کوئی راستہ نہیں، تمہارے پیچھے سمندر ہے اور تمہارے آگے (1 لاکھ) دُشمن کی فوج اور تمہارے ساتھ ہمت اور ثابت قدمی ہے”، سن 711 میں ہسپانیہ کی یہ کہانی شروع ہُوئی جسکا آخری سپاہی موسٰی تھا جو1489 میں الحمرا کے محل سے اکیلا اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر نکلا اور ہار کر بھی جیت گیا۔
بادشاہ ابو عبداللہ الحمرہ کے محل میں مشاورت کر رہا تھا کہ فردینند سے جنگ ممکن نہیں ہے اور اگر ہم لڑے تو شکست ہمارا مقدر ہے لہذا ہمیں ہتھیار پھینک کر اپنے آپ کو فردینند فائیو کے حوالے کر دینا چاہیے تاکہ ہم سب کی جان بچ جائے، مشاورت کرنے والے تمام افراد ہی ابو عبداللہ کے خیال سے متفق تھے سوائے سپاہ سالار مُوسٰی بن ابی غسان کے۔
مُوسٰی نے بادشاہ اور اُس کی کابینہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر سمجھانے کی کوشش صرف دلیروں پر اثر کرتی ہے اور جو لڑنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کیے بیٹھے ہوں اُن پر ایسی کوششوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
مُوسٰی نے بادشاہ سے کہا ” اگر آپ نے ہتھیار پھینک دئیے تو یہ لوگ آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرنے والے، یہ آپ کے علاقے کو تہس نہس کر دیں گے آپ کے لیے بہتر ہے کہ ہتھیار اُٹھائیں اور ان سے مقابلہ کریں”، مگر ابُو عبداللہ کے لیے ایسی بہادری دیکھانا ممکن نہیں تھا جس میں جان چلی جاتی ہو۔
مُوسٰی بن ابی غسان نے جب دیکھا کے اُس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے تو اُس نے اپنی ذرہ پہنی تلوار اُٹھائی اور الحمرا کے محل سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر اکیلا نکلا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مومن یا غازی ہوتا ہے یا شہید ہوتا ہے مومن پر ان دو حالتوں کے علاوہ تیسری حالت نہیں ہوتی۔
مُسلم روایات میں ملتا ہے کہ وہ بجلی کی طرح اپنے قریب آنے والوں پر ٹوٹتا اور صفوں کو چیرتا ہُوا اپنے گھوڑے سمیت دریا میں کُود گیا اور کسی کے ہاتھ نہیں آیا، کرسچیئن روایات میں ہے کہ مُوسٰی کو روکنے کے لیے 15 گھڑ سواروں نے اُس کا راستہ روکا مگر وہ جان کی پرواہ نہ کرتے ہُوئے لڑ رہا تھا اور وہ اور اُسکا گھوڑا زخمی ہو چُکے تھے پھر اُس نے گھوڑے سمیت دریا میں چھلانگ لگائی اور بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔
جبل طارق سپین ہمت اور ثابت قدمی کے امتحان میں پاس ہونے والا مُوسٰی طارق بن زیاد کا آخری سپاہی تھا جسکے لڑنے کے بعد سپین ہمیشہ کے لیے مُسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور محنت، ہمت، جوانمردی اور کوشش سے شروع ہونے والی عروج کی داستان زوال کی مغرب میں ڈُوب گئی مگر اپنے ساتھ مُوسٰی بن ابی غسان کو نہ ڈبو سکی۔
|