14 اگست کو ہر سال یوم آزادی کے طور پر دھوم دھام
سے منایا جاتا ہے- جس میں جشن بھی ہوتا ہے، اور اجداد کی لازوال قربانیوں
کا بھی بار بار ذکر کیا جاتا ہے- بلاشبہ یہ دن مسلمانوں کے لیے آزادی کا
پیامبر بن کر طلوع ہوا تھا۔ مسلمانوں کو نہ صرف انگریزوں سے بلکہ ہندؤوں کی
متوقع غلامی سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات ملی، لیکن شاید آزادی کا یہ
حصول آج کے دور میں بہت آسان سمجھا جانے لگا ہے- ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اس
کے مفہوم اور جدوجہد کے معنی بدل ڈالے ہیں، اور اپنی آنے والی نوجوان نسل
کو اس نعمت عظیم کے حصول میں درپیش مشکلات و مسائل کی حقیقی منظر کشی سے
نابلد و ناآشنا رکھا ہے- یہی وجہ ہے کہ آج وہ نواب سراج الدولہ سے لے کر
نواب حیدر علی خان تک اور سلطان ٹیپو شہید سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر
شاہ ظفر کی عبرت ناک داستان تک کے تمام حقائق سے لاعلم اور ناواقف ہیں-
آزادی کا یہ سفر صرف ایک آدھ صدی پر ہی محیط نہیں، بلکہ اس کے پیچھے کئی
صدیوں کی المناک و دردناک تاریخ ہے- جو حریت و سرفروشی کی لازوال داستانوں
سے بھری پڑی ہے- 1857ء کی جنگ آزادی کے دلخراش واقعات سن کر تو رونگٹے کھڑے
ہو جاتے ہیں- لیکن صد حیف کہ ہم آج تک لفظ " لازوال قربانیوں" سے بڑھ کر
کچھ نہ جان سکے، اور شاید ہم نے کبھی جاننے کی کوشش بھی نہیں کی، کہ محض ان
دو آسان سے الفاظ " لازوال قربانیوں" کے پیچھے کس قدر سوز و غم، مصائب و
آلام اور صعوبتوں کے پہاڑ چھپے ہوئے ہیں- ہمارے ہاں ہر سال یوم آزادی کی
رسمی تقریبات پر ان "لازوال قربانیوں" کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، اور خراج
تحسین کے رسمی الفاظ بھی ادا کیے جاتے ہیں- لیکن افسوس کہ یہ سب طوطے کی
طرح رٹے رٹائے الفاظ آزادی کے حصول میں درپیش مشکلات و آفات، اور آزادی کے
حقیقی روح اور معانی کو آشکارا کرنے کے لئے ناکافی ہیں-
انگریز کی مکاریوں، مسلسل سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں
کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی
گئیں- اور انگریزی غلبے کا ایک کٹھن دور شروع ہوا، جس کے خلاف باضمیر اور
غیرت مند مسلمانان ہند کی ایسی ایسی شاندار تحریکیں کھڑی ہوئیں، کہ جنہیں
لکھتے لکھتے قلم کی سیاہی تک خشک ہو جائے، لیکن ان کا ذکر بدرجہ اتم موجود
رہے.... تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں اور مختلف قبائل کے سرداروں نے
سر دھڑ کی بازی لگا کر اور اپنی جان و مال کی عظیم قربانیاں دے کر انگریزوں
کو یہاں تسلط جمانے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں، یہی لمحات ہماری
جنگ آزادی کا نقطۂ آغاز ہیں-جنہیں ہم یقیناً بھولے چکے ہیں- اس سلسلے میں
قائد محترم محمد علی جناح نے علی گڑھ کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا
خوب وضاحت دی تھی؛ "پاکستان تو اسی دن یہاں قائم ہو گیا تھا، جس دن برصغیر
میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا"- حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے آزادی
کی جنگ پہلے دن سے ہی لڑنا شروع کر دی تھی- جسے 1947 میں پایہ تکمیل تک
پہنچانے کا سہرا یقیناً قائداعظم اور ان کے رفقاء کو جاتا ہے-
آزادی کے لئے دی گئی قربانیوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جو اب
تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہو چکی ہے- اسے پڑھنے والوں کی آنکھیں حقیقی
معنوں میں نم ناک ہو جاتی ہیں- اور سنانے والوں کی بھی آواز رندھ جاتی ہے-
بلاشبہ اس کا مطالعہ کرنے والوں کے اذہان کے پردوں پر ایک فلم سی چلنے لگتی
ہے، جس میں ہر طرف آگ اور خاک و خون کے شعلے دکھائی دیتے ہے- سربریدہ اور
بے گوروکفن بکھری لاشیں، معصوم ادھڑی عصمتیں، آبروریزی کی چیخ و پکار، اور
دھشت سے لرزتے بھاگتے معصوم بچوں کی حالت زار کے مناظر دل چیر کر رکھ دیتے
ہیں- انسانی خون سے لتھڑی ٹرینیں ہر نئے اسٹیشن سے لپٹ کر روتی نظر آتی
ہیں- قدم قدم پر وقوع پذیر ہوتے انسانی المیوں سے دل پھٹتے چلے جاتے ہیں-
یقیناً اس آزادی کی پاداش میں اس درد، تکلیف اور کرب کو لفظوں میں بیان
کرنا ناممکن ہے، اور اگر ممکن ہو بھی تو شاید اسے اسی کیفیت میں سمجھنا اور
سمجھانا ایک نہایت مشکل امر ہے-
ہمارے اسلاف کی یہ ساری قربانیاں ہمارے بے خوف مستقبل کیلئے تھیں- وہ ہماری
بے خوف زندگی کے لئے کس قدر متفکر تھے، اس کا اندازہ تحریک آزادی کے ان
واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے- بلاشبہ ہم نے آزاد وطن میں، آزاد آب و
ہوا میں، اور آزاد آذانوں کی گونج والی سرزمیں پر آنکھیں کھولی ہیں- ہم نے
صرف ہنستے بستے چہرے ہی دیکھے ہیں- ہم نے لہلاتے کھیتوں میں اپنے کسانوں کو
صرف ہل چلاتے ہی دیکھا ہے- ہم نے کاج کاروبار کی رونقوں سے مزین خوب صورت
شہر ہی دیکھے ہیں- اور ہم نے اپنی مرضی سے اپنے راستوں کا تعین بھی کیا ہے-
اس لئے کہ ہمیں یہ آزادی وراثت میں ملی ہے- یہی وجہ ہے کہ ہمارے لئے آزادی
کی جد و جہد کی اہمیت کا اندازہ لگانا اور اس کی حقیقی روح اور تصور کو
جاننا بہت مشکل ہے-
آج ستر سال گزرنے کے بعد بھی ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں- ہماری نوجوان نسل
آزادی کو ایک جشن اور اچھل کود والے دن سے زیادہ نہیں جانتی، ہم آج بھی
چہرے لباس، ہاتھوں پیروں کو سبز رنگ سے رنگنے کو ہی آزادی کی قیمت سمجھتے
ہیں- گھروں ،دکانوں اور گاڑیوں کے سجانے کو ہی حب الوطنی کا معیار گردانتے
ہیں- گلی کوچوں ، سڑکوں، شاہراہوں اور بازاروں میں شورو غل، ہلڑ بازی، نعرے
بازی اور چیخنے چلانے کو قومی فریضہ سمجھتے ہیں- لیکن اگر آج بھی ہمیں اس
انمول رتن کی قدر و قیمت نہ معلوم ہو سکی تو پھر یقیناً کوئی بڑا المیہ جنم
لے سکتا ہے- آزادی کے مفہوم اور مقصد کو اگر اب بھی نہ جان سکے تو تاریخ
ہمیں کٹہرے میں ضرور کھڑا کرے گی - خدارا وقت کی نزاکت کو سمجھئیے، ہماری
اس آزادی کے آنچل پر ایسے لہو رنگ چھینٹے ہیں جو ہماری عظمت اسلاف کے گواہ
ہیں- اور اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو حب
الوطنی کے صحیح اور خالص جذبے سے روشناس کروانا ہے- تاکہ اس دھرتی کو اس
بام عروج پر پہنچایا جا سکے، جس کے خواب ہمارے اجداد نے صدیوں پہلے دیکھے
تھے---
|