اﷲ کالاکھ شکر ہے کہ جماعت اسلامی کے مخالفیں بھی اس
چیز کو مانتے ہیں کہ جماعت اسلامی ایک منظم ترین جماعت ہے۔اصل میں تنظیم
سمع و اطاعت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ اسی وجہ سے قلیل تعد اد
اگر منظم ، سمع اور اطاعت گزار ہو، تو کثیر تعداد پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے۔
قرآن شریف آیت کا مفہوم ہے ۔ کہ اطاعت کرو اﷲ اور رسولؐ کی اور اپنے امیر
کی۔آئیں ہم آپ کو اپنی جماعت اسلامی کی پچپن سالہ زندگی میں آنکھوں دیکھی،
جلسے، جلسوں، ریلیوں اور دھرنوں کی روداد سنائیں۔میں۱۹۶۸ء میں جماعت اسلامی
سے متعارف ہوا۔ الحمد اﷲ! آج تک میں جماعت اسلامی میں فعال قردار ادا کر
رہا ہوں۔ جماعت اسلامی کسی بھی فرد کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے بعد سب سے
پہلے اس کارکن کی’’ میں‘‘ کو مارتی ہے۔ اس کو سمع اطاعت نظم کی تربیت دیتی
ہے۔ صبر کی تلقین کرتی ہے۔ پھر اس سے کام لیتی ہے۔میں ایک ایسے شخص کو
جانتا ہوں جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ایریا منجیر کی پوسٹ پر کام کر رہا
تھا۔ اُس کی’’ میں‘‘ مارنے کے لیے کارکنوں کے ایک تربتی اجتماع میں مصنوعی
لیٹرینوں کے باہر پڑے پانی کے ڈرموں سے لوٹے بھر بھر کر لیٹیرنیں استعمال
کرنے والے کارکنوں کو دینے کی ڈیوٹی لگائی گئی۔اصل میں جماعت اسلامی نام ہے
اپنی رائے کو اجتماعیت کے حوالے کر دینا کا۔ کہیں مولانا سید ابو الاعلیٰ
مودودیؒکی کسی کتاب میں ایک تحریر پڑھی، جو مجھے کچھ اس طرح یاد ہے’’
مولانا نے فرمایا تھا مغربی جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی ہے۔ مگر
اسلامی جمہوریت میں اس سے بھی بڑھ کر آزادی ہے۔کوئی ہماری شوریٰ کے اجلاسوں
میں آئے اور دیکھے کہ ہم کیسے ایک دوسرے کے خلاف بولتے ہیں۔ مگر جب اجتماعی
فیصلہ ہو جائے تو اس پر سب متفق ہو جاتے ہیں۔باہر نکل کر اس فیصلے کی مکمل
حمایت کرتے ہیں۔ عوام میں اختلافات کو نہیں اُچھاتے‘‘ جماعت اسلامی نے بڑے
بڑے جلسے منعقد کیے ہیں۔ کارکن خوشی سے دریاں بچھانے ، کرسیاں سیدھی کرنے ،
پانی پلانے اوراور دیگر کام کرتے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے اخراجات کے
نصف سے کم پر جماعت اسلامی کے جلسے کامیابی سے انعقاد پذیر ہوتے ہیں۔ کارکن
صبر سکون سے اپنے لیڈروں کی تقاریر سنتے ہیں۔ کسی قسم کی ہڑبونگ نہیں ہوتی۔
جبکہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں ایسا منظم اور صبر شکروالا ماحول
دیکھنے کو کم ملتا ہے۔ جس کسی سڑک پر کوئی ریلی منعقد کی جاتی ہے۔ ایک طرف
لاکھوں مرد و خواتین آرام سے جماعت اسلامی کے پروگرام سن رہے ہوتے ہیں۔ سڑک
کی دوسری سمت ٹریفک رواں دواں ہوتی ہے۔کبھی بھی ٹریفک کو اپنے ریلی کی
تعداد بڑھانے کے لیے ناجائز طریقہ سے روکا نہیں گیا۔ بلکہ کارکن عوام کے
آرام کا خیال کرتے ہوئے، گاڑیوں کو خود آگے بڑھنے کے لیے راستے بتا تے ہیں۔
جبکہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے کارکن تربیت کی کمی کی وجہ سے اپنی ریلیوں میں
ٹریفک کو روک کر عوام کو مشکل میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔جماعت اسلامی کے
پروگراموں کی تشہیر کے لیے کارکن پوسٹر خود لگاتے۔ دیواروں پر تحریریں خود
لکھتے ۔مجھے یاد ہے ہم نے کبھی بھی کسی دوسری سیاسی پارٹی کے پہلے سے لگے
ہوئے پوسٹر پر جماعت اسلامی کا پوسٹر نہیں چپسایا۔ اسی طرح دیواروں پر کسی
دوسری سیاسی پارٹی کی کسی تحریر کو مٹا کر اپنے تحریر نہیں لکھی ۔ جماعت
اسلامی شروع سے ضرورت مندوں کی فلاح بہبود کے لیے عید قربان پر جانورں کی
کھالیں جمع کرتی ہے۔ ہم دو دو کارکن عید قربان سے ہفتہ پہلے ہاتھوں میں
سیڑیاں پکڑے محلوں کی سڑکوں میں بجلی کے کھبوں پر ’’ قربانی کی کھالیں
جماعت اسلامی کو دیں‘‘ کے بینرز لگاتے رہے۔ پھر عید کے دن چورن فروخت کرنے
والے کی طرح منہ کے سامنے بھبپو لگائے گلی محلوں میں اعلان کرتے ’’ قربانی
کی کھالیں جماعت اسلامی کو دیجیے‘‘ ۔گھر گھر جا کر قربانی کی کھالیں جمع
کرتے۔الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد کارکن ،ہفتوں ووٹر لسٹوں کی کاربن کا
پیاں تیار کیا کرتے۔جماعت اسلامی نے کبھی بھی جعلی ووٹ نہیں بھگتائے ۔مجھے
یاد ہے کہ ایک دفعہ میں الیکشن کیپ پر بیٹھا ووٹرز کو پرچیاں بنا بنا کر دے
رہا۔ میری گلی کا ایک ساٹھ ستر سالہ برزگ کہتا ہے مجھے پرچی بنا دو ۔ مجھے
جماعت اسلامی کو ووٹ دینا ہے۔ میں نے کہا بزرگوں آپ کا نام ووٹر لسٹ میں
نہیں لکھا ہوا۔ میں کیسے آپ کو ووٹر پرچی بنا کر دوں ۔ وہ بزر گ اسرار کرتے
رہے مگر میں مجبورتھا۔ اسی گلی کے ایک غریب خاندان کی جماعت اسلامی ہمیشہ
مدد کرتی رہی۔مگر وہ ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے رہے۔کراچی میں جماعت
اسلامی نے ایک روزگار سیل بنایا ہوا ہے۔ اس میں جماعت اسلامی ے علاوہ کسی
بھی پارٹی کا ضرورت مند نوکری کے لیے نام لکھواتا ہے۔ نوکری کا انتظام ہو
ناجانے پر اسے اطلاع دی جاتی ہے۔ وہ روزگار پرلگ جاتا ہے۔ جس زمانے میں ایم
کیو ایم جماعت اسلامی کے خلاف دہشت گردی کر رہی تھی۔ ایک ڈرائیور نے ایک
اجتماع میں امیر جماعت اسلامی کراچی سے شکایت کی۔ آپ نے ایم کیو ایم کے
لوگوں کو ڈرائیور کی نوکریوں پر رکھا ہوا ہے۔ یہ ڈرائیور جماعت اسلامی کے
ہر پروگرام کی خبر ایم کیو ایم کو پہنچاتے ہیں۔ لہٰذا ان کوفارغ کریں۔ امیر
جماعت اسلامی کراچی نے کہا ہم کسی کو بھی روزگار سے نہیں ہٹائیں گے۔ جہاں
دھرنے کا سوال ہے تو قاضی حسین کو عوام نے دھرنا بابا کا خطاب دیا۔ بے نظیر
بھٹو شہیدکے دور میں قاضی صاحب نے ا سلام آباد پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا
دینے کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نے تکبر کا اظہار کرتے ہوئے
کہ کہ اسلام آباد میں کسی کو بھی داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔اسلام آباد
میں داخلے کے سارے راستے کنکریٹ سے بھر ے ٹرالے کھڑے کر بند کر دیے۔ حسن
عبدال سے آنی والی ٹریفک کو روکنے کے لیے مرگلہ کے پہاڑوں کے درمیان سڑک کو
مٹی ڈال کر بند کر دیا۔پھر بھی پورے پاکستان سے آنے والے جماعت اسلامی کے
کارکن اسلام آباد پہنچے دھرنا دیا۔ کامیابی پر خوشی کے لیے پارلیمنٹ کے
سامنے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی۔یاد گار کے طور پر اس نماز شکرانہ کے
فوٹو جو جنگ اخبار میں شائع ہوا تھا،میں نے برسوں سمبھالے رکھا۔ میں بات
چشم دید گواہ ہوں کہ حکومت وقت نے جب بھی جماعت اسلامی کو پر امن اجتماع
کرنے دیا کبھی امن امان کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ جہاں بھی پروگرام کو روکا
گیا کارکن مشتعل ہوئے۔ یہی کچھ اسلام آباد پولیس نے بھی کیا۔ مگر آخر کار
کارکنوں کے سامنے پولیس پسپا ہوئی ۔
اے کاش! ساری سیاسی پارٹیوں کے کارکن بھی جماعت اسلامی کے کارکنوں کی طرح
تربیت یافتہ ہوں۔ جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں کو پر امن رکھیں۔ جلاؤ
،گھیراؤ اورملکی پراپرٹیز کا نقصان نہ کریں۔عوام کے راستے نہ روکیں۔ حکومت
وقت کے خلاف اپنا پر امن احتجاج کریں۔حکومتیں بھی کارکنوں کے خلاف طاقت
استعمال نہ کریں۔ یہی جمہوری دور کے تقاضے ہیں۔
|