ضیاء مرحوم کی یاد میں

ضیاء الحق مرحوم ایک عظیم سپہ سالار، ایک ذہین سیاستدان اور ایک عظیم رہنما تھے ۔ وہ ایک شخصیت نہیں بلکہ بیک وقت کئی شخصیات کا مجموعہ تھے ۔

ضیاء مرحوم کی یاد میں

محرر : حنظلہ نعمان
اگست 1988 کی سترہ تاریخ کو دنیائے اسلام ایک عظیم رہنما، ایک بے باک سپہ سالار اور ایک ذہین سیاست دان سے محروم ہو گئی ۔

جنرل ضیاء الحق شہید نے 12 اگست 1924 کو جالندھر کے ایک غریب گمنام مذہبی کسان کے گھر آنکھ کھولی ۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیمی زینے چڑھنے کے بعد 1945 میں برٹش آرمی میں شمولیت اختیار کر لی۔ تقسیم ہند پر فوج تقسیم ہوئی تو آپ پاکستان آگئے اور ترقیوں کی مختلف منازل طے کرنے بعد یکم مارچ 1976 کو آرمی چیف بن گئے ۔

جنرل ضیاء ایک سچے اور کھرے مسلمان تھے اور انکا مذہب کے ساتھ تعلق ان کی ایک ایک ادا سے ظاہر ہوتا تھا ۔ آزادی سے قبل کا واقعہ ہے کہ لیفٹیننٹ ضیاء الحق نے جمعہ کی نماز پڑھنے کیلئے سفید شلوار اور کالی شیروانی زیب تن کی ، جمعہ پڑھ کر واپس اپنی یونٹ پر آئے تو یہی لباس پہنا ہوا تھا، انگریز کرنل خفگی سے بولا : " کیا آپکو معلوم نہیں کہ سویلین لباس میں یونٹ میں آنے پر آپکا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے ؟" لیفٹیننٹ ضیاء الحق نے سنجیدگی سے جواب دیا : " آپ میر اکورٹ مارشل کرلیں ، آپکو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ میرے قائد کا لباس ہے "

پاکستان بننے کے بعد کیپٹن ضیاء الحق کو ایک کورس پر بھیجا گیا ۔ وہاں انہیں پہلے سے موجود ایک میجر کے ساتھ کمرے میں جگہ ملی ۔ پہلی رات گزارنے کے بعد اگلی صبح جب تمام افسران ناشتے کی میز پر جمع تھے ، میجر صاحب نے طنزاً کہا : " یار میرے ساتھ ایک مولوی اٹیچ کردیا گیا ہے، یہ رات دو بجے اٹھتا ہے اور سجدے پر سجدہ ، سجدے پر سجدہ دینا شروع ہوجاتا ہے اور پھر قرآن کی تلاوت شروع کر دیتا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ یہ مدرسے میں کوئی کورس کرنے آیا ہوا ہے " تمام افسران یہ بات سن کر ہنس پڑے اور کیپٹن ضیاء الحق سنجیدگی کے ساتھ ناشتہ کرنے میں مصروف رہے ، اگلی صبح جب تمام افسران دوبارہ ناشتے کی میز پر آئے تو میجر صاحب معذرت کے لہجے میں بولے : " ڈئیر برادرز میں اپنی کل والی بات پر آپ سب سے اور بالخصوص کیپٹن صاحب سے بہت شرمندہ ہوں ، رات میرے ضمیر نے مجھے سخت ملامت کی کہ میں نے ایک ایسے نوجوان کا مذاق اڑایا جو حقیقی معنوں میں اللہ کا عبادت گزار بندہ ہے ، کیپٹن صاحب نے میری کل کی بات کا نہ تو کوئی جواب دیا اور نہ برا منایا اور نہ ہی عبادت کو ترک کیا بلکہ سنت طریقے پر چلتے ہوئے بازار سے ایک ٹیبل لیمپ خریدا اور اسکی مدھم روشنی میں عبادت اور تلاوت کو جاری رکھا ، تاکہ نہ تو ساتھی کے آرام میں کچھ خلل آئے اور نہ میری عبادت میں کوتاہی ہو "

1977 کے انتخابات میں نو جماعتوں کا اتحاد پاکستان قومی اتحاد ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا ، عام تاثر تھا کہ پاکستان قومی اتحاد بڑی آسانی سے یہ الیکشن جیت جائے گا ۔ بھٹو صاحب کو بھی یہ خطرہ درپیش ہوا ، انہوں نے کرسی کو اپنے ہاتھوں سے جاتا دیکھ کر سیاسی حربے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا اور قومی اتحاد کے کئی امیدوران اٹھوا کر جیلوں میں ڈال دیے ، اسکے علاوہ الیکشن میں بھی بڑے پیمانے پر دھاندلی کی ۔ اسطرح پاکستان پیپلز پارٹی یہ الیکشن جیت گئی مگر جب الیکشن کے نتائج آئے تو عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور پاکستان قومی اتحاد نے ملک گیر احتجاج شروع کردیا ۔ پاکستان کے تقریباً ہر شہر کو جام کردیا گیا ۔ طرفین میں کئی مذاکرات ہوئے مگر اعتماد کی فضا بحال نہ ہوسکی ۔ ملک کی حالت بدتر ہوچکی تھی اور حالات تیزی سے مزید خرابی کی طرف جارہے تھے ، ملک کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا اور حکومت برطرف کردی ۔ بھٹو دور میں آن کی پالیسیوں کی وجہ سے ہر جانب علیحدگی پسند تحریکیں سر اٹھانے لگی تھیں ۔ واضح رہے کہ انہی کی وجہ سے ہم نے مشرقی پاکستان بھی کھویا تھا ۔ حکومت کی برطرفی کے بعد ضیاء نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ ان تحریکوں کا خاتمہ کرنا تھا ۔ بھٹو دور میں علیحدگی پسند بلوچ تحریک آج سے کہیں زوروں پر تھی ۔ حکومت نے پکڑو اور مارو کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی ، جس سے حالات مزید خراب ہوتے جارہے تھے ۔ بلوچوں بغاوت کرتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے جبکہ بلوچ رہنما حکومت کی قید میں تھے ۔ اس کے علاؤہ سندھ میں بھی علیحدگی پسند تحریک کا آغاز ہوچکا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق نے جیل میں جاکر بلوچ رہنماؤں عطاء اللہ مینگل ، مری خان اور انکے ساتھ قید ولی خان سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ، انہیں محب وطن کہتے ہوئے نہ صرف رہا کردیا بلکہ بلوچستان سے افواج بھی واپس بلا لیا گئیں ۔ اس دن سے بغاوت کا نام و نشان تک مٹ گیا اور ایک بڑا عرصہ امن و سکون رہا ۔ اسکے علاوہ ضیاء مرحوم نے علیحدگی پسند سندھی رہنما جی ایم سید سے ان کے گھر جاکر ملاقات کی اور یوں اس تحریک کا بھی مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا ۔

جنرل ضیاء الحق نے جس دور میں مارشل لاء لگایا تھا ، وہ ملک کا نازک ترین دور تھا ، پاکستان 1971 میں اسی سیاست کی وجہ سے ایک جنگ ہار کر بنگال کھو چکا تھا،اور اب بھی ایک طرف بھارت آنکھیں دکھا رہا تھا اور دوسری طرف افغانستان میں بھی کمیونسٹ ذہن رکھنے والے روسی نواز حکمران برسر اقتدار آچکے تھے ، حکومتی طبقہ بھی اشتراکی ذہنیت کا حامل تھا ، ملک الگ سے بدامنی و عدم اعتمادی کا شکار تھا ، ان تمام حالات میں ملک کو بچانے کی خاطر مارشل لاء لگانے کے سوا ضیاء شہید کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ قاید اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی زیڈ اے سلہری لکھتے ہیں کہ : " اگر چہ ضیاء ہر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فوجی آمریت کو دوام بخشا مگر اس بات کی اصلیت یہ ہے کہ بھٹو نے جمہوریت کا ایسا خرابہ کرکے رکھ دیا تھا کہ ملک کی سالمیت تک خطرے میں پڑ گئی "
جنرل ضیاء الحق نے 1984 میں صدارتی ریفرینڈم کروایا اور یوں ریفرینڈم میں کامیابی پر انکی صدارت کی توثیق ہوگئی ۔ صدر بننے کے بعد بھی انکے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ضیاء مرحوم صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ بیک وقت کئی شخصیات کا مجموعہ تھے ۔ ضیاء کے دور میں اپنے ملک کی بنائی ہوئی اشیا خریدنے کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ہر شے پاکستان کی بنائی ہوئی نظر آنے لگی ۔ انہوں نے ملک عزیز پاکستان میں اسلامی قوانین نافذ کیے ، وفاقی شرعی عدالتیں قائم کی گئیں ، قاضی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا ۔ حدود آرڈیننس اور زکوٰۃ آرڈیننس کو متعارف کروایا گیا ۔ شراب ، زنا ، تہمت ، چوری ، ڈاکہ وغیرہ کیلئے حدیں مقرر کی گئیں اور ان کی اسلامی سزائیں مقرر کی گئیں جو کہ سر عام دی جاتی تھیں ۔ ضیاء مرحوم نے نظام صلوٰۃ قائم کیا اور ملک سے بے حیائی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے ۔ اسلام سے نابلد اراکین پارلیمنٹ کے بجائے اسلامی مجلس شوریٰ نے اسلامی نظام کی طرف جاتی اس حکومت کی رہنمائی کی اور خاص طور پر شاہ فیصل مرحوم نے ان اصطلاحات کے متعارف کروانے میں ذاتی دلچسپی لی ۔

جنرل ضیاء الحق جیسا باوقار، زاہد اور متقی حکمران آج تک پاکستان کو نصیب نہیں ہوا۔ دنیائے اسلام میں انکا نام وقار اور احترام سے لیا جاتا تھا ۔ اقوام متحدہ میں جب مسلم دنیا کا موقف پیش کرنے کا وقت آیا تو پوری امت مسلمہ نے جنرل ضیاء کو اپنا نمائندہ بنایا اور ضیاء نے جس انداز میں اپنا موقف پیش کیا وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔

جب عرب ممالک کے اجلاس میں مصر نے آنے سے انکار کردیا تو عرب ممالک نے ضیاء مرحوم سے مصر کو اجلاس میں شرکت کر راضی کرنے کی درخواست کی ۔ ضیاء الحق جیسی مدبرانہ شخصیت نے مصر جو راضی کیا اور وہ عرب جو ایک دوسرے کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے ام، وہ یا اخی یا اخی کہتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگ کر رو رہے تھے ۔

ایک مرتبہ ضیاء مرحوم سعودیہ گئے ، بیت اللہ شریف میں حاضری کے وقت ان کے ساتھ میاں صلاح الدین، مجیب الرحمٰن شامی اور ضیاء شاہد بھی موجود تھے ، عصر کی نماز کا وقت تھا ، جنرل ضیاء اپنے ساتھیوں سمیت مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ گئے ۔ کسی نے جاکر امام کعبہ کو خبر دی کہ مقام ابراہیم پر ضیاء الحق تشریف رکھتے ہیں ۔ امام کعبہ اپنی جگہ سے اٹھے اور آکر ضیاء الحق کو گلے لگایا اور ہاتھ پکڑ کر مصلیٰ کی جانب چل دیے ۔ مصلیٰ کے پاس پہنچ کر کیا کہ آج نماز آپ پڑھائیں گے ۔ ضیاء مرحوم کے چہرے پر انتہا درجہ خوف کے آثار نمایاں ہوئے اور لرزتی ہوئی آواز میں کہا کہ امام کعبہ تو آپ ہیں ؟ امام کعبہ بولے : " بیشک کعبہ کا امام میں ہوں مگر پورے عالم اسلام کے امام آپ ہیں " پھر ضیاء شہید نے نماز پڑھائی اور کیفیت یہ تھی کہ دوران نماز زاروقطار رو رہے تھے اور آنکھیں سرخ ہوگئیں تھیں۔

آپ انتہاء درجے کی بارعب شخصیت اور مدبر سیاستدان تھے ، ضیاء کے دور حکومت میں جب بھارتی فوج اپنی پوری طاقت کے ساتھ پاکستانی بارڈر پر آکھڑی ہوئی تھی اور حملے کے لیے اپنے وزیر اعظم کے اشارے ک انتظار کر رہی تھی ، اور دوسری طرف روس افغانستان کی جانب سے گرم پانیوں کی طرف قدم بڑھا رہا تھا ، اس نازک دور میں جب عوام کی نیندیں حرام ہوچکی تھیں اور ہر رات جنگ کے چھڑ جانے کا کھٹکا لگا رہتا تھا ، جنرل ضیاء کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت چلے گئے ، دہلی ائیر پورٹ پر بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی سے ملتے ہوئے پراسرار اور سرگوشی کے سے انداز میں کہا کہ : " آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو بیشک کریں ، مگر یاد رکھیں کہ اسکے بعد لوگ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائیں گے اور ضیاء الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھیں گے ، کیونکہ یہ روایتی نہیں بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی ، اگر پاکستان تباہ ہوگیا تو پوری دنیا میں مسلمان موجود ہیں، اسلام کو کوئی خطرہ نہیں مگر اگر ہندوستان مٹ گیا تو اسکے ساتھ پوری دنیا سے ہندو مذہب بھی ختم ہو جائے گا اور اگر میرے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے آپ نے بارڈر سے فوج نہ ہٹائی تو پہلا لفظ جو میرے منہ سے نکلے گا وہ ہوگا فائیر " راجیو گاندھی کا مشیر بہرامنام جو کہ وہاں راجیو کے ساتھ موجود تھا لکھتا ہے کہ" راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے اور میری ریڑھ کی ہڈی ہر سنسناہٹ طاری ہوگئی ۔ مجھے ضیاء اس وقت دنیا کا خطرناک ترین انسان لگ رہا تھا ، اسکے الفاظ میں دہشت تھی اور اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں کہ وہ برصغیر کو مٹاکر رکھ دے گا ، یکایک ضیاء الحق کے چہرے کی مسکراہٹ واپس آگئی اور وہ مڑ کر وہاں موجود دوسرے لوگوں سے گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر واپس مڑ گیا ، میرے اور راجیو گاندھی کے علاؤہ کسی ایک کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ضیاء الحق کیا کہہ گیا ہے" لہذا تاریخ نے دیکھا کہ ضیاء کی مدبرانہ سیاست اور بارعب شخصیت نے ایک جنکی کہ کر بارڈر پر حملے کیلئے تیار فوجیں ہٹوا لیں ۔

ضیاء الحق شہید کا ایک اہم کارنامہ ایٹمی پروگرام کی تکمیل تھا ۔ وہ ایٹمی پروگرام میں اس قدر دلچسپی لیتے تھے کہ کوئی ماہ ایسا نہیں جس میں وہ ڈاکٹر عبد القدیر خان اور جنرل نقوی سے دو تین بار نہ ملے ہوں ۔ انہوں نے ایٹمی پروگرام کے سیکورٹی ڈائریکٹر کرنل عبد الرحمن کو ہدایات دی تھیں کہ اگر کوئی غیر ملکی آدمی کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کی جاسوسی کرتا مل جائے تو اسکی اچھی سی پٹائی کروا دی جائے ۔ 1979 میں مغربی ممالک کو شک ہوگیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام پر کام کر رہا ہے ۔ امریکی سفیر ایک جاسوس کے ساتھ ایٹمی پروگرام کی کھوج میں کہوٹہ لیبارٹری کے قریب پہنچ گیا ، اچانک کچھ لوگ آئے اور گاڑی رکوا کر انکی پٹائی شروع کردی اور ایسی درگت بنائی کہ کسی اور نے دوبارہ یہاں کا رخ نہ کیا ۔ شام کو کرنل عبد الرحمن نے ضیاء الحق کو اس واقعہ کی خبر دے دی کہ آپ کے حکم کی تعمیل ہوچکی ہے ۔ تین چار روز بعد جب طبیعت ذرا سنبھلی تو امریکی سفیر نے ضیاء سے اس واقعے کی شکایت کی کہ کچھ لوگوں نے ہم سے یہ سلوک کیا ۔ ضیاء مرحوم نے اس واقعے کو سفیر کے سامنے اتنی سنجیدگی سے کیا کہ گویا ضیاء کو معلوم ہی نا ہو ۔ ضیاء مرحوم کی اسی خوبی کی تعریف کرتے ہوئے جنرل ورنن والٹر جو کہ دوسری جنگ عظیم کا ویٹرن تھا اور اقوام متحدہ میں نمائندہ بھی رہ چکا تھا ، لکھتا ہے کہ : " وہ اس قدر ملک کی خاطر جھوٹ بولنے والا محب وطن دروغ گو ہے کہ میں نے اس جیسا شخص زندگی میں کبھی نہیں دیکھا"

ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بقول ہم 1984 میں ایٹمی پروگرام کامیابی کے ساتھ مکمل کرچکے تھے ۔ پروگرام کی تکمیل پر میں ایک خط لیکر ضیاء الحق کے پاس گیا ، تاکہ تحریری سند رہے اور بعد میں کوئی اسے اپنے سے منسوب نہ کرلے (اور ہوا بھی یہی کہ بعد میں آنے والے سیاستدان اسے اپنا کارنامہ بتاتے پھرتے ہیں) ، تو ضیاء الحق نے مجھے گلے لگایا اور بوسہ دیتے ہوئے کہا کہ اب اس ملک کا مستقبل محفوظ ہے ۔

ضیاء الحق کا اپنے وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو شکست دینا ایک نہایت ناقابل یقین، ناقابل فراموش ، حیرت انگیز اور ایمان افروز کارنامہ ہے ۔ جنرل ضیاء الحق شہید ، جنرل عبد الرحمن اختر ، جنرل حمید گل اور میجر عامر جیسے عظیم دانشوروں نے نہ صرف روس کو افغانستان کی سرزمین پر پاکستان کے گرم پانیوں پر قبضے کے منصوبے کو ناکام بنادیا ، بلکہ روس کو اتنا کمزور کردیا کہ اس کیلئے قبضہ کیے ہوئے ملکوں پر بھی قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا اور نتیجتاً کئی ممالک آزاد ہوگئے ۔ ضیاء مرحوم چاہتے تھے کہ وزیراعظم جونیجو جنیوا معاہدے پر دستخط نہ کرے ، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اگر افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم کیے بغیر دستخط کردیے گئے تو افغانستان میں خانہ جنگی اور بدامنی کی فضا قائم ہو جائے گی مگر جونیجو نے صرف اور صرف ضیاء کی مخالفت کرنے کے لیے جنیوا معاہدے پر دستخط کردیے اور بعد میں وہی ہوا جسکا ضیاء الحق کو خدشہ تھا ۔

یہ کہنا کہ امریکہ کے دباؤ پر پاکستان نے اس جنگ میں شرکت کی سراسر الزام ہے ، بقول میجر عامر امریکہ دو سال بعد اس جنگ میں شامل ہوا ، جب اسے یقین ہوگیا کہ روس اس خطے میں قابل شکست ہے ، اسوقت اس نے سیاست کرتے ہوئے جنگ میں شمولیت اختیار کی ۔ پاکستان کی تاریخ میں سوائے جنرل ضیاء الحق کے کوئی حکمران ایسا نہیں گزرا جس نے برابری کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوں ، جہاں ہر حکمران یہاں تک کہ ایوب خان جیسا آمر بھی امریکی احکام کو خدائی احکام تسلیم کرتا ہے ، وہاں ضیاء شہید کی حکومت میں امریکی افواج کا راشن بندی کرکے انہیں تنبیہات دی جارہی ہیں ۔
جنرل ضیاء الحق نے تقاریر کے بجائے کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے عملی اقدامات کیے اور ایسی خفیہ جنگ لڑی کہ بھارتی دانشور چیخ پڑے کہ اگر ضیاء الحق کچھ دیر اور زندہ رہا تو بھارت ماتا کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دے گا ۔ ضیاء الحق نے بھارت سے بنگال کو پاکستان سے کاٹنے کا بدلہ لیتے ہوئے بھارت میں سکھ تحریک خالصتان شروع کروائی , جسکی نہ صرف مالی امداد کی جاتی بلکہ منصوبہ سازی بھی یہیں سے ہوتی تھی ، یہ تحریک بڑے پیمانے پر پھیلی اور کامیابی کے قریب تھی کہ ضیاء الحق مرحوم شہید ہوگئے ۔ ضیاء کی شہادت کے بعد غلام اسحاق خان کے دور میں الیکشن ہوئے ، بینظیر وزیر اعظم بنیں اور اس تمام منصوبے کی خبر بھارتی وزیراعظم انداز گاندھی کو دے کر ملک سے بے وفائی کی تاریخ رقم کی ۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو نہ صرف کشمیر آزاد ہوجاتا بلکہ ہماری مشرقی سرحد بھی محفوظ ہوجاتی ۔

ضیاء الحق مرحوم اسلامی بلاک بناکر اسلامی دنیا کو آگے بڑھانا چاہتے تھے اور یہ سب کچھ مغربی استعمار کیلئے ناقابل یقین ہوتا جارہا تھا ۔ چنانچہ ایک خفیہ منصوبہ بنایا گیا ، آئی ایس آئی کو خبر ہوگئی تھی کہ کوئی منصوبہ بنایا جارہا ہے ، لہذا ایجنسیز الرٹ ہوچکی تھیں ، جنرل ضیاء الحق نے چودہ اگست 1988 کو تقریر کی جو کہ ٹی وی پر بھی نشر کی گئی ، دیکھا جاسکتا ہے کہ ضیاء بارش میں کھڑے تقریر کر رہے ہیں اور عوام سے بھیگ مانگتے ہوئے کہہ رہے ہیں کی اگر آپ مدد نہیں کرسکتے تو کشمیریوں اور فلسطینوں کے لیے دعا تو کرسکتے ہیں ؟

پھر تین دن بعد سترہ اگست 1988 تین بج کر اکاون منٹ پر کو ایک طیارہ بہاولپور سے پرواز کرتا ہے اور بستی لعل کمال کے قریب گر کر پینتیس جانیں کے جاتا ہے جس میں سے ایک نام جنرل ضیاء الحق کا بھی ہے ، ضیاء اپنے قریبی رفقا سمیت شہادت کا رتبہ پالیتے ہیں اور گیارہ سالہ طویل ترین سورج کی طرح چمکتا یہ دور حکومت ختم ہو جاتا ہے ۔

بھارت میں امریکہ کے سابق سفیر مسٹر گنٹر ڈین کے بقول : " ضیاء الحق کو را ، موساد اور سی آئی اے نے ملکر قتل کیا ، کیوں کہ ضیاء پوری دنیا کا نقشہ بدلنے پر تلا ہوا تھا، امریکہ کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ امریکہ جانتا تھا کہ ضیاء یہ سب کچھ کرسکتا ہے "

اس بیان کے بعد گنٹر ڈین کو گرفتار کرلیا گیا اور آج بھی وہ یہ کلمہ کہنے کی وجہ سے امریکی عدالتوں میں کیس لڑ رہا ہے ۔۔۔



 

Hanzala Nouman
About the Author: Hanzala Nouman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.