امام اہلسنت،تصویر بخاری،سلطان المناظرین،فاتح
رافضیت،وکیل ناموس صحابہ و اہلبیت،علامہ علی شیر حیدری شہید رجب 1963ء کو
ضلع خیر پور کے گاؤں گوٹھ موسیٰ خان جانوریاں میں پیدا ہو ئے۔ ان کا تعلق
بلوچ قبیلہ چانڈیو کے زمیندار گھرانے سے تھا۔ والد کا نام محمد وارث جانوری
تھا۔
ابتدائ تعلیم ناز ہائی اسکول سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد جامعہ راشدیہ پیرو
جو گوٹھ خیرپور میں داخلہ لیا۔ درس نظامی کی تکمیل جامعہ اشاعت القرآن
لاڑکانہ سے کی جبکہ ٹھیڑی کے مشہور مدرسہ جامعہ دار الہدیٰ سے دورہ حدیث
کیا۔ علامہ علی شیر حیدری کا شمار شروع سے ہی مکتب کے ہونہار اور ذہین و
فطین طلبہ میں ہوتا تھا۔
حضرت اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران میں ’’حفظ قرآن‘‘ کی سعادت حاصل نہیں
کرسکے تھے لیکن جب انہیں ایک جعلی مقدمے کی بنیاد پر تین سال کی سزائے قید
ملی تو انہوں نے جیل میں صرف تین ماہ کے قلیل عرصہ میں قرآن مجید یاد کرلیا۔
رہائی کے بعد کسی شکوے کی بجائے حاکم وقت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ
’’اگر آپ جیل نہ بھیجتے تو شاید میں قران مجید کا حافظ نہ بن سکتا۔
1984ء میں دوران تعلیم جامعہ عزیزیہ رتوڈیرو لاڑکانہ میں فقہ کی مشہور کتاب
کنز الدقائق کا درس بھی دیتے رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اسی مدرسہ میں درس
و تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ علامہ کی شہرت علوم قرآن ،علوم سنت ،علم فقہ
،علم الکلام اور تقابل ادیان میں کمال مہارت کے طور پر تھی۔ 1987ء میں خیر
پور میں الجامعة الحیدریہ انوار الھدیٰ کے نام سے پروقار مگر سادہ درس گاہ
قائم کی۔ جامعة الحیدریہ میں درس نظامی، تقابل ادیان ،اسلامی معاشرت اور
تمدن کے ساتھ سندھی تہذیب و ثقاقت کے موضوعات پر علمی اور تحقیقی درس دیے۔
علامہ نے پورے سندھ میں اسلامی معاشرت کے تحفظ اور خرافات کی اصلاح کی
کوششیں کیں اور لوگوں کو ان کی اصل اساس یعنی آغاز اسلام سے نسبت جوڑنے پر
زور دیا۔ کیونکہ علامہ کا خیال تھا کہ مسلم معاشروں میں اتحاد و اتفاق صرف
اور صرف اساس اسلام سے مضبوط ربط اور منظم تعلق سے ہی استوار کیا جا سکتا
ہے۔
آپ نے 1979ء میں امریکا اور مغرب کے اشارہ پر فرانس میں رہائش پزیر شیعہ
رہنما خمینی کے ہاتھوں بپا ہو نے والے ایرانی انقلاب کے اس لیے مخالف ہو
گئے کہ امریکی برانڈ اسلام مسلم معاشروں میں فرقہ واریت ،انتہا پسندی اور
نفرت پیدا کر رہا ہے۔
حضرت نے نوجوانوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے دین اور ثقافت کو جانیں اور
سنبھالیں۔ جذباتیت اور شعلہ بیانی کی بجائے علمی اور ادبی میدانوں میں اپنا
کردار ادا کریں۔ آپ فرمایا کر تے تھے کہ بہترین نظم و ضبط کے حامل ،اعلیٰ
اخلاق و کردار کے مالک،اسلام کی روح سے آشنا اور جدید دور کے تقاضوں سے
آراستہ و پیراستہ طلبہ و طالبات ملت کا اثاثہ اور ان کا سرمایہ ہیں۔ انہوں
نے طلبہ پر خصوصی توجہ دی اور فرمایا کہ دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں
کے طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط اور تعلق رکھیں اور باہم علوم و افکار
کا تبادلہ کرتے رہیں۔
آپ نے عالمی حالات و واقعات کا درست سمت تجزیہ کر تے ہو ئے کہا تھا کہ
امریکا مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کر نے کے لیے خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے
جبہ و دستا ر میں چھپے جعلی علماءپیدا کر رہا ہے۔ ان جعلی علماءکا کام
معاشرے میں فروعی اختلافات کو زور دیکر بیان کرنا ہے تاکہ ملک میں مذہب کے
نام پر خانہ جنگی کی کیفیت اور ماحول پیدا کر کے معاشرے کو دین بیزار بنایا
جا سکے۔ دوسری جانب وہ مغربی اقدار کی سر پرستی اور فروغ کے لیے کو شاں ہے
تاکہ معاشرے سے غیرت اور حمیت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ تیسرے محاذ پر وہ آمروں
اور اپنے ایجنٹوں کو ملکوں میں اقتدار پر مسلط کرواتا ہے تاکہ وہ مہنگائی،
کرپشن اور ظلم کا بازار گرم کریں جس سے لوگوں میں ریاست کے خلاف نفرت اور
بغاوت کا جذبہ پیدا ہو۔ یہ ساری صورتیں پاکستان کو تباہی کی جانب لے کر جا
رہی ہیں۔
آپ نے اتحاد بین المسلمین کے داعی اور فکر اسلامی کے نقیب علامہ حق نواز
جھنگوی کی پاک آواز پر لبیک کہا اور سپاہ صحابہ میں شمولیت اختیار کی۔ صوبہ
سندھ کے سر پرست رہے اور18 جنوری 1997ء کو قائد شہید ثانی علامہ
ضیاءالرحمان فاروقی کی شہادت کے بعد علامہ کو سپاہ صحابہ کا سر پرست اعلیٰ
منتخب کر لیا گیا۔
آپ نے علماءکے اتحاد اور فروعی اختلافات کے خاتمے کے لیے شاندار اور تاریخ
ساز جدوجہد کی۔ عدالت عظمی پاکستان میں جسٹس سید سجاد علی شاہ کے سامنے
اگست 1997 میں آپ نے ملت اسلامیہ کا جب موقف پیش کیا تو چیف جسٹس اسلام کے
خلاف اسلام کے روپ میں سازشوں کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ آپ نے
عدالت عظمی پاکستان کے سامنے ائمہ اہل سنت والجماعت ،اور مسالک اہل سنت
والجماعت کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ چیف جسٹس نے جب اسلام، قرآن، رسول
اللہ، اہل بیت، صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے خلاف غلیظ قلم کی ناپاک
جسارتیں دیکھیں تو فرط جذبات پر قابو نا رکھ سکے اور عدالت میں ہی آبدیدہ
ہو گئے۔آپ نے علما، وکلا، سیاسی اور دینی جماعتوں اور شخصیات کے سامنے اپنا
موقف کھلے انداز میں پیش کیا تو سب نے مانا لیکن مصلحت کے پردے میں سامراجی
اور استعماری عزائم سے ناآشنا اور جان کا خوف کھانے والے پیچھے ہٹ گئے۔
لیکن حضرت نے تپتی دھوپ میں وارثت پیغمبری کا علم اٹھایا اور اسلام کا
حقیقی تصور عوام اور خواص کے قلب و دماغ میں گاڑ دیا۔
آپ نے خلیجی ممالک، افریقا، امریکا، یورپ اور برصغیر کے کئی ممالک کے سفر
کیے۔ عربی، انگریزی، فارسی، اردو اور سندھی روانی سے بولتے تھے اور اپنے
نوجوانوں سے بھی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ مختلف زبانیں سیکھنے کا مطالبہ
کر تے۔
آپ کو جیل بھیجا گیا۔ تشدد کیا گیا ،کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہو ئے لیکن مشن
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم رہے۔17 اگست 2009ء کی رات دو بجے تک
خیرپور میں تزکیہ نفوس اور تطہیر فکر و قلوب کی مجلس میں مصروف رہے۔ رات کے
آخری پہر اپنے مرکز روانگی کے لیے نکلے تو گوٹھ دوست محمد ابڑو کے قریب
گھات لگا کر بیٹھے افراد نے علامہ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور اس طرح
راہی ملک عدم ہوئے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون
صحابہ کا جو غلام ہے
ہمارا وہ امام ہے
|