(1)عشرہ مبشرہ میں سے جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا سعد بن
ابی وقاضؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے ابن خطاب! قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ شیطان جب تم
کو راستہ میں چلتا ہوا دیکھتا ہے تو اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ میں
چلنے لگتا ہے( بخاری ومسلم)
اور سنن ترمذی میں یوںہے کہ اے عمر!تحقیق شیطان تم سے ڈرتا ہے۔
فائدہ۔اس مبارک حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی
سے جب شیطان اس قدر دور بھاگتا اور خوف کھاتا ہے تو اُن کی کسی بات میں
شیطان کا دخل کیسے ہوسکتا ہے؟؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ صفت اگرچہ
”عصمت“ نہ ہو، مگر ظلِ عصمت یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص ”حفاظت“ ہونے
میں کیا شبہ ہو سکتا ہے!!
(2)حضرت سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں جنت میں داخل ہواتو میں نے ابو طلحہ کی بی بی رُمَیصا کو دیکھا اور
میںنے وہاںکسی کے چلنے کی آواز سنی تو پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو فرشتوں نے
بتایا: یہ بلال ہیں۔ اور میں نےایک محل وہاں دیکھا تو پوچھا کہ یہ کس کا
ہے؟ فرشتوں نے بتایا کہ: عمربن خطاب کا ہے۔پھر میرا ارادہ ہوا کہ اس محل کے
اندر جا کر اس کو دیکھوں مگر مجھ کو( اے عمر!) تمہاری غیرت کا خیال آگیا۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ نے کہا کہ: یارسول اللہﷺ میرے باپ اور ماں آپﷺ پر فدا
ہوں کیا میں آپﷺ کے اوپر غیرت کرتا!!!(بخاری و مسلم)
فائدہ: اس مبارک حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ جنتی ہیں اور
حضورﷺ نے جنت میں ان کا گھرباقاعدہ دیکھا ہے اور دوسری بات یہ بھی معلوم
ہوئی کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی ایک خاص صفت”غیرت“ تھی اور نبی کریمﷺ
چونکہ ادنی سے ادنی امتی کا بھی بے حد خیال رکھنے والے ہیں تو اسی طرح آپ
نے اپنے خاص صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس غیرت والی صفت کا بھی لحاظ
فرمایا اور جنت میں اُن کے گھر میں داخل نہیں ہوئے۔
(3)حضرت سیدنا ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک روز فرمایا:
میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ قمیص پہنے ہوئے ہیں، کسی کا قمیص پستان تک ہے
اور کسی کا اس سے نیچا اور عمر بن خطاب جو میرے سامنے لائے گئے تو ان کا
قیمص اتنا لمبا تھا کہ چلنے میں زمین پر گھسٹتا جاتا تھا۔ لوگوں نے کہا یا
رسول اللہ ﷺ!اس کی تعبیر آپ کیا دیں گے؟ توآپ نے فرمایا: ”دین“( بخاری
ومسلم)
فائدہ:اس مبارک حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر ”سراپادین“ تھے، بلکہ ان کا
دین ان کی اپنی ہستی سے بھی زائد تھا۔گویاکہ دین داری نے حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کو ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور شاید یہ بھی ایک وجہ تھی اس بات کو جو
اوپر مذکور ہوئی کہ جس راستے پر عمر چلتے ہیں تو شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا
ہے۔
(4)حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
تم سے پہلے کی امتوں میں کچھ لوگ مُحْدَثْ ہوتے تھے یعنی اللہ تعالیٰ کی ہم
کلامی انکو حاصل ہوتی تھی میری امت میں اگر کوئی ایسا ہے تو یقیناً وہ عمر
ہی ہیں۔ ( بخاری ومسلم)
فائدہ: اس مبارک حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس طرح نبی
کریمﷺ کے بہت مقرب تھے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بھی بہت مقرب تھے، اور جس
طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریمﷺ پر ان کے مرتبہ نبوت کے مطابق مخصوص
وحی نازل ہوتی تھی اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بھی ان کے مرتبے کے
مطابق الہام اور کشف وغیرہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی نصیب ہوتی تھی۔
(5)حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو
فرماتے سنا :
اس حال میں کہ میں سورہا تھا مجھے ایک جام دودھ کا دیا گیا میں نے پیایہاں
تک کہ سیرابی کو میں نے دیکھا کہ میر ے ناخنوں سے نکلنے لگی پھرمیں نے اپنا
بچا ہوا دودھ ابن الخطاب کو دیدیا۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہﷺ آپ نے اس
کی کیا تعبیر لی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ”علم“(بخاری ومسلم)
فائدہ:اس مبارک حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ ،علمِ دین میں
بڑی فوقیت رکھتے تھے۔رسول اللہﷺ کا چھوڑا ہواسب ان کے پاس تھا یہی وجہ تھی
کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ
حضرت عمرؓ علم کے دس حصوں میں سے نوحصے اپنے ساتھ لے گئے۔ کسی نے کہا بھی
کہ جلیل القدر صحابہ موجود ہیں، ان کے ہوتے ہوئے آپ ایساکہتے ہیں؟ تو حضرت
ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ میں وہ علم مراد نہیں لیتا جو تم سمجھتے ہو بلکہ
”علم باللہ“ مراد لیتا ہوں۔
(6)حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:
میں نے خواب میںدیکھا کہ میں ایک کنویں پر کھڑا ہوں اور اس پر ڈول رکھا ہے
میں نے اس کنویں سے جس قدر ڈول اللہ تعالیٰ کو منظور تھے نکالے، پھر ابو
بکرؓ نے اس ڈول کو لے لیا اور انہوں نے ایک ڈول بلکہ دو ڈول اس کنویں سے
نکالے اور ان کے نکالنے میں کچھ کمزوری تھی، اللہ ان کی کمزوری کو معاف
کرے۔ پھر وہ ڈول بڑا ہوگا گیا اور اس کو عمرؓ نے لے لیا میں نے کسی طاقتور
انسان کو نہیں دیکھا کہ عمر کی طرح پانی بھر سکتا ہوں یہاں تک کہ تمام لوگ
سیراب ہوگئے۔(مسلم و بخاری)
فائدہ:اس مبارک حدیث میں نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ کے خلیفہ ہونے
اور اُن کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کا صریح اشارہ
ہے اور اس حدیث میں ان کی کثرت و عظمتِ فتوحات کا بھی بیان ہے۔
اس حدیث میں حضرت صدیق اکبرؓکی نسبت جو کمزوری بیان کی گئی یہ ان کی نرم
مزاجی اور قلتِ فتوحات کی طرف اشارہ ہے لیکن ان کے زمانے کے پُر آشوب ہونے
اور مدتِ خلافت کی قلت کے پیشِ نظر،قلت فتوحات کی شکایت بھی باقی نہیں
رہتی۔
(7)حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”تحقیق اللہ نے عمر کی زبان اور اُن کے دل پر حق کو قائم کردیا ہے۔“
اورسنن ابو دائود میں حضرت سیدنا ابو ذر غفاریؓسے منقول ہے کہ آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق عمرؓکی زبان پر رکھ گیا دیا ہے وہ جو کہتے
ہیں حق ہوتا ہے۔“
اور حضرت سیدنا علی ا لمرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے تھے کہ ہم لوگ اس بات کو
بعید نہ سمجھتے تھے کہ: سکینہ حضرت عمرؓ کی زبان پر بولتا ہے( دلائل نبوت)
فائدہ: ”سکینہ“ سے مُراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ وہ علم و حکمت کے
جس دل پر وہ نازل ہوتی ہے تو وہ دل سکون سے بھر جاتا ہے اور اسی طرح جو اس
علم و حکمت کو اخلاص سے قبول کرتا ہے اسے بھی اس علم و حکمت کی وجہ سے دل
کامیں ایک شرح صدر اور سکون و اطمینان کی خاص کیفیات نصیب ہوتی ہیں، تو
حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص علم و حکمت نازل ہوتے تھے
اور پھر وہی علم و حکمت کی باتیں ان کی زبان مبارک پر جاری ہوتی تھیں۔
(8)حضرت سیدناعقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا اگر میرے بعد
کوئی نبی ہوتا تو یقینا وہ عمربن خطابؓ ہوتے۔(رواہ الترمذی)
فائدہ: یہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں بہت بڑی فضیلت ہے کہ گویا
علم و عمل اور قلب و قالب کی استعداد کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو
انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ حد درجہ مناسبت حاصل تھی، اور اگر نبوت
کاسلسلہ باقی ہوتا تو حضرت عمربھی نبی بننے کے پوری طرح اہل تھے مگر چونکہ
حضورﷺ کی آمد پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا اس لیے وہ نبی تو نہیں ہیں مگر
خاتم النبیینﷺ کے ”خاص“ ضرور ہیں۔
(9)حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ: نبیﷺ ایک روز گھر سے باہر
نکل کر مسجد تشریف لے گئے اور آپکے ہمراہ ابو بکر و عمر بھی تھے۔ ایک آپﷺ
کے داہنی جانب تھے اور دوسرے بائیں جانب اور آپﷺ ان دونوں حضرات کے ہاتھ
پکڑے ہوئے تھے اور پھر اسی حالت میں آپﷺ نے فرمایا کہ: ہم تینوں قیامت کے
دن بھی اِسی طرح اُٹھیں گے( ترمذی)
(10)حضرت سیدنا ابو سعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں
سے۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرئیل و میکائیل ہیں اور زمین والوں
میں سے میرے دو وزیر ابو بکر ؓ اور عمرؓ ہیں ( رواہ الترمذی)
فائدہ: چونکہ نبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو اپنی وزیر
قرار دیاتو اسی کا ظاہری اثر یہ بھی ہوا کہ یہ دونوں حضرات جس طرح دنیوی
زندگی میں حضورﷺ کے ساتھ رہے اسی طرح اب برزخی زندگی میں بھی حضورﷺ کے ساتھ
ہی ہیں اور قیامت کے دن بھی حضورﷺ کے ساتھ ہی ہوں گے جیسا کہ اس اسے اوپر
والی حدیث میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔
امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی
جلالتِ شان سے متعلق یہ نبی کریمﷺ کے چند فرامینِ مبارکہ ہیں، جن کا تقاضا
یہ ہے کہ ایک طرف ہم انہیں نبی کریمﷺ کے مبارک فرامین کی حیثیت سے دل کی
خوشی سے قبول کریں اور دوسری جانب ان کی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی
ذات گرامی کی ویسی ہی عظمت و محبت اپنے دل میں پیدا کریں جس طرح کہ نبی
کریمﷺ نے ان کی عظمت و شان کو اجاگر فرمایا ہے۔
آخر میں دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریمﷺ کی محبت و سنت اور آپﷺ کے
اہل بیتِ عظام سلام اللہ علیہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت پر
زندہ رکھے اور اسی پر ہمیں موت دے۔
|