یوم آزادی :وقت ِآغاز سفر جو تیرہ شب تھی اب بھی ہے

وزیر اعظم نریندر مودی اس سال ۱۵؍ اگست کو ساتویں مرتبہ لال قلعہ کی فصیل پر ترنگا لہراکر اٹل جی کا ریکارڈ توڑنے والے ہیں مگر کورونا نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے۔ کورونا کے پیش نظر اس سال لال قلعہ پریوم آزادی کی تقریبات کے لیے وزارت داخلہ اور وزارت صحت نے خصوصی رہنما خطوط جاری کیے ہیں جن پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے گا۔ دورانِ تقریب لال قلعہ میں چار ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار تعینات کئے جائیں گے اور وہ لوگ ایک دوسرے سے دوری کو برقرار رکھتے ہوئے کھڑے ہوں گے۔ تقریب گاہ کے آس پاس تین دن پہلے سے حفاظتی انتظامات سخت کیے جاچکے ہیں ۔ کووڈ 19 کی صورتحال کے پیش نظر تقریبات میں شامل ہونے والوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ سرکاری ہدایات کی پابندی کریں۔ 350 پولس اہلکاروں سرکاری اہتمام کے اندر قرنطینہ میں رکھا گیا ہے تاکہ ان کے ذریعہ اہم ترین لوگ وبا سے متاثر نہ ہوں ۔

راجدھانی دہلی میں74ویں یوم آزادی کی تقریبات کے لیے تاریخی لال قلعہ پر فُل ڈریس ریہرسل تین دن قبل شروع ہوگئی ۔ پولیس نے قومی دارالحکومت میں گاڑیوں کی بلا رکاوٹ آمدو رفت اور تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ہدایات جاری کردیں۔ تقریب تو دور ریہرسل کے دوران بھی ٹریفک پر بندشیں عائد رہیں گی اور قرب و جوار کی مختلف سڑکیں صبح چار بجے سے دس بجے تک آمدو رفت کیلئےبند رہیں گی۔ حکومت دہلی نے کووڈ- 19 وبا کی وجہ سے یوم آزادی کا اپنا بڑاثقافتی پروگرام منسوخ کرکے ایک مختصر سی تقریب پر اکتفا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹروں، نرسوں، صفائی ورکروں،پلازمہ عطیہ دینے والوں، ایمبولنس ڈرائیوروں اور پولیس سمیت کووڈ جانبازوںکو مدعو کیا جائےگا۔ سینٹرل جیل کے عہدیداروں کی امتیازی خدمات کیلئے بھی عزت افزائی ہو گی۔ اس پروگرام میں وزیراعلیٰ کے علاوہ تقریباً 100 لوگ موجود ہوں گے۔

لال قلعہ کی بات ہوتی ہے تو لال چوک کا خیال بھی اپنے آپ ذہن میں آجاتا ہے۔ جموں کشمیر کی راجدھانی سرینگر میں بھی حفاظتی انتظامات سخت کردیئے گئے ہیں ۔15اگست سے 2روز قبل مرکزی تقریب گاہ کو فورسز نے اپنی تحویل میں لےلیا۔ سونہ وارمیں کرکٹ اسٹیڈیم کے گرد نواح میں اضافی فورسز اور پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا نیز اہم پلوں کو بھی خار دار تاروں سے یک طرفہ بند کردیا گیا ۔شہر میں ناکہ چیکنگ کےعمل میں تیزی لائی گئی اورخفیہ کیمروں کے ذریعے مشکوک افراد پر کڑی نگاہ رکھی جانے لگی ۔شہر کے سبھی داخلہ و خارجی مراکزپر فورسز کی پارٹیاں تعینات کر کے مخصوص ناکوں سےگزر نے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں سے پوچھ تاچھ اور جانچ پڑتال کا آغاز ہوا ۔ دریائے جہلم کے کنارے پر واقع ہائوس بوٹوں میں داخل ہو کر ان میں رہائش پذیر لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کئے گئے ۔شہر خاص میں بھی دکا نیں بند رہیں ۔سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوگئی تاہم چند ایک روٹوں پر ٹاٹا مسافر گاڑیاں چلتی نظر آئی ہیں۔ جموں کشمیر حکومت نے انڈر سیکریٹری عہدے کے اُوپر سبھی افسران کو یوم آزادی کی تقاریب میں لازمی شمولیت کی ہدایت جاری کی ۔

ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کے خصوصی درجہ ختم کرنے کے ایک سال بعد بھی یہ مخصوص احکامات جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سرکیولر جاری کر کے یہ کیوں بتانا پڑا کہ یوم آزادی ایک اہم قومی تقریب ہے۔ ہر سرکاری ملازم کا فرض ہے کہ وہ15اگست کے روز منعقد ہونے والی تقریب میں شامل رہے کیونکہ یہ دن ہمارے دیس کی تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے۔ مرکزی زیر انتظام علاقے میں انڈر سیکریٹری عہدے کے سبھی سرینگر میں مقیم افسران شیر کشمیر کرکٹ سٹیڈیم یا جموں میں رہنے والے پریڈ گراونڈ میں حاضری کو اپنا فرض سمجھیں۔ غیر حاضر رہنے والے باضابطہ رخصت لیں ۔سبھی انتظامی سیکریٹری،محکموں کے سربراہان،منیجنگ ڈائریکٹریا چیف ایگزیکٹیوز اپنے ماتحت افسران کی حاضری کو یقینی بنا نے کے لیے گاڑیوں کا خاطر خواہ انتظام کریں۔ کیا اس لیے کہ حریت رہنما سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق نے کشمیری عوام سے ہمیشہ کی طرح یوم سیاہ اور ہڑتال کا اعلان کردیا ہے؟ اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسا صرف وادیٔ کشمیر میں ہوا ہے ؟

سرکاری خبر رساں ایجنسی یواین آئی کے مطابق آسام میں کالعدم شدت پسند تنظیم یونائیٹیڈ لبریشن فرنٹ آف اسوم(الفا-آئی)اور نیشنل سوشلسٹ کاونسل آف ناگا لینڈ/گورنمنٹ آف پیپلس ریپبلک آف ناگالینڈ(این ایس سی این/جی پی آر این)نے بھی یوم آزادی تقریب کا بائیکاٹ اور پورے شمال مشرقی خطے میں ہڑتال کرنے کی اپیل کی ہے ۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جبکہ شمال مشرقی ہندوستان کے تقریباً سبھی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے یا وہ اقتدار میں شریک ہے۔ مذکورہ دونوں شدت پسند تنظیموں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ،’’نوآبادیاتی ہندوستانی یوم آزادی ہمارے لوگوں کے لیے آزادی کا دن نہیں بلکہ غلامی کا ہے۔اس لیے ہم اپنے لوگوں سے اس پروگرام میں حصہ نہ لینے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ وہ خود یا کسی کے دباو میں آکر اسے نہ منائیں۔اگر ممکن ہوسکے تو کسی بھی طرح کے طاقت کا استعمال کرنے پر اسے ریکارڈ کرکےآڈیو-ویڈیو کی شکل میں سوشیل میڈیا پر پر جاری کریں۔

ان تنظیموں نے 15 اگست کو ضروری ہنگامی خدمات کے علاوہ دیگر سبھی کاروباری سرگرمیوں ،انتظامی خدمات اور تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر بند کرنے کی اپیل کی ہے جو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جموں کشمیر اور شمال مشرقی علاقہ کی شدت پسند تنظیمیں یوم آزادی اوریوم جمہوریہ کا بائیکاٹ اور اپنی ’خود مختاری‘ کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 74سالوں تک آزادی اور جمہوریت کی فضا میں سانس لینے کے باوجود ان کا دم کیوں گھٹتا ہے؟ ان کا اعتماد حاصل کرنے میں مختلف جماعتوں کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں کیوں ناکام رہیں ؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انگریزوں سے سیاسی آزادی حاصل کرنے باوجود ملک کے دانشور ان کی ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکے اور نظام سیاست کو انہیں کے وضع کردہ نظریات پر استوار کیا گیا ۔ یہ دراصل افراد اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مغربی جمہوریت کی بھی ناکامی ہےکیونکہ ارباب اقتدار کے لیے تو آزادی کے بعد بہت کچھ بدل گیا لیکن ان شورش زدہ علاقہ کے عام لوگوں کے حالات نہیں بدلے ۔ اس بابت مرتضیٰ برلاس نے کیا خوب کہا ہے؎
نام اس کا آمریت ہو کہ ہو جمہوریت، منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی اب بھی ہے
اڑ رہے ہیں وقت کی رفتار سے مغرب کی سمت، وقت ِآغاز سفر جو تیرہ شب تھی اب بھی ہے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450620 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.