دنیا میں مثالی محبت کی یادگار” تاج محل “جو شاہ جہان نے اپنی محبوب ملکہ کیلئے تعمیر کرایا تھا ، آج بھی اپنی پوری شان وشوکت کے ساتھ صنعت تعمیر اور فنکاری کی منہ بولتی تصویرکے طور پر موجود ہے اور جب تک تاج محل قائم ہے لوگ اس ہستی کو نہیں بھول سکتے جسے ہم ارجمند بانو کے نام سے جانتے ہیں۔
ممتاز محل کا اصل نام ارجمند بانو تھا۔
وہ 4رجب1001 ھ میں یمین الدولہ ابولحسن آصف خان کے ہاں پیدا ہوئی ۔ والدین نے اس کی تعلیم وتربیت اہتمام سے کی۔ جہانگیر بادشاہ کو اس کی سلیقہ شعاری، علم ودانش، ادب وتمیز اور حسن وجمال کا علم ہوا تو اس نے اسے نوجوان شہزادے خرم کے لیے مانگ لیا۔ 1612میں شہزادہ خرم (شاہجہان) اور ارجمند بانو کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ شادی کی رسوم اعتماد الدولہ کے عظیم محل میں ادا کی گئیں۔ جہانگیر نے بذاتِ خود شادی میں شرکت کی۔ دولہا نے اپنے ہاتھوں سے ہیروں کا ہار دلہن کے سر سے باندھا۔ پانچ لاکھ کا مہر قرار پایا۔ ارجمند بانو کے حسن صورت وسیرت کے باعث شاہجہان اس سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا۔ وہ بڑی عالمہ، فاضلہ ،سخن فہم اور شاہجہان کی ہم مزاج تھی۔ شاہجہان چاہے سفر میں ہو یا حضر میں ہمیشہ اسے اپنے ساتھ رکھنا پسند کرتا تھا۔ 1628 میں وہ تخت نشین ہوا تو تاج پوشی کے موقع پر ارجمند بانو کو ممتاز محل کا لقب دیا اور ایک بڑی جاگیر عطا کی۔ دونوں میاں بیوی کی محبت مثالی تھی جس میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔شاہجہان اس کے مشوروں کو بہت اہمیت دیتا تھا۔ممتاز محل ایک رحمدل خاتون تھی اور اپنے اثرو رسوخ کو ہمیشہ رعایا کے حق میں مفید ثابت کرتی رہی۔اس نے بہت سے لوگوں کی جان بخشی کرائی اور بے شمار قیدیوں کی سزا میں کمی کروائی۔ یہ سب کچھ اس نے ازراہِ رحم کیا اور بادشاہ کے احکام حاصل کئے ورنہ وہ گھریلو قسم کی خاتون تھی اور امورِ سلطنت میں داخل اندازی کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ اپنے شوہر کا بے حد خیال رکھتی تھی۔اس کی خدمت کو اپنے لئے بڑی سعادت جانتی تھی۔اس کو شاہی خزانہ سے بارہ لاکھ روپیہ سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔ اس کا بڑا حصہ وہ غریبوں اور حاجتمندوں کی امداد کرنے میں صرف کرکے خوشی حاصل کرتی تھی۔ ممتاز محل شاہجہان کی چہیتی ملکہ تھی۔ ممتاز محل سے شاہجہان کے چودہ بچے پیدا ہوئے جن میں سے نصف زندہ رہے ۔ تین شہزادیاں اور چار شہزادے۔ شہزادوں کے نام یہ ہیں: دارا شکوہ، محمد شجاع ، مراد بخش، اور محمد اورنگ زیب۔ ان میں سے اورنگ زیب(عالمگیر) ہندوستان کے تخت وتاج کا مالک ہوا اور پچاس سال تک بڑی شان سے حکومت کی۔ شہزادیوں کے نام یہ ہیں: جہاں آراء بیگم ، روشن آراء بیگم، گوہر آراء بیگم۔ 1631 میں شاہجہان دکن گیا تو ممتاز محل کو بھی ساتھ لے گیا۔برہان پور کے مقام پر ممتاز محل کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی۔ اس کی ولادت کے فوراََ بعد 17ذی قعدہ 1040 بمطابق 17 جون 1631 کو وہ راہی ملک عدم ہوگئی۔ شاہجہان کو اس کی موت کا نہایت صدمہ ہوا اور اس کے بعد اس نے کوئی اور نکاح بھی نہ کیا۔ ممتاز محل کا جسد خاکی کچھ مدت کے بعد برہان پور سے آگرہ لاکراس عظیم الشان مقبرے میں دفن کیا گیا جو تاج محل کے نام سے مشہور ہے۔ تاج محل نہ صرف دنیا کی حسین ترین عمارتوں میں سے ایک ہے بلکہ اپنے فن تعمیر کے بعض پہلووٴں کی نسبت سے دنیا بھر میں اس عمارت کا کوئی ثانی نہیں۔ تاج محل یقینی طور پر شاہجہان کی محبت و عشق کی وہ یادگار ہے جو صدیوں سے لوگوں کو محبت کا پیغام دیتی آرہی ہے۔ کل آپ نہ ہوں گے ،ہم نہ ہوں گے لیکن تاج محل ہوگا اور ممتاز محل کانام ہوگا۔
|