سعودی عرب پاکستان کا حقیقی دوست

مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان ہر سطح پر غیر معمولی اور مضبوط برادرانہ تعلقات کے حامل ہیں جو دونوں برادر ممالک کے عوام کو متحد کرتے ہیں، سعودی عرب پاکستان کا ایک بہت بڑا حامی ہے، اور اس نے پاکستان کومختلف تاریخی مراحل میں بہت ساری معاشی اور ترقیاتی مدد فراہم کی ہے،اور آخری امداد یہ تھی کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب کا وہ اعلان جب انہیں کچھ معاشی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا، جیسا کہ انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں یہ کہا تھا: "پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی ایسی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جہاں خسارے کی شرح مالی سال 2017-2018 کے لئے جی ڈی پی کے 6.6%" اور اسی وجہ سے ریاض نے فوری طور پر 6 ارب ڈالرتک امداد کی مالیت کا ایک پیکیج پیش کیا، جس میں سے نصف غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھانا تھا، جو اس وقت کے متعدد معاشی ماہرین کا خیال تھا کہ وہ پاکستان کو مالی ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی کے امکان کو رد کرنے کے لئے کار آمد ثابت ہوگا۔

اس کے علاوہ سعودی عرب نے فروری 2019 میں سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر، اعلان کیا کہ سعودی عرب پاکستان میں مختلفشعبوں میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، اور یہ معلوم ہے کہذخائر ایک خاص مدت تک محدود ہیں اور قرضوں اور ترقیاتی امداد کے برخلاف جمع ملک کی شرائط کے مطابق واپس کردیئے جاتے ہیں۔حالیہ چند دنوں سے سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں چند من گھڑت باتیں کی جا رہی ہیں جن کا دور دور سے سچائی کو کوئی تعلق نہیں ہے،سوشل میڈ یا پرسعودی عرب اور پاکستان کے مابین مضبوط تعلقات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، اور یہ ظاہرکرنے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان کے ساتھ متنازعہ جموں و کشمیرکے معاملے پر سعودی عرب پاکستان کی حمایت نہیں کرتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے نظریات اورخیالات بالکل غلط اور بے بنیادہیں۔

·گزشتہ برس 2019 میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد، متنازعہ کشمیر کے خطے میں پاکستان اور ہندوستان کی فوجوں کے مابین فائرنگ کے تبادلے کے ساتھ ہی، خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود نے اپنے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کوپاکستان کی حمایت اور اظہار یکجہتی کے لئے اسلام آبادد روانہ کیا۔· 4 مارچ 2019 کو، اسوقت کے پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعلان کیا کہ سعودی عرب نے پاکستان اور بھارت کے مابین فوجی کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ "· اور اگست 2019 میں، جب ہندوستانی حکومت نے کشمیر کی آئینیخودمختاری کے خاتمے کا اعلان کیا، تو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا فون آیا، سرکاری سعودی پریس ایجنسی کی اطلاع کے مطابق، اس رابطے میں خطے میں ہونے والی پیشرفت، اور کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا، اور خان نے خطے میں کشمیرکی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بتایا۔ا اگست 2019 میں، سعودی وزارت خارجہ نے جموں و کشمیر کے لئے خودمختاری کی ضمانت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے ہندوستان کے فیصلے پر تبصرہ کیا اور خطے کی صورتحال میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا اور خطے کے باشندوں کے مفادات کو مدنظر رکھنے پر زور دیا۔

· اسی سال ستمبر میں، اور نئی دہلی اور اسالم آباد کے مابین تناؤ کی ایک نئی لہر کے بعد، سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ، عادل الجبیر، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ، ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازعہ پر قابو پانے کے لئے اسلام آباد آئے تھے، اور ایک روزہ دورے کے دوران، دونوں وزرا نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان، اوروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاک فوج کے کمانڈر جنرل قمر جاویدباجوہ، اور دیگر پاکستانی عہدیداران سے ملاقات کی۔اسوقت پاکستانی حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں وزرا ٗ نے ملاقات کے دوران پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی،اہمیت پر زور دیا اور یہ کہ ان کا یہ دورہ دونوں ممالک کی قیادتوں کی رہنمائی میں ہوا، اور دونوں وزراء نے خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے میں پاکستان کے کردار اور کوششوں پر بھی توجہ مبذول کروائی، انہوں نے موجودہ چیلینجز کا مقابلہ کرنے ، تناؤ کو کمکرنے، اور ایسے ماحول کو فروغ دینے کے عزم میں سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے تسلسل کی تصدیق کی جہاں امن وسلامتی موجودہو، اس ملاقات کے دوران، پاکستانی وزیر اعظم نے عالمی برادری پر زوردیا کہ وہ متنازعہ کشمیر کے عالقے پر نئی دہلی کے کنٹرول میں آنے والے حصے میں غیر قانونی اور جارحانہ اقدامات کو روکنے اور تبدیل کرنے کے لئے ہندوستان پر دباؤ ڈالے۔

پاکستان اور سعودی عرب بارے جو ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے وہ حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن کی سازش ہے جسے اندرون وبیرون ملک میں بیٹھے عناصر انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں،پاکستان کے دوست ملک سعودی عرب کے خلاف اس پروپیگنڈے کے پیچھے کون سے عناصر ہیں؟ اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں لیکن وہ عناصر اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ پاک سعودی تعلقات ایسے نہیں کہ پروپیگنڈوں کی بنیاد پر ان کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی جائے، پاکستان اور سعودی عرب دونوں اسلامی ملک، ایک امت مسلمہ کا روحانی مرکز ، دوسرا دفاعی مرکز ہے، دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی مذموم سازشیں کرنے والے کبھی بھی کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ پاک سعودی تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتیں کیونکہ پاکستان عالم اسلام کا دفاعی مرکز اور سعود ی عرب روحانی مرکز ہے،حرمین شریفین کی وجہ سے حکومتیں ہی نہیں پاکستان کے عوام بھی سعودی عرب سے ایک جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ سعودیہ کی جانب سے پاکستان کی معاشی معاونت کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ خصوصاً جب پاکستان نیوکلیئر پاور بنا اور امریکا کی جانب سے امداد روک دی گئی تو یہ سعودی عرب تھا جس نے دباؤ کے باوجود تیل کی فراہمی جاری رکھی اور ممکنہ تعاون بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہر برے وقت میں سعودی عرب کا ساتھ دیا۔ یمن کے مسئلہ پر سعودی عرب پاکستان سے مشروط حمایت چاہتا تھا مگر اس وقت کی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے مشروط حمایت کے براہ راست اعلان کی بجائے سعودی یمن چپقلش کے خاتمہ کے کردار کیلئے اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لانے کا عندیہ دیا اور حال ہی میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو نیا موڑ ملا، سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان پر 20 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کے 7 معاہدے بھی ہوئے۔ محمد بن سلمان نے پاکستان کے بعد بھارت جا کر پاکستان سے دوستی کا ذکر کر کے انہیں بھی باور کرایا کہ پاکستان ان کیلئے کتنا اہم ہے،اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں اس دورے کے بعد پروپیگنڈے کرنے والوں کو کہیں چھپنے کو جگہ نہیں ملے گی
 

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 62252 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.