پاکستان میں کوئی بھی دور سیاسی مخالفین کیلئے کسی عذاب
سے کم نہیں رہا حالانکہ سب کو علم ہو تا ہے کہ اقتدار دائمی شہ نہیں اور اس
نے ایک دن بے وفائی کرنی ہے لیکن اس کے باوجود بھی سیاسی مخالفین پر عرصہِ
حیات تنگ کرنے سے ہاتھ نہیں کھینچا جاتا۔مخالفین کو دبانا شائد کامیابی کی
کلید تصور کی جاتی ہے۔سیاسی مخالفین دہائی دیتے رہتے ہیں لیکن ان کی کوئی
نہیں سنتا اور یوں وہ سالہا سال الزامات کا سامنا کرتے رہتے ہیں ۔آصف علی
زرداری کے ان گیارہ سالوں کا حساب کون دیگا جو انھوں نے الزماتی سیاست کی
وجہ سے زندانوں کی نذر کئے تھے اور اپنے معصوم بچوں اور جوان بیوی کی جدائی
میں قیدِ تنہائی میں گزارے تھے ۔ظلم کی کوئی انتہا ہوتی ہے لیکن سفاک لوگ
شائد اس احساس سے عاری ہوتے ہیں اسی لئے انھیں رحم نہیں آتا۔ کیااقتدار کے
معنی کانوں سے بہرہ اور آنکھوں سے اندھا ہو جاناہیں ۔سیاسی مخالفین کو
کچلنے کی روش صرف عمران خان پر ہی منطبق نہیں ہوتی بلکہ اس سے قبل جنرل
محمد ایوب خان،جنرل یحی خان، ذولفقار علی بھٹو،جنرل ضیا الحق،جنرل پرویز
مشرف اور میاں محمد نواز شریف بھی اس جرم میں برابر کے شریک تھے لیکن نتیجہ
وہی ڈھاک کے تین پات ۔آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹوکے دورِ حکومت
کو خصوصی استثنی حاصل تھا جس میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا ۔ پی پی پی نے
میثاقِ جمہوریت کے بعد انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا تھا اور سیاسی مخالفین
پر عرصہ ِ حیات تنگ کرنے کی بجائے انھیں مفاہمت کی لڑی میں پرو لیا تھا جس
سے اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں ۔اس جراتِ
رندانہ پر دو وزرائے اعظم کی قربانی تو دینی پڑی تھی لیکن پارلیمنٹ اپنی
جگہ پر قائم و دائم رہی تھی جو کہ بڑی غیر معمولی کامیابی تھی۔ ۵۸ ٹو بی کے
خاتمہ کے بعد صدرِ پاکستان کی شمشیرِ برہنہ سے اسمبلیاں تو قتل ہونے سے
بچتی رہیں لیکن باہمی مخاصمت اور ذاتی انا نے وہ رنگ دکھائے کہ انسان شرم
سے اپنا چہرہ چھپا لے ۔ سیاسی مخالفین پر اسے ایسے گھٹیا الزامات چسپاں کئے
گے کہ انسان شسدر رہ جائے۔ابھی کل کی بات ہے کہ ۱۱ اگست کو نیب نے مریم
نواز کو اپنے دفتر میں طلب کیا لیکن یہ طلبی جنگ و جدل میں بدل گئی اور نیب
کی عمارت میدانِ جنگ کا منظر پیش کرنے لگی ۔آنسو گیس،لاٹھی چارج ،شیلنگ اور
سنگ بازی نے ماحول کوکشیدہ کر دیا ۔ دونوں جانب سے دل کھول کر مزاحمت
ہوئی۔مریم نواز کئی گھنٹے نیب کے دفتر کے سامنے موجود رہیں لیکن نیب اپنی
کاروائی مکمل کرنے سے معذور رہا ۔نیب کی زیادتیوں اور یکطرفہ کاروائیوں کی
وجہ سے مریم نواز کا موڈ بڑا جارحا نہ تھا ۔مسلم لیگ (ن ) کے پروانے مریم
نواز کے چاروں طرف جمع تھے اور ان کی حفاظت کی خاطر سروں پر کفن باندھ کر
نکلے تھے۔عمران خان کی حکومت نے قومی احتساب کو اپنے مخالفین کیلئے جس طرح
یکطرفہ بنا رکھا ہے اس سے احتساب کا ادارہ ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔،۔
مریم نواز اس وقت پاکستان کی انتہائی مقبول لیڈر ہیں۔ان میں جرات مندی کا
جو وصف ہے وہی ان کی مقبولیت کی بنیاد ہے۔جو انسان اپنے مخالف کو میدان میں
للکارتا ہے اس کی مقبولیت کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ مریم نواز کی نگاہیں وزارتِ عظمی پر جمی ہو ئی ہیں اور ایسا کرنا
کوئی جرم نہیں ۔ان کی آواز کا عزم اور ان کی نگاہوں میں تیرتی چمک صاف بتا
رہی ہے کہ وہ کسی سے ڈرنے والی نہیں ہیں ۔ ان کی بے خوفی کو محسوس کیا جا
سکتا ہے۔ایک عرصہ کے بعد انھوں نے اپنی خاموشی کا قفل جس با جرات انداز میں
توڑا ہے اس سے حکومت کے اوسان خطا ہو گے ہیں۔اسے بھلا کوئی کیا ڈرائے گا جس
نے اپنی ماں کو لمحہ لمحہ دم توڑتے دیکھا ہو اور جسے ماں سے آخری ملاقات کی
اجازت نہ دی گئی ہو؟ ماں کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر قانون کی بالا دستی کی
خاطر جیل کی آہنی سلا خو ں کا انتخا ب غیر معمولی جرات کا متقاضی تھا اور
مریم نواز نے ایسی ہی اعلی جرات کا مظاہرہ کیا تھا۔نیب کی پیشی سے ڈرانے
والوں کو شائد مریم نواز میں چھپی ہوئی جرات کا صحیح ادراک نہیں ہو سکا
تھاتبھی تو نیب پیشی پر انھیں حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔وہ سامنے تھیں لیکن
ان سے سوال کرنے والے سہمے ہوئے تھے ۔ مریم نواز بلٹ پروف گاڑی میں تھیں
لیکن ان کی گاڑی کے شیشوں کو شدید نقصان پہنچا ، حالانکہ بلٹ پروف گاڑی کو
سنگ زنی سے تو نقصان کا احتمال نہیں ہو تا ۔اگر بلٹ پروف گاڑی کے شیشے سنگ
و خشت سے متا ثرہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گاڑی بلٹ پروف نہیں تھی
اور اگر واقعی گاڑی بلٹ پروف تھی تو پھر یہ سنگ زنی کا نہیں بلکہ کوئی
دوسرا ہی کھیل تھالہذا اس بات کا کھوج لگانا انتہائی ضروری ہے کہ مریم نواز
کی گاڑی کے شیشوں کوکیسے نقصان پہنچا؟ہمارے ہاں ماضی میں ایسے واقعات تواتر
سے ہوتے رہے ہیں جس میں سیاسی شخصیات کا کھلے عام قتل کیا جاتا
تھا۔اسٹیبلشمنٹ کی سازشیں اور ایجنسیوں کی پھرتیاں کسی سے بھی ڈھکی چھپی
نہیں ہیں۔پہلے وزیر ِ اعظم خان لیاقت علی خان کا دن دہاڑے قتل،حسین شہید
سہر وردی کا قتل، محترمہ فاطمہ جناح کا قتل اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کا
لیاقت باغ میں قتل عوام کو خون کے آنسو رلا نے کیلئے کافی ہے ۔ ذولفقار علی
بھٹو کی کہانی دوسری ہے کیونکہ انھیں تو ایک جھوٹے مقدمہ میں پھانسی کا
پھندا ڈال کر راستے سے ہٹا یا گیا تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا کرنے والوں سے
کوئی باز پرس نہ کر سکا ۔وہ قوتیں دس سالوں تک اقتدار کی مسند پر برا جمان
رہیں اوربڑی ڈھٹا ئی سے پی پی پی کے خلاف مورچہ بند رہیں ۔ان کیلئے ذولفقار
علی بھٹو کے خون کی کوئی اہمیت نہیں تھی اسی لئے انھوں نے اس عظیم سیاست
دان کا قتل کرنے میں پس و پیش سے کام نہ لیا۔ انھیں ذولفقار علی بھٹو کی
جان چائیے تھی جو انھوں نے لے کر چھوڑی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر
پاکستان کی سالمیت پر سوالیہ نشان لگ گیا تھااور ریاست اپنا وجود کھو چکی
تھی لیکن اس کے باوجود ان قوتوں کی سازشوں میں کوئی کمی نہیں آئی ۔شائد یہ
گروہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے ۔کیا پاکستان اس طرح کے کسی اور
سانحہ کا متحمل ہو سکتا ہے؟مریم نواز کی سیاست سے اختلاف کرنا کوئی انہونی
بات نہیں۔جمہوریت کا حسن ہی اختلاف میں مضمر ہے لیکن کسی کو اپنے مخالف کی
جان لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔پاکستان میں خونوں کی سیاست بہت ہو چکی
اب اس مکرو ہ کھیل کا خاتمہ ہو جانا چائیے۔اسٹیبلشمنٹ کو بخوبی علم ہے کہ
مریم نواز کا تعلق پنجاب سے ہے لہذا پنجاب میں انتشار ملکی سالمیت کے لئے
انتہائی خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔بھارتی مکاریاں اور دھمکیاں پہلے ہی
باعثِ تشویش ہیں لیکن ایسے ماحو ل میں اگر قومی قائدین کو کھلے عام نشانہ
بنایا جائیگا تو پھر قوم کیسے یک جان ہو کر بھارتی جارحیت کا مقا بلہ کر
پائیگی ؟کشمیروں کی آہیں ہم سے قومی اتحاد کا تقاضہ کر رہی ہیں لیکن ہم ہیں
کہ اپنے مخالفین کو صفحہ ِ ہستی سے مٹانے کی سازشوں میں الجھے ہو ے
ہیں۔مریم نواز قومی لیڈر ہیں اور ان کی جان کی حفاطت کرنا حکومت کی اولین
ذمہ داری ہے۔مسلم لیگ (ن) گاڑی پر حملہ کو قتل کی سازش سے تعبیر کر رہی ہے
اور عمران خان کے خلاف قتل کی ایف آئی آر رجسٹر کروانا چاہتی ہے لیکن حکومت
ان کی ایف آئی آر رجسٹر نہیں کر رہی۔کچھ بھی ہو اس وقعہ کی غیر جانبدارانہ
تحقیقات ہونی چائیں کہ مریم نواز پر قاتلانہ حملہ کی منصوبہ بندی حکومتی
سطح پر تھی یا یہ کسی شخص کاذ اتی فعل تھا؟ اس واقعہ میں ملوث افراد کو
قانون کے کٹہرے میں لانا حکومت کا فرض ِ اولین ہے اور اس میں کسی کاہلی ،سستی
اور غفلت کا مظاہرہ نہیں ہونا چائیے ۔،۔ |